کفر ابی طالب کے باب میں مروی روایت پر اعلیٰ حضرت کے استدلال پر فضول اعتراضات کا رد
《ایک مجہولیے کی طرف سے کفر ابی طالب کے باب میں مروی روایت پر اعلیٰ حضرت کے استدلال پر فضول اعتراضات کا رد》
ازقلم:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
●اہلسنت ابو طالب کے کفر کو بیان کرنے کا کوئی احتمام نہیں کرتے البتہ جب تفضیلی و رافضی اہلسنت پر طعن کرنے کا بہانہ بنا کر ابو طالب کے کفر کو بطور دلیل دیکر اہلسنت کو آل رسولﷺ اہلبیت کا گستاخ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر انکی ٹھکائی کرنے کا ہم پورا حق رکھتے ہیں ۔
●ہم کو ایک مجہول کی کچھ تحاریر موصول ہوئی ہیں جس میں وہ علم رجال سے لاعلم شخص کفر ابو طالب کو رد کرنے کے لیے جہالت کی انتہاء تک جا کر اپنے اصول گھڑ کر روایات حتی کہ صحیحین کی روایات کو موضوع قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔
●جیسے جیسے ہم کو وقت ملتا رہے گا اس کی جہالت بھری تحاریر کا تفصیلی رد کرتے رہینگے۔ایک روایت جسکو امام ابو یعلیٰ الحنفی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اس پر اس کے اعتراض کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں :
▪︎چناچہ مجہول لکھتا ہے▪︎ :
مسند ابی یعلی الموصلی کی ایک روایت حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے یوں روایت ہے متن حدیث ملاحظہ ہو:
قیل للنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھل نفعت اباطالب قال اخرجتہ من غمرۃ جھنم الی ضحضاح منھا
مسند ابی یعلی کے یہ الفاظ نہیں بلکہ اصل ماخذکے یہ الفاظ ہیں:
حدیث نمبر 2047
حدثنا سریج بن یونس، حدثنا اسماعیل ، عن مجالد، عن الشعبی، عن جابر بن عبداللہ، قال سئل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن ابی طالب ھل تنفعہ نبوتک قال نعم، اخرجتہ من غمرۃ جھنم الی ضحضاح منھا حکم حسین، سلیم، اسد (اسنادہ ضعیف)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی نبوت نے جناب ابوطالب علیہ السلام کو کوئی نفع دیا ہے؟
تو آپ نے فرمایا کہ ہاں! میں نے اسے گہری جہنم سے نکال کر آخری اوپر والی سطح جہنم میں لاکھڑا کیا ہے۔ پتلی آگ میں وہ کھڑے ہیں۔
👈الجواب بعون الوہاب
محترم قارئین! اس روایت کا جواب خود واضح ہے اور روایت کے متن کے اندر منصوص ہے۔ (اسنادہ ضعیف)
اس کی اسناد ضعیف ہیں۔
جب خود صاحب کتاب اسے ضعیف کہہ رہے ہیں تو پھر اس کی گنجائش کفر ابی طالب علیہ السلام میں کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟
اہل علم کو کچھ سوچنا چاہیے تھا کہ اس حدیث سے کفر ابی طالب علیہ السلام ثابت کیا جارہا ہے کم از کم حدیث کی صحت کا ہی اہتمام کرلیاجاتا۔ یہاں تو خود محدث بول رہے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے پھر بھی اہل علم نے بضد ہو کر اسے کفر ابی طالب علیہ السلام میں اپنی مبحث شریف میں جڑ دیا ہے۔
نہ تو اس سے کفر ابی طالب علیہ السلام ثابت ہوسکتا ہے نہ ہی صاحب مبحث علیہ الرحمہ کے شایان شان تھا۔
اب آئیے اس حدیث کی سند کی طرف چلتے ہیں:
اس روایت کی سند میں ایک راوی مجاہد بن سعید الہمدانی ہیں میزان الاعتدال والوں نے اسے یوں بیان فرمایا ہے:
مجاھد بن سعید الھمدانی مشھور صاحب حدیث علی لین فیہ قال ابن معین وغیرہ لا یحتج بہ روی عن قیس بن ابی حازم والشعبی ، قال ابن معین لا یحتج بہ
قال احمد یرفع کثیرا ما لا یرفع الناس لیس بشئ
وقال النسائی لیس بقوی۔ وذکر الاشبح انہ شیعی، وقال دار قطنی ضعیف، وقال البخاری کان یحی یضعفہ وکان ابن مھدی لایروی عنہ
📘(میزان الاعتدال)
مجاہد بن سعید ہمدانی شعبی سے روایت کرتے ہیں (اس میں انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے) مشہور ہیں کہ یہ حدیث کی نقل میں لین و نرم ہیں۔ یعنی قابل اعتماد نہیں۔ ابن معین کہتے ہیں کہ یہ قابل حجت ہی نہیں۔ احمد کہتے ہیں کہ یہ کوئی چیز نہیں جن روایات کو دوسرے اہل علم مرفوع نہیں بیان کرتے یہ انہیں روایات کو مرفوع بیان کردیتے ہیں ۔ نسائی نے کہا یہ قوی نہیں ۔ اشبح نے ذکر کیا یہ شیعہ تھا۔ دارقطنی نے کہا یہ ضعیف ہے۔ امام بخاری نے کہا کہ یحییٰ ان کی تضعیف کرتے تھے۔ اور ابن مہدی اس سے روایت ہی نہیں کرتے تھے۔
قارئین محترم! یہ ہے وہ روایت جس میں کفر ابی طالب علیہ السلام کو ثابت کیا جاتا ہے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
حیرت اس بات پر ہے کہ جس حدیث کا اپنا وجود صحت سے عاری ہو اور وہ حدیث مفید یقین تو دور کی بات ہے مفید ظن بھی نہ بن سکے اس حدیث کو خود بیان کرنے والا بھی اعتراف کرے کہ یہ ضعیف ہے اور اس کی نشاندہی الگ سے نہیں بلکہ اسی روایت کے ضمن میں کردے تو پھر اس سے کفر ابی طالب علیہ السلام کا استدلال کرنا اور وہ بھی حرم نبوت کے عظیم ترین شخص کی بابت یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
مشن: تحفظ حرمت اھل بیت نبوت
●●۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔●●
●اس شخص کی جہالت کے چند چیدہ چیدہ نکات!
○۱۔ اس نے اس روایت کی چند کے علاوہ مکمل اسناد کو بیان نہیں کیا بغیرکامل تحقیق کلام کرکے روایت کا رد کرنے بیٹھ گیا
○۲۔ اسکو کو یہ بھی معلوم نہیں کہ امام ابی یعلی نے اس روایت پر تضعیف کا حکم نہیں لگا یا بلکہ اس کتاب کے محقق سلیم اسد جسکا حاشیہ ہے روایات کی تحقیق میں اسکے حکم کو مصنف (یعنی امام ابی یعلیٰ) کا حکم بنا دیا
○۳۔ مجالد بن سعید پر مکمل ناقدین کا کلام پیش نہیں کیا گیا فقط چند جروحات میزان الاعتدال سے اٹھا کر اپنا جھوٹا مدہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
●اب ہم پہلے اس روایت کی مکمل اسناد بیان کرتے ہیں :
پہلا طریق جو امام بخاری اپنی صحیح میں لائے وہ درج زیل ہے :
▪︎حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثنا عبد الملك، حدثنا عبد الله بن الحارث، حدثنا العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما اغنيت عن عمك فإنه كان يحوطك ويغضب لك، قال:” هو في ضحضاح من نار , ولولا انا لكان في الدرك الاسفل من النار”
▪︎ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔
[صحیح بخاری برقم: 3883]
●یہ روایت امام بخاری نے مختلف ابواب میں نقل کی ہے لیکن اسکا مرکزی راوی ایک ہے جو کہ ” عبد الملك بن عمير” ہے اور اس پر متعرض کے اعتراضات کا جواب آگے آئے گا
اور یہ راوی اس روایت میں منفرد نہیں ہے
اس روایت کا دوسرا طریق جسکو امام مسلم لائے ہیں :
▪︎حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن الهاد ، عن عبد الله بن خباب ، عن ابي سعيد الخدري ، ” ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذكر عنده عمه ابو طالب، فقال: لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، فيجعل في ضحضاح من نار، يبلغ كعبيه، يغلي منه دماغه “.
▪︎سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کا ذکر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید ان کو فائدہ ہو میری شفاعت سے قیامت کے دن اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو لیکن بھیجا پکتا رہے اس سے۔“
[صحیح مسلم برقم: 513]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
●معلوم ہوا کہ اس روایت کو بیان کرنے والے تین صحابہ کرام سے یہ روایت مروی ہے
ایک صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ
دوسرے صحابی ابو سعید الخدری
تیسرے صحابی حضرت عباس بن عبد المطلب ہیں
●اب ہم ان طریق کی پر جو اعتراضات وارد ہیں انکا جواب پیش کرتے ہیں :
○پہلا طریق جو امام ابی یعلی نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے جس میں مجالد بن سعید امام شعبی سے بیان کرتے ہیں مذکورہ روایت کو حضرت جابر سے
●اس راوی پر تفصیل درج زیل ہے :
▪︎مجالد بن سعید ہیں
جیسا کہ امام ذھبی میزان میں انکے بارے نقل کرتے ہیں:
مجالد بن سعيد [عو، م معا] الهمداني.
مشهور صاحب حديث على لين فيه.
روى عن قيس بن أبي حازم، والشعبي.
وعنه يحيى القطان، وأبو أسامة، وجماعة.
قال ابن معين وغيره: لا يحتج به.
وقال أحمد: يرفع كثيرا مما لا يرفعه الناس، ليس بشئ.
وقال النسائي: ليس بالقوى.
وذكر الاشج أنه شيعي.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال البخاري: كان يحيى بن سعيد يضعفه، وكان ابن مهدي لا يروي عنه.
وقال الفلاس: سمعت يحيى بن سعيد يقول: لو شئت أن يجعلها لي مجالد كلها عن الشعبي، عن مسروق، عن عبد الله – فعل.
وقيل لخالد الطحان: دخلت الكوفة فلم لم تكتب عن مجالد؟ قال: لانه كان طويل اللحية.
قلت: من أنكر ماله: عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة – مرفوعا.
لو شئت لاجرى الله معي جبال الذهب والفضة
[میزان الاعتدال برقم : 7070]
●اسکے مقابل محدثین کی توثیق بھی مروی ہے جو کہ درج ذیل ہے :
▪︎وقال: حدثنا سفيان عن مجالد بن سعيد، «وقد تكلم الناس فيه وبخاصة يحيى بن سعيد ، وهو ثقة»
امام سفیان فسوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے انکے بارے کلام کیا ہے خاص کر یحییٰ بن سعید نے لیکن یہ ثقہ ہے
[المعرفہ والتاریخ جلد ۳ ص ۱۰۰]
▪︎وأما مجالد والأجلح فقد تكلم الناس فيهما، ومجالد على حال أمثل من الأجلح.
اور امام سفیان الفسوی کہتے ہیں کہ مجالد کا حال الاجلح راوی سے بہتر ہے (نوٹ الاجلح ثقہ راوی ہے)
[المعرفہ والتاریخ جلد ۳ ص ۸۳]
▪︎وَرَأَيْتُ في كتاب عليٍّ: قَالَ يَحْيَى بن سعيد: أملى عليَّ جعفر بن مُحَمَّد الْحَدِيْث الطويل؛ يعني: حديث جابر في “الحج.
قلت ليَحْيَى: مُجَالِد بن سعيد وجعفر بن مُحَمَّد؟ قَالَ: مُجَالِد أحب إليَّ من جعفر.
سَمِعْتُ يَحْيَى بْن مَعِيْن يقول: مُجَالِد بْن سَعِيد ثقة.
وَسَمِعْتُه مرة أخرى يَقُولُ: مُجَالِد بْن سَعِيد ضَعِيْف واهي الْحَدِيْث.
مجھے امام یحییٰ بن معین نے کہا کہ جعفر بن محمد سے مجھے مجالد زیادہ محبوب ہے
اور ابن معین نے مجالد کو ثقہ قرار دیا ہے
اور پھر سنا کہ یہ ضعیف اور واھی الحدیث ہے
[تاریخ الکبیر امام خیثمہ برقم : 4065- 3214]
▪︎ مجَالد بن سعيد ثِقَة قَالَه يحيى
امام ابن شاھین کہتے ہیں ثقہ ہے اور یحییٰ بن معین نے یہی کہا ہے
[تاريخ أسماء الثقات برقم: 1435]
▪︎مجالد بن سعيد: “كوفي”، جائز الحديث، حسن الحديث،
امام عجلی کہتے ہیں یہ جائز الحدیث اور حسن الحدیث ہے
[تاريخ الثقات برقم: 1537]
▪︎مجالد بن سعيد الهمداني الاخباري عن الشعبي وقيس بن أبي حازم وعنه ابنه إسماعيل وشعبة والقطان ضعفه بن معين وقال النسائي ليس بالقوي وقال مرة ثقة توفي 144 م
امام ذھبی الکاشف میں فرماتے ہیں :
کہ ان سے امام شعبہ نے روایت کیا ہے (وہ اپنے نزدیک فقط ثقہ سے بیان کرتے ہیں ) اور القطان نے انکی تضعیف کی ہے اور ابن معین نے بھی اور نسائی نے اسکو لیس بالقوی قرار دیا ہے (یعنی صدوق ) اور پھر آخر میں انکو ثقہ قرار دیا ہے
[الکاشف برقم : 5286-]
●امام ابن معین سے انکے مقدم شاگرد الدوری سے جرح و تعدیل دونوں مروی ہے
جیسا کہ امام ابن ابی حاتم بیان کرتےہیں :
▪︎نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين انه قال: مجالد لا يحتج ك) بحديثه.
ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے عباس الدوری ابن معین سے کتاب سے بیان کرتے ہیں کہ مجالد سے احتجاج نہیں کیا جائے گا حدیث میں
[الجرح والتعدیل برقم : 1653]
●جبکہ اسکے بر عکس امام ابن معین کی کتاب جو کہ الدوری سے روایت ہے اس میں توثیق مروی ہے وسمعت ▪︎يحيى يقول مجالد بن سعيد ثقة
[تاریخ ابن معین بروایت الدوری برقم: 1277 ]
●اسی لیے امام ابن شاھین انکو مختلف فیہ رجال میں نقل کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
▪︎وعن أحمد بن أبي خيثمة قال: سمعت يحيى بن معين مرة أخرى يقول: مجالد بن سعيد ثقة
قال أبو حفص: وهذا الخلاف في أمر مجالد، يوجب التوقف فيه، وهو إلى التعديل أقرب، لأن الذي ضعفه اختاره، والذي ذمه مدحه، لأن يحيى بن سعيد ضعفه في رفعه الحديث، ثم اختاره على حجاج وليث، ووثقه يحيى بن معين بعدما ضعفه والله أعلم
امام ابن شاھین فرماتے ہیں : کہ مجالد کے بارے اختلاف واقع ہوا ہے جسکی وجہ سے اس سے توقف کیا گیا ۔ جبکہ اسکی توثیق زیادہ راجح ہے بجائے اسکی تضعیف کے ۔ جیسا کہ اسکو ضعیف کہنے والے کے برعکس اسکی مدح بھی ہے ۔
جیسا کہ ابن معین نے انکی تضعیف کی ہے پھر انکی توثیق کی ہے اسکی تضعیف کرنے کے بعد اللہ بہتر جاننے والا ہے
[المختلف فيهم]
●اسی طرح امام ذھبی کہتےہیں :
/ مجَالد بن سعيد الْهَمدَانِي مَشْهُور صَالح الحَدِيث قَالَ أَحْمد لَيْسَ بِشَيْء وَقَالَ ابْن معين لَا يحْتَج بِهِ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ ضَعِيف
مجالد یہ مشہور ہے اور صالح الحدیث ہے احمد نے لیس بشئی قرار دیا اور ابن معین نے لا احتجاج بہ قرار دیا ہے اور دارقطنی سے تضعیف ہے
[5183 المغنی فی ضعفاء]
●لیکن امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی کی آخری کتب کا موقف دیکھا جائے تو اسکی توثیق کی طرف جاتے ہوئے اسکو حسن الحدیث و صدوق قرار دیا ہے
جیسا کہ امام ذھبی میزان الاعتدال میں اس پر لین کا اطلاق کیا ہے اور سیر اعلام میں بھی انہوں نے یہی کہا ہے
●جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
وفي حديثه لين.
او ر لین کا اطلاق امام ذھبی صدوق درجے کے راوی پر کرتے ہیں
جیسا کہ سیر اعلام میں ایک جگہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هذا حديث حسن اللفظ، لولا لين في محمد بن كثير المصيصي لصحح.
کہ یہ حدیث حسن ہے ان الفاظ سے اگر محمد بن کسیر میں کمزوری (لین ) نہ ہوتی تو یہ صحیح کے درجہ کی ہوتی
[سیر اعلام النبلاء جلد ۷ ، ص۱۳۴]
●اسی طرح ایک اور راوی کے بارے کہتےہیں
بهز بن حَكِيم بن مُعَاوِيَة الْقشيرِي صَدُوق فِيهِ لين وَحَدِيثه حسن
بھز بن حکیم یہ صدوق درجہ کا ہے اور اس میں کمزوری ہے اور اسکی حدیث حسن درجہ کی ہے
[المغنی فی ضعفاء برقم : 1007 ]
●معلوم ہوا امام ذھبی کے نزدیک لین راوی سے مروی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے
اور امام ابن حجر عسقلانی بقیہ کتب میں مجالد کی تضعیف کی ہے
●لیکن تقریب میں وہ انکے بارے لکھتے ہیں :
مجالد بضم أوله وتخفيف الجيم ابن سعيد ابن عمير الهمداني بسكون الميم أبو عمرو الكوفي ليس بالقوي وقد تغير في آخر عمره
مجالد بن سعید ھمدانی یہ لیس بالقوی ہے اورعمر کے بالکل آخری حصے میں تغیر آگیا تھا
[تقریب التہذیب برقم : 6478-]
●لیس بالقوی اعلی ٰ درجہ کی توثیق کی نفی ہوتی ہے اس سے راوی کے صدوق ہونے کی نفی نہیں ہوتی ہے
جیسا کہ خود امام ابن حجر عسقلانی کا منہج دیکھا جائے تو وہ صدوق راوی پر لیس بالقوی کا اطلاق کرتے ہیں
جیسا کہ تقریب التہذیب میں ہی وہ ایک راوی کے بارے فرماتےہیں :
▪︎سليمان ابن عبيد الله الأنصاري أبو أيوب الرقي [الحطاب] صدوق ليس بالقوي
سلیمان بن عبید اللہ یہ صدوق (درجہ ) کا ہےاور قوی نہیں ہے
[تقریب التہذیب برقم : 2591]
●مذکورہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ مجالد حسن الحدیث اور صدوق درجہ کا راوی ہے
اسکے باوجود مجالد کو ایک استثناء بھی حاصل ہے کہ مجالد جب شعبی سے روایت کرتا ہے تو اسکی روایت ٹھیک ہوتی ہے
جیسا کہ امام ابن عدی الکامل میں اسکے متعلق اپنا فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
▪︎ومجالد لَهُ عن الشعبي عن جَابِر أحاديث صالحة وعن غير جَابِر من الصحابة أحاديث صالحة وجملة ما يرويه عن الشعبي وقد رواه عن غير الشعبي ولكن أكثر روايته عَنْهُ وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
مجالد کی مروایات شعبی سے جابر کے طریق سے جو احادیث ہیں وہ صالح ہیں اور جو (شعبی کے طریق سے ) جابر کے علاوہ دیگر صحابہ سے ہیں وہ بھی صالح ہیں ۔ جیسا کہ یہ شعبی سے کثرت سے روایت کرتے ہیں ۔ اور جب یہ بغیر شعبی کے (کسی اور سے ) ان سے روایت کیا گیا ہے وہ عام طور پر غیر محفوظ ہوتی ہیں
[الکامل ابن عدی جلد 8ص 169]
●یہی وجہ ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں مجالد کو ضعیف ماننے کے باوجود استثناء دیا ہے
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
▪︎قلت: رواه أبو داود وغيره باختصار. رواه البزار من طريق مجالد، عن الشعبي، عن جابر، وقد صححها ابن عدي.
میں کہتاہوں اسکو روایت کیا ہے ابو داود اور دوسروں نے اختصار سے اور روایت کیا ہے بزار میں مجالد کے طریق سے شعبی سے اور اسکی روایت کی تصحیح کی ہے ابن عدی نے
(کیونکہ انہوں نے استثناء قرار دیا ہے کہ مجالد کی شعبی سے جابر سے اور دیگر صحابہ سے روایات صالح ہوتی ہیں اور محفوظ ہوتی ہیں
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد برقم : 10633]
●اسی طرح ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
رواه أبو يعلى من رواية مجالد بن سعيد عن الشعبي، قال ابن عدي: هذه الطريق أحاديثها صالحة، وبقية رجاله رجال الصحيح، وقد ضعف مجالدا جماعة، والحديث عند أبي داود وابن ماجه دون ذكر
اسکو روایت کیا ہے ابو یعلی ٰ نے جسکا طریق مجالد کا شعبی سے ہے ابن عدی اس طریق کی کی احادیث کو صالح قرار دیتے ہیں اور اسکے باقی اسکے رجال صحیحین کے ہیں اور مجالد کو جماعت نے کمزور قرار دیا ہے ۔
[مجمع الزوائد برقم : 10787]
●اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ مجالد خود صدوق درجہ کا راوی ہے اور جابر سے بیان کرنے پر اس پر توثیق خاص ہے اور اختلاط مضر نہیں ہے
اور مذکورہ روایت میں تو یہ منفرد بھی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
○امام بخاری کے طریق میں عبد الملک بن عمیر راوی پر اس مجہول کے اعتراضات کا رد :
○مجہول میاں لکھتا ہے :
👈نقد و تبصرہ
سب سے پہلے ہم اس روایت کا سند کے حساب سے جائزہ لیتے ہیں۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے محمد بن عبدالملک بن مروان الاموی۔ یہ اموی غنڈوں میں سے تھا اور بنو امیہ کی اسلام دشمنی اور حرم نبوت کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی تھی اور مشہور تر تھی۔ تو دشمن سے یہی توقع کی جاسکتی ہے جو آپ نے اس روایت میں پڑھا ہے۔
اصول حدیث کا قاعدہ یہ ہے کہ متعصب راوی کی روایت مخالف کے خلاف قابل قبول ہی نہیں اور بنوامیہ کا حرم نبوت سے تعصب ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ امام ذہبی نے لکھا ہے:
قال ابوداود لم یکن بمحکم العقل۔
کہ محمد بن عبدالملک بن مروان بن الحکم کی مت ماری ہوئی تھی۔ اس کی عقل ہی ٹھکانے نہیں تھی۔
(میزان الاعتدال)
نوٹ : یہ یقینی بات ہے کہ جب تعصب میں بندہ اندھا ہوجائے جس طرح حرم نبوت کے خلاف بنو امیہ اندھے ہوگئے تھے تو ایسی صورت میں مت ماری جاتی ہے۔ تبھی تو اہل حکمت نے کہا کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور تکبر نیکیاں برباد کردیتا ہے۔ بنوامیہ ان ہر دو بد عادتوں میں سب سے آگے تھے۔ وہ بھی حرم نبوت کی بابت بناء بریں ان کی مت ماری ہوئی تھی اور ان کے پلے نیکی بھی نہیں رہی تو ایسے راوی کی روایت مسترد ہی سمجھی جاتی ہے۔
نوٹ: اس روایت کے موضوع ہونے کا ایک سبب تعصب راوی ہے۔
موضوع روایات کے اسباب میں تعصب بنیادی سبب ہے حدیث وضع کرنے کا۔
(کتب عامہ فی اصول الحدیث)
اسی باب کی اگلی حدیث میں ایک راوی ہے عبدالملک بن عمیر اس کے بارے میں بھی میزان الاعتدال میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
عبدالملک بن عمیر الخمی الکوفی الثقۃ ولکنہ طال عمرہ وساء حفظہ قال ابوحاتم لیس بحافظ تغیر حفظہ وقال احد ضعیف یغلط وقال ابن معین مختلط۔
ترجمہ : عبدالملک بن عمیر کے متعلق اگرچہ وہ ثقہ تھے لیکن طویل عمر ہونے کی وجہ سے حافظہ کمزور ہوگیا تھا ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ حافظ حدیث نہیں تھے اور ان کے حافظے میں تغیر آگیا۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ ضعیف تھے اور غلطیاں کرتے تھے۔ ابن معین کہتے کہ روایات کو خلط ملط کرتے تھے۔
(میزان الاعتدال ذہبی)
قارئین محترم! یہ روایت تو ظن کے اعتبار سے بھی کہیں نیچے گر گئی ہے۔ کیونکہ متعصب راوی حدیثیں گھڑتا ہے جیسا کہ بنو امیہ نے گھڑیں اور ہزاروں حدیثیں گھڑیں۔
مذکورہ راوی اموی غنڈہ گردی کا ایک تسلسل ہے لہذا یہ روایت کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ یہ تو ظنی اعتبار سے بھی قبول نہیں یقینی اعتبار سے کیسے قبول کی جائے۔ خصوصاً ثبوت الزام کی بابت۔
●●۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔●●
▪︎معترض نے حضرت عباس کے طریق کی روایت کی روایت پر دو راویان پر اعتراضات کیے انکا خلاصۃ درج زیل ہے:
●پہلا راوی : محمد بن عبدالملک بن مروان بن الحکم یہ بنو امیہ کا تھا اور بقول اسکے متعصب راوی کی روایت مخالف کے خلف مقبول نہیں
●دوم : اس سند میں عبد الملک بن عمیر راوی ہے اسکو عمر کے آخری حصے میں اختلاط ہو گیا تھا جسکی وجہ سے مذکورہ روایت مقبول درجہ تک نہ پہنچی بلکہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے متعصب راوی کے سبب
اب ہم اسکا تفصیلی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں :
●پہلی بات یہ ہے کہ راوی محمد بن عبدالملک بن مروان بن الحکم اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہے تو اس راوی پر طعن کرنا اور اسکو بنو امیہ میں ہونے کے سبب دشمن آل رسول بتانا متعرض کی جہالت ہے
جیسا کہ امام مسلم نے اس روایت میں محمد بن عبدالملک بن مروان بن الحکم کے دو متابع بیان کر رکھے ہیں
جیسا کہ وہ اپنی صحیح میں اس روایت کواپنی سند سے بیان کرتے ہیں :
▪︎حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، ومحمد بن أبي بكر المقدمي، ومحمد بن عبد الملك الأموي، قالوا: حدثنا أبو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن العباس بن عبد المطلب، أنه قال: يا رسول الله، هل نفعت أبا طالب بشيء، فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: «نعم، هو في ضحضاح من نار، ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار»
[صحیح مسلم برقم: 357]
●جیسا کہ محمد بن عبد الملک کے دو متابع موجود ہیں ایک عبیداللہ بن عمر اور دوسرا محمد بن ابی بکر مقدمی تو محمد بن عبد الملک پر فضول اعتراضات باطل ثابت ہوئے کیونکہ وہ منفرد نہیں ہے ۔
○دوسرا اعتراض :
اس روایت کے طریق میں دوسرا راوی : عبدالملک بن عمیر متغیر ہو گیا تھا اور امام احمد و ابن معین کی اس پر جروحات ہیں جسکی وجہ سے یہ روایت قابل استدال نہ رہی
●اس اعتراض کا تفصیلی تحقیقی جائزہ درج زیل ہے :
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شیخین (صاحب صحیحین) نے عبد الملک بن عمیر کی روایات جو احتجاج میں لائے ہیں وہ فقط انکے قدیم تلامذہ کے طریق سے لائے ہیں اور بعض جو انکے متاخر تلامذہ میں روایت لائے ہیں وہ فقط متابعت میں لی ہیں ۔
●جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی ھدی الساری مقدمہ فتح الباری میں اس راوی پر کلام کرتے ہوئے لکھتےہیں :
ع عبد الملك بن عمير الكوفي مشهور من كبار المحدثين لقي جماعة من الصحابة وعمر وثقه العجلي وبن معين والنسائي وبن نمير وقال بن مهدي كان الثوري يعجب من حفظ عبد الملك وقال أبو حاتم ليس بحافظ تغير حفظه قبل موته وإنما عني بن مهدي عبد الملك بن أبي سليمان وقال أحمد بن حنبل مضطرب الحديث تختلف عليه الحفاظ وقال بن البرقي عن بن معين ثقة إلا أنه أخطأ في حديث أو حديثين قلت احتج به الجماعة وأخرج له الشيخان من رواية القدماء عنه في الاحتجاج ومن رواية بعض المتأخرين عنه في المتابعات وإنما عيب عليه أنه تغير حفظه لكبر
عبد الملک بن عمیر یہ کوفی ہیں اور کوفہ کے کبار محدثین میں مشہور تھے انہوں نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت اور حضرت عمرؓ سے ملاقات کی ہے ۔
انکو امام عجلی ، امام نسائی ، امام ابن نمیر نے ثقہ قراردیا ہے ابن مھدی کہتا ہے : امام سفیان ثوری عبد الملک کے حافظے سے متاثر تھے
ابو حاتم نے کہا یہ حافظ نہیں تھا اسکے حافظہ میں تغیر آگیا تھا قبل از موت
احمد بن حنبل نے کہا یہ مضطرب الحدیث جب اس پر اختلاط ہوا ان برقی ابن معین سے روایت کرتے ہیں کہ یہ ثقہ ہے علاوہ اسکے اس نے ایک یا دو احادیث میں غلطی کی ہے
▪︎میں (ابن حجر) کہتا ہوں اس (عبدالملک بن عمیر) سے محدثین کی ایک جماعت نے احتجاج کیا ہے اور شیخین نے اسکی روایات کی تخریج احتجاج کے باب میں اسکے قدیم تلامذہ کے طریق سے کی ہے
اور بعض متاخرین تلامذہ سے اسکی روایات متابعت میں لی ہیں اور اس پر عیب فقط تغیر حافظہ کا ہے
[ھدی الساری مقدمہ فتح الباری جلد۱ ، ص ۴۲۲]
●ایک بات قابل غور ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی نے اسکو حافظہ کے اعتبار سے کمزور بیان نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے نص پیش کی ہے کہ امام سفیان ثوری جیسا بندہ بھی انکے حافظہ سے متاثر تھا اور انکی مدح کرنے والا تھا
اور جو جروحات چند ناقدین جیسا کہ ابن حنبل ، و ابن معین (جبکہ انہوں نے اسکی دو روایات میں غلطی کی نشاندہی کی اور مطلق ثقہ قرار دیا ) وغیرہ سے نقل کیا ہے
وہ کلام فقط اسکے عمر کے آخری حصے پر موقوف ہے لیکن بڑھاپے سے پہلے تک اسکا حافظہ بہترین تھا اور یہ متفقہ علیہ ثقہ تھا
یہ بات امام ابن حجر عسقلانی نے امام ذھبی کے کلام کی شرح کرتے ہوئے ان سے موافقت میں کہی ہے کیونکہ اس میں راوی کا قصور نہیں جب وہ ۱۰۰ سال کی عمر سے بھی زیادہ ہو جائے تو اسکے حافظہ میں تغیر قبل از موت واقع ہونا ایک قدری امر ہے
●جیسا کہ امام ذھبی میزان الاعتدال میں ان پر کلام نقل کرکے اسکا اصولی رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
[صح] عبد الملك بن عمير [ع] اللخمى الكوفي الثقة،
رأى عليا، وروى عن جابر بن سمرة، وجندب البجلي، وخلق.
وعنه زائدة، وإسرائيل، وجرير، وخلق.
وكان من أوعية العلم، ولى قضاء الكوفة بعد الشعبي، ولكنه طال عمره، وساء حفظه.
قال أبو حاتم: ليس بحافظ.
تغير حفظه.
وقال أحمد: ضعيف، يغلط.
وقال ابن معين: مخلط.
وقال ابن خراش: كان شعبة لا يرضاه.
وذكر الكوسج، عن أحمد: أنه ضعفه جدا.
ووثقه العجلي.
وقال النسائي وغيره: ليس به بأس.
قال عبد الله بن أحمد: سئل أبى عن عبد الملك بن عمير، وعاصم بن أبي النجود، فقال: عاصم أقل أختلافا عندي، وقدم عاصما.
قلت: لم يورده ابن عدي، ولا العقيلي، ولا ابن حبان، وقد ذكروا من هو أقوى حفظا منه.
وأما ابن الجوزي فذكره فحكى الجرح، وما ذكر التوثيق،
والرجل من نظراء السبيعى أبي إسحاق، وسعيد المقبري لما وقعوا في هزم الشيخوخة نقص حفظهم، وساءت أذهانهم، ولم يختلطوا.
وحديثهم في كتب الإسلام كلها.
وكان عبد الملك ممن جاوز المائة.
ومات في آخر سنة ست وثلاثين ومائة
یہ ثقہ ہیں انکی کنیت ابو عمر ہے
اس نے حضرت علیؓ کی زیارت کی ہے اور حضرت جابر بن سمرہ اور حضرت جندب بجلی اور ایک مخلوق سے روایات بیان کی ہیں ۔
یہ علم کا سمندر تھے یہ علم (حدیث) کا ماہر تھا امام شعبی کے بعد یہ کوفہ کا قاضی رہا ۔
لیکن اسکی عمر طویل ہو گئی تھی جسکے نتیجیے میں اس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا ۔
امام ابو حاتم کہتے ہیں یہ حافظ نہیں اسکا حافظہ متغیر ہو گیا
احمد بن حنبل کہتے ہیں یہ ضعیف ہے یہ غلطی کرتا تھا ۔
امام یحییٰ بن معین نے انکو اختلاط شدہ قرار دیا ۔
ابن خراش(رافضی) کہتا ہے کہ امام شعبی اس سے راضی نہ تھے
کوسج نے امام احمد سے یہ بھی روایت کیا کہ وہ انکو کافی ضعیف شمار کرتے تھے ۔
جبکہ امام عجلی نے انکو ثقہ قرار دیا ہے اور امام نسائی سمیت دیگر ناقدین کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے
امام عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں :
میرے والد سے عبدلاملک بن عمیر اور عاصم کے بارے دریافت کیا گیا تو وہ بولے میرے نزدیک عاصم روایت کے الفاظ میں کم اختلاف بیان کرتا ہے ۔ تو انہوں نے عاصم کو مقدم کر دیا
●اسکا رد کرتے ہوئے امام ذھبی کہتےہیں :
میں کہتا ہوں
امام بن عدی اس (راوی عبد الملک بن عمیر) کو اپنی کتاب الکامل فی ضعفاء میں درج نہیں کیا
اور نہ ہی امام عقیلی (جیسے متشدد) نے انکو اپنی الضعفاء میں شامل کیا ہے
اور نہ ہی امام ابن حبان نے (اسکی تضعیف) کا تذکرہ کیا ہے (المجروحین میں )
بلکہ انہوں نے (اپنی ضعفاء) میں ایسے راویان کا تذکرہ کیا ہے جو اس (عبداللک) سے زیادہ قوی تھے
اور باقی رہا مسلہ ابن جوزی کا تو وہ (اپنی ضعفاء) میں جرح نقل کرنے کے بعد توثیق نقل نہیں کی
اسکے بعد امام ذھبی اپنا تجزیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
یہ شخص امام ابو اسحاق سبیعی اور مقری کی طرح تھا ۔ کہ جب ہ لوگ بوڑے ہوئے تو انکے حافظہ میں خرابی آگئی ۔ انکے ذہن میں خرای آگئی یہ لوگ اختلاط کا شکار نہیں ہوئے تو انکی نقل کردہ احادیث تمام کتابوں مین موجود ہیں ۔
عبدالملک نے ایک سوسال سے زیدہ عمر پائی تھی ۔ انکا انتقال ۱۳۶ھ میں ہوا ۔
[میزان الاعتدال برقم: 5235]
《خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ راوی مطلق ثقہ ہی تھا متفقہ علیہ اور چونکہ موت کے کچھ عرصہ قبل اسکو اختلاط زیدہ عمر ہونے کے سبب پیدا ہوا جو کہ بہت ہی قلیل عرصہ تھا》
▪︎کیونکہ انکی عمر سو سال سے زیادہ تھی
اور عمومی روایات جو انہوں نے بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں اور مذکورہ روایت ان سے بیان کرنے والے امام سفیان ہیں جو انکے متقدمین تلامذہ میں سے ہیں
تو یہ اعتراض بھی باطل ہوا نیز اس روایت میں مجالد کی روایت بھی شاہد ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کو بیان کرنےمیں مجالد سے بھی کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے
یہی وجہ ہے کہ اس راوی پر تمام جروحات کو باطل قرا دیتے ہوئے
امام ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں عبدالملک کے نام کے ساتھ صح کا صیغہ استعمال کرتےہوئے ان پر جروحات کو باطل قرار دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
○اسکے علاوہ یہ راوی مدلس بھی تھے جیسا کہ امام ابن حجرعسقلانی نے انکو طبقہ ثالثہ کا مدلس قرار دیا ہوا ہے
لیکن امام سفیان ثوری نے یہ روایت عبدالملک کی سماع کی تصریح کے ساتھ بھی بیان کی ہے
▪︎حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثنا عبد الملك، حدثنا عبد الله بن الحارث، حدثنا العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما أغنيت عن عمك، فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: «هو في ضحضاح من نار، ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار»
[صحیح بخاری برقم: 3883]
تو تدلیس کا اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
●اس روایت کا ایک تیسرا طریق بھی موجود ہے جسکوامام مسلم نے بیان کیا جو ہم اوپر پہلے نقل کر چکے جسکی سند و متن یوں ہے :
▪︎حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن الهاد ، عن عبد الله بن خباب ، عن ابي سعيد الخدري ، ” ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذكر عنده عمه ابو طالب، فقال: لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، فيجعل في ضحضاح من نار، يبلغ كعبيه، يغلي منه دماغه “.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کا ذکر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید ان کو فائدہ ہو میری شفاعت سے قیامت کے دن اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو لیکن بھیجا پکتا رہےگا اس سے۔“
[صحیح مسلم برقم: 513]
●ویسے تو اس نے صحیحین کی متفقہ علیہ روایات پر اعتراضات کیے ہیں لیکن ہم اسکو بجائے یہ کہنے کے کہ یہ صحیحین کی روایات ہیں جن پر عمومی طور پر اجماع ہے بلکہ ہم اسکا تفصیلی جواب ہی دینگے ۔
■پہلا راوی : قتيبة أبو رجاء بن سعيد بن جميل الثقفي مولاهم
امام ذھبی انکی اعلی درجہ کی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
شيخ الإسلام، المحدث، الإمام، الثقة، الجوال، راوية الإسلام
[سیر اعلام النبلاء برقم: 8]
■دوسرے راوی : الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمى
امام ابن حجر کہتےہیں : ثقة ثبت فقيه إمام
[تقریبب التہذیب]
اور
امام ذھبی انکو امام مالک کی نظیر قرار دیتے تھے
الإمام ، ثبت من نظراء مالك
[سیر اعلام النبلاء]
■تیسرے راوی : يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد الليثي
امام ذھبی فرماتے ہیں : الإمام، الحافظ، الحجة،
[سیر اعلام النبلاء برقم: 88]
■چوتھے راوی : عبد الله بن خباب مولى بني عدي بن النجار الأنصاري
امام ابو حاتم نے انکو ثقہ قرار دیا ہے
سمعت أبي يقول ذلك وسمعته يقول: عبد الله بن خباب ثقة.
[الجرح والتعدیل برقم: 199 ]
اس طرح امام ابن حبان و امام نسائی نے بھی انکو ثقہ قرار دیا ہے
اور یہ اعتراض بھی وارد ہو سکتا ہے کہ امام مسلم نے انکی روایات معنن لی ہے حضرت ابو سعید الخدری سے اور امام بخاری نے انکی روایت کی تخریج نہیں کی ہے ابو سعید خدری سے
تو شاید انکا سماع کی دلیل نہ ہو اور امام مسلم نے اپنے منہج کے مطابق ہم زمانہ ہونے کے سبب انکی روایت لے لی ہو
تواسکا بھی رد کر دیتے ہیں بلکہ امام بخاری نے خود تصریح کی ہوئی ہے کہ انکا سماع حضرت ابو سعید الخدری سے ہے
●جیسا کہ وہ اپنی تصنیف تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں :
عبد الله بن خباب، مولى بني عدي، من بني النجار، الأنصاري.
يعد في أهل المدينة.
سمع أبا سعيد الخدري.
[تاریخ الکبیر للبخاری برقم: 213]
¤¤مذکورہ تحقیق سے معلوم ہوا یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے اور اسکی سند صحیح کہ درجہ کی ہے اور مجالد، عبدالملک بن عمیر ، اور محمد بن عبدالملک بن مروان بن حکم الاموی پر اعتراضات کرنا فقط جہالت ہے کیونہ ان میں کوئی بھی اس روایت میں منفرد نہیں ہے
اوراعلی حضرت کا اس روایت کے سبب کفر ابو طالب پر استدلال کرنا تحقیقی طور پر صحیح ہے اور یہی جمہور اہلسنت کا منہج ہے
دعاگو:ا سد الطحاوی الحنفی البریلوی