میری مرحومہ امی
*میری مرحومہ امی*
آج بتاریخ ١٩ محرم الحرام کو میری والدہ ماجدہ کی یوم وفات ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب جناب رحمة للعلمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے صدقۂ طفیل میں میری مرحومہ امی کی مغفرت فرمائے، آمین۔
میری والدہ ماجده کا نام واحدہ خاتون تھا۔ میرے اندازے کے مطابق سنہ ١٩٧۵-٨٠ء کے درمیان آپ کی ولادت ہوئی ہوگی۔ آپ حاجی مختار (رحمت منزل، پہاڑ پورہ، مئو) اور عابدہ خاتون بنت حاجی عبد الرشید مرحوم (گھاسی پورہ، مئو) کی بیٹی تھیں۔ بانئ جامعہ اشرفیہ، حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ جب بھی مئو ناتھ بھنجن میں تشریف لاتے تو سیٹھ حاجی عبد الرشید رحمہ اللہ کے گھر ہی قیام فرماتے تھے۔ جب امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے مشہور و معروف فتاویٰ، “فتاویٰ رضویہ” کی اشاعت کا مرحلہ پیش آیا، اور اس کے لیے چندے کیے گئے تو حاجی عبد الرشید صاحب نے بھی اچھا خاصا مالی تعاون کیا، جس کا اعتراف بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے فتاویٰ رضویہ کی اشاعت کی روداد میں یوں کیا ہے:
“مئو میں الحاج عبد الرشید صاحب زید کرمہ تنہا ایک بزرگ ہیں جنہوں نے بڑا حوصلہ بھی دیا، اور چندہ سے بھی مدد کی، مئو سے متصل ادری ضلع اعظم گڑھ میں بھی چندہ کا کام ہوا۔…….[فتاویٰ رضویہ کے] مبیضہ کی ذمہ داری مولانا مفتی مجیب الاسلام ادروی [علیہ الرحمہ] نے قبول فرمائی۔” (فتاویٰ رضویہ [قدیم]/ج: ٧/ ص: ٣-۴)
نوٹ: حاجی عبد الرشید اور مفتی مجیب الاسلام ادروی دونوں کے فرزند آپس میں سمدھی ہیں، جب کہ مفتی مجیب الاسلام (بانی: جامعہ ضیاءالعلوم ادری) راقم الحروف کی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
میری امی نے ابتدا تا انتہا تعلیم مدرسہ اسلامیہ نسواں چاند پورہ (مئو) اور دارالعلوم نسواں صدر چوک (مئو) میں حاصل کی۔ محدث ثناء اللہ امجدی اعظمی مئوی علیہ الرحمہ بانئ جامعہ حنفیہ اہل سنت بحرالعلوم کھیری باغ، مئو (سابق شیخ الحدیث جامعہ مظہر اسلام بریلی شریف، دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور) اور شیخ القراء مولانا قاری عثمان اعظمی علیہما الرحمہ نے بھی اسی دارالعلوم مئو میں تعلیم حاصل کی تھی۔
میری امی پڑھنے لکھنے میں کافی اچھی تھیں، ہم دونوں بڑے بھائیوں کی طرح وہ بھی کلاس میں اکثر ٹاپ کرتی تھیں، شادی کے بعد بھی اکثر رسائل وغیرہ کا مطالعہ کیا کرتی تھیں، خاتون مشرق ان کا پسندیدہ ماہ نامہ تھا۔ ان کے توسط سے مجھے بھی ماہ نامے پڑھنے کا موقع میسر آیا، اور میں بھی مطالعے کا شوقین ہو گیا۔ جب میں ناظرہ قرآن کر رہا تھا، ان دنوں جب گھر پر سبق دہراتا اور جہاں کہیں بھی تلفظ کرنے میں غلطی ہوتی تو فورا کیچن میں بیٹھی بیٹھی ہی وہ لقمہ دے دیتی تھیں، حالاں کہ وہ قرآن کی حافظہ نہ تھیں۔
جب میں جامعہ عربیہ رضویہ ضیاءالعلوم رضا نگر، ادری (مئو) سے نکل کر مدرسہ عربیہ فیض القرآن باغ، ادری میں داخل ہوا اور درجہ دو میں پہنچا تو کئی بار ہوم ورک امی کی مدد لے کر کرتا تھا، اور بعض دفعہ تو وہ خود ہوم ورک کر دیا کرتی تھیں۔ یہی بات میرے چچا زاد بھائیوں [جو میرے ہم درس تھے] کو دیکھی نہیں گئی اور ان لوگوں نے مدرسے میں جا کر شکایت کر دی، پھر کیا تھا؟ میرا تو ہوم ورک ملتا ہی تھا ساتھ میں میری امی کے لیے بھی ہوم ورک آنے لگا، اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک میں فیض القرآن میں زیر تعلیم رہا۔
میری امی بڑی سیدھی سادھی عورت تھیں، ان کو جتنے لوگ جانتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ اپنی امی کے ساتھ مجھے تیرہ سال کا عرصہ گزارنے کا موقع ملا، اس طویل عرصے میں میں نے کبھی ان کی زبان سے ایک بھی گالی نہیں سنی، ہاں وہ مجھے ضرور دیگر امیوں کی طرح کام چور اور بے حیا جیسے القاب و آداب سے نوازتی تھیں۔ اسی طرح دیگر عورتوں کی طرح گھومنے کی بھی شوقین نہیں تھیں، یہی وجہ تھی کہ بگل ہی میں ہمارے چچیرے چچا کا گھر ہے، وہاں بھی ہم لوگ جب بہت ضد کرتے تو چھ سات مہینے پر جاتیں۔
