🍎🍎 *کھانے کے دسترخوان سے* 🍎🍎

 

✍️ *محمد حبیب اللہ بیگ ازہری*

*25 ربیع الآخر 1443، یکم دسمبر 2021*

 

کچھ لوگ کھانے پینے میں شرماتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ شرماتے ہیں، جب کہ کھانے پینے میں شرمانے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے، کھانا پینا بندے کی پہچان ہے تو شرم کس بات کی!!!!!

وہ اللہ ہے جو کھانے سے پاک ہے، فرمایا:

وَهُوَ یُطۡعِمُ وَلَا یُطۡعَمُۗ۔

وہ کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا۔

وہ فرشتے ہیں جو نہیں کھاتے، فرمایا:

فَقَرَّبَهُۥۤ إِلَیۡهِمۡ قَالَ أَلَا تَأۡكُلُونَ.

کھانا پیش کیا، اور کہا: کیا آپ نہیں کھاتے؟

وہ کافر ہیں جو رسولوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

مَالِ هَـٰذَا ٱلرَّسُولِ یَأۡكُلُ ٱلطَّعَامَ وَیَمۡشِی فِی ٱلۡأَسۡوَاقِ.

اس رسول کو کیا ہوگیا، کھانا کھاتے ہیں اور بازاروں میں چکر لگاتے ہیں؟

کھانا انسان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ انسان کی پہچان بھی ہے، اسی لیے روز اول ہی کھانے پینے کا سلسلہ جاری ہے، کھانے پینے کی تاریخ بڑی طویل اور دلچسپ ہے، لوگ کہتے ہیں کہ حضرت آدم کا جنت میں نکاح ہوا، اسی لیے نکاح بہشتی عمل ہے، اس تقدیر پر کھانے کو بدرجہ اولی بہشتی عمل ہونا چاہیے، کیوں کہ کھانے کا عمل نکاح پر مقدم ہے، اور کھانے کا حکم نص قرآنی سے ثابت ہے، ارشاد باری ہے:

یَـٰۤـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا

اے آدم تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنت میں رہو، اور جنت میں جہاں سے جی چاہے بلا تکلف کھاؤ۔

اس آیت کی روشنی میں کھانے کو حکم الٰہی کی تعمیل، بہشتی عمل، اور سنت آدمی کہا جا سکتا ہے، شیرانی آباد کے ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ کچھ نہیں تو کھانے پینے کی سنتوں پر عمل ہونا ہی چاہیے، مرغن غذاؤں کے بعد درون شکم پیدا ہونے والی بغاوت کی سر کوبی کے لیے ایک پیالہ گرم مشروب، اور منھ کی خوشبو بحال کرنے کے لیے سبز تریاق کی ضرورت سے کسے انکار ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس اعتراف کے ساتھ کہ

 

ایک کپ چائے میرے درد کا درماں تو نہیں

اور ایک پان علاج غمِ ہجراں تو نہیں۔

 

کوئی دس سال پرانی بات ہے کہ مولانا شفیع صاحب – جو ان دنوں گوا میں ہیں – میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چند دنوں پہلے آپ نے جو تقریر ہمارے درمیان کی وہی تقریر ایک بار یمارے ناظم صاحب کے سامنے کردیں، میں نے کہا کونسی تقریر؟ کہنے لگے کہ آپ نے فرمایا تھا انسان کو نیند سے بیدار ہونے کے بعد اچھے کھانے کی فکر کرنا چاہیے، حضرات اصحاب کہف ایک لمبی نیند سے بیدار ہوئے تو کہنے لگے:

فَٱبۡعَثُوۤا۟ أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمۡ هَـٰذِهِۦۤ إِلَى ٱلۡمَدِینَةِ فَلۡیَنظُرۡ أَیُّهَاۤ أَزۡكَىٰ طَعَامࣰا فَلۡیَأۡتِكُم بِرِزۡقࣲ مِّنۡهُ.

کسی کو یہ پیسے دے کر شہر میں بھیجو؛ تاکہ وہ ہمارے لیے اچھا کھانا لے کر آئے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند سے اٹھنے کے بعد عمدہ اور لذیذ کھانے کی فکر کرنا اعلی انسانی اقدار اور آئین تصوّف کے منافی نہیں ہے، حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا:

اچھے کام کے لیے اچھی صحت اور اچھی صحت کے لیے اچھی غذا کی ضرورت ہے۔

مولانا شفیع صاحب کی اس پیش کش پر مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ میری تقریر زیادہ موثر ہے یا مولانا صاحب زیادہ با ذوق ہیں، ویسے اس کا صحیح فیصلہ تو مولانا سید فیض الدین صاحب ہی کرسکتے ہیں۔

 

خیر ہم نے شروع ہی میں بتایا تھا کہ کھانا ہماری ضرورت بھی اور پہچان بھی، واقعی یہ کھانا ایک طرف ہمارے لیے زاد حیات کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف توحید باری پر روشن دلیل فراہم کرتا ہے، قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے الوہیت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:

مَّا ٱلۡمَسِیحُ ٱبۡنُ مَرۡیَمَ إِلَّا رَسُولࣱ قَدۡ خَلَتۡ مِن قَبۡلِهِ ٱلرُّسُلُ وَأُمُّهُۥ صِدِّیقَةࣱۖ كَانَا یَأۡكُلَانِ ٱلطَّعَامَۗ .

مسیح ابن مریم سابقہ رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں، ان کی ماں صدیقہ ہے، یہ دونوں خدا نہیں، بلکہ خدا کے بندے ہیں، کیوں کہ یہ کھانا کھاتے ہیں، اور جو لوگ کھانا کھاتے ہیں، وہ خدا نہیں ہوتے، بندے ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے کسی نے کہا ہے

 

کھلا رہا ہے خدا ہم کو اس لیے دلبر

الوہیت کی نفی ہے ہمارے کھانے میں