کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 20 رکوع 15 سورہ العنکبوت آیت نمبر 23 تا 30
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىٕهٖۤ اُولٰٓىٕكَ یَىٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۲۳)
اور وہ جنہوں نے میری آیتوں اور میرے ملنے کو نہ مانا (ف۵۱) وہ ہیں جنہیں میری رحمت کی آس نہیں اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے (ف۵۲)
(ف51)
یعنی قرآن شریف اور بَعث پر ایمان نہ لائے ۔
(ف52)
اس پند و موعظت کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر فرمایا جاتا ہے کہ جب آپ نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی اور دلائل قائم کئے اور نصیحتیں فرمائیں ۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۲۴)
تو اس کی قوم کو کچھ جواب بن نہ آیا مگر یہ بولے اُنہیں قتل کردو یا جلادو (ف۵۳) تو اللہ نے اُسے (ف۵۴) آ گ سے بچالیا (ف۵۵) بےشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے (ف۵۶)
(ف53)
یہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا یا سرداوں نے اپنے متّبعین سے بہرحال کچھ کہنے والے تھے کچھ اس پر راضی ہونے والے تھے سب متفق اس لئے وہ سب قائلین کے حکم میں ہیں ۔
(ف54)
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ ان کی قوم نے آ گ میں ڈالا ۔
(ف55)
اس آ گ کو ٹھنڈا کر کے اور حضرت ابراہیم کے لئے سلامتی بنا کر ۔
(ف56)
عجیب عجیب نشانیاں ، آ گ کا اس کثرت کے باوجود اثر نہ کرنا اور سرد ہو جانا اوراس کی جگہ گلشن پیدا ہو جانا اور یہ سب پل بھر سے بھی کم میں ہونا ۔
وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًاۙ-مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا٘-وَّ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَۗۙ(۲۵)
اور ابراہیم نے (ف۵۷) فرمایا تم نے تو اللہ کے سوا یہ بُت بنالیے ہیں جن سے تمہاری دوستی یہی دنیا کی زندگی تک ہے (ف۵۸) پھر قیامت کے دن تم میں ایک دوسرے کے ساتھ کفر کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت ڈالے گا (ف۵۹) اور تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے (ف۶۰) اور تمہارا کوئی مددگار نہیں (ف۶۱)
(ف57)
اپنی قوم سے ۔
(ف58)
پھر منقطع ہو جائے گی اور آخرت میں کچھ کام نہ آئے گی ۔
(ف59)
بُت اپنے پجاریوں سے بیزار ہوں گے اور سردار اپنے ماننے والوں سے اور ماننے والے سرداروں پر لعنت کریں گے ۔
(ف60)
بُتوں کا بھی اور پجاریوں کا بھی ان میں سرداروں کا بھی اور ان کے فرمانبرداروں کا بھی ۔
(ف61)
جو تمہیں عذاب سے بچائے اور جب حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیمات آ گ سے سلامت نکلے اور اس نے آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچایا ۔
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌۘ-وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۲۶)
تو لوط اس پر ایمان لایا (ف۶۲) اور ابراہیم نے کہا میں (ف۶۳) اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں (ف۶۴) بےشک وہی عزّت و حکمت والا ہے
(ف62)
یعنی حضرت لوط علیہ السلام نے یہ معجِزہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رسالت کی تصدیق کی آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ۔ ایمان سے تصدیقِ رسالت ہی مراد ہے کیونکہ اصل توحید کا اعتقاد تو ان کو ہمیشہ سے حاصل ہے اس لئے انبیاء ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں اور کُفر ان سے کسی حال میں متصور نہیں ۔
(ف63)
اپنی قوم کو چھوڑ کر ۔
(ف64)
جہاں اس کا حکم ہو چنانچہ آپ نے سوادِ عراق سے سرزمینِ شام کی طرف ہجرت فرمائی اس ہجرت میں آپ کے ساتھ آپ کی بی بی سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام تھے ۔
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ وَ اٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَاۚ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷)
اور ہم نے اُسے (ف۶۵) اسحٰق اور یعقوب عطا فرمائے اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوّت (ف۶۶) اور کتاب رکھی (ف۶۷) اور ہم نے دنیا میں اس کا ثواب اسے عطا فرمایا (ف۶۸) اور بےشک آخرت میں وہ ہمارے قرب ِخاص کے سزاواروں میں ہے (ف۶۹)
(ف65)
بعد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ۔
(ف66)
کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء ہوئے سب آپ کی نسل سے ہوئے ۔
(ف67)
کتاب سے توریت ، انجیل ، زبور ، قرآن شریف مراد ہیں ۔
(ف68)
کہ پاک ذُرِّیَّت عطا فرمائی ، پیغمبری ان کی نسل میں رکھی ، کتابیں ان پیغمبروں کو عطا کیں جو ان کی اولاد میں ہیں اور ان کو خَلق میں محبوب و مقبول کیا کہ تمام اہلِ مِلَل و اَدیان ان سے مَحبت رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت فخر جانتے ہیں اور ان کے لئے اختتامِ دنیا تک درود مقرر کر دیا ، یہ تو وہ ہے جو دنیا میں عطا فرمایا ۔
(ف69)
جن کے لئے بڑے بلند درجے ہیں ۔
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸)
اور لوط کو نجات دی جب اُس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بےشک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا (ف۷۰)
(ف70)
اس بے حیائی کی تفسیر اس سے اگلی آیت میں بیان ہوتی ہے ۔
اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹)
کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو (ف۷۱) اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو (ف۷۲) تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو (ف۷۳)
(ف71)
راہ گیروں کو قتل کر کے ان کے مال لوٹ کر اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے حتی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا موقوف کر دیا تھا ۔
(ف72)
جو عقلاً و عرفاً قبیح و ممنوع ہے جیسے گالی دینا ، فحش بکنا ، تالی اور سیٹی بجانا ، ایک دوسرے کے کنکریاں مارنا ، رستہ چلنے والوں پر کنکری وغیرہ پھینکنا ، شرا ب پینا ، تمسخُر اور گندی باتیں کرنا ، ایک دوسرے پر تھوکنا وغیرہ ذلیل افعال و حرکات جن کی قومِ لوط عادی تھی ، حضرت لوط علیہ السلام نے اس پر انہیں ملامت کی ۔
(ف73)
اس بات میں کہ یہ افعال قبیح ہیں اور ایسا کرنے والے پر عذاب نازِل ہو گا یہ انہوں نے براہِ استہزاء کہا جب حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں ۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۠(۳۰)
عرض کی اے میرے رب میری مدد کر (ف۷۴) ان فسادی لوگوں پر (ف۷۵)
(ف74)
نُزولِ عذاب کے بارے میں میری بات پوری کر کے ۔
(ف75)
اللہ تعالٰی نے آپ کی دعا قبول فرمائی ۔