ایک شادی شدہ عورت کو سب سے زیادہ کہیں جانے کی خواہش ہوتی ہے تو وہ ہوتا ہے اس کا مائکا۔ میری امی دوا لینے کے لیے پہاڑ پورہ تک چلی جاتیں یعنی جس محلے میں میری نانی کا گھر ہے، مگر ڈاکٹر سے دوا لینے کے بعد سیدھا گھر واپس چلی آتیں۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے نانی کے گھر والے انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ وہ لوگ تو دولت کے ساتھ ساتھ دل کے بھی اتنے امیر ہیں کہ وہ میری امی کی دوا کا خرچہ خود اٹھا سکتے تھے، مگر میری امی بڑی خود دار قسم کی عورت تھیں۔ کسی سے قرض لینے اور ادھار خریداری کرنے سے بھی وہ بہت بھاگتی تھیں، انہیں اس بات کا خوف رہتا تھا کہ اگر میں قرض ادا کرنے سے پہلے مر جاؤں اور میرے اہل خانہ اس قرض کو ادا نہ کر سکیں تو آخرت میں مجھے اس کا حساب دینا پڑے گا۔
ہم لوگ جس گھر میں رہتے ہیں اس کو بنوانے میں میرے ابو کا اور بنوانے کے لیے پیسہ کمانے میں خصوصا امی کا اہم کردار رہا، جب ہم نئے گھر میں آئے تو کچھ سال بعد ایک اور پاور لوم خریدا گیا، پاور لوم کو چالو کرنے کے لیے الگ سے دس ہزار روپیے کی اور ضرورت پیش آئی، امی نے اپنی بڑی بہن شاہدہ سے ادھار لیا۔ لیکن ساتھ ہی اپنا سونے کا کڑا یا جھمکا گروی رکھ دیا، اسی طرح گھر کے اگلے حصے پر جب کام ہو رہا تھا تو کچھ پیسے کی ضرورت پڑی تو اپنا چاندی کا ہار جس پر سونے کا رنگ چڑھا تھا بیچ دیا، سونے کے ساتھ ساتھ میری امی کے پاس بہت ساری چاندی بھی تھی، جس کی وجہ سے ہر سال اچھی خاصی زکات نکالنی پڑتی، امی نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے اپنے تینوں چاندی کے پائل جو کافی وزنی تھے اپنی بڑی بہن خالدہ کو بیچ دیے، اس طرح گھر کا سامان گھر ہی میں رہا اور سونے کے ساتھ چاندی نہ ہونے کی وجہ سے زکات کم نکالنی پڑتی تھی اور ہے۔
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد تلاوت قرآن ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ علاوہ ازیں لوم چلاتے وقت بھی اکثر قرآنی آیات پڑھتی رہتی تھیں۔ نعت و منقبت وغیرہ میں بھی ان کو تھوڑی بہت دل چسپی تھی۔ جب کبھی نانی کے یہاں انتکشری کا میچ ہوتا تو میں اور میری امی ایک طرف اور باقی پورا ننہال ایک طرف رہتا تھا۔ ہم دونوں ہر دم ان پر بھاری پڑ جاتے۔ ایک تو وہ لوگ سنی نہیں ہیں، اس لیے نعت وغیرہ ان کو آتی ہی نہیں تھی صرف گانے آتے تھے اس لیے وہ لوگ اس میچ میں صرف گانے ہی گاتے جب کہ میں نے بچپن سے نعتیں سنی اور پڑھی ہیں، اور امی نے بھی یہاں آ کر بہت سارے نعتیہ اشعار حفظ کر لیے تھے۔ جس میں ایک یہ:
نور والا آیا ہے نور لے کر آیا ہے
سارے عالم میں یہ دیکھو کیسا نور چھایا ہے
اصلاة والسلام علیک یا رسول اللہ ﷺ
اصلاة والسلام علیک یا حبیب اللہ ﷺ…..!!
اور دوسرا ہمارے محلے میں عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر ایک شاعر درج ذیل کلام پڑھ کر گیا تھا، جسے وہ بڑے ترنم کے ساتھ پڑھتی تھیں۔
رہیے کسی بھی حال میں چرچا نہ کیجیے
خود کو کسی کے سامنے رسوا نہ کیجیے
گھر میں ضرور لائیے بیٹی غریب کی
لیکن کسی غریب کا سودا نہ کیجیے
جس سے کسی یتیم کو ملتی ہوں روٹیاں
ایسی کسی زمین پہ قبضہ نہ کیجیے
جب میں درجہ نو میں گیا تو اس وقت میری عمر +١٣ سال تھی۔ ہمیشہ کی طرح میں ہی امی کو علاج کرانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا۔ چوں کہ اس بار ان کی طبیعت کافی بگڑ چکی تھی، اس لیے نانی کے گھر ہی رکنا پڑا۔ اس لیے میں بھی کئی دن تک وہیں رہا، پھر امی نے کہا کہ تم گھر جاؤ نہیں تو تمہاری پڑھائی کا نقشان ہوگا۔ اس لیے میں واپس چلا آیا، بعد نماز مغرب ١٩ محرم الحرام سنہ ٢٠١۴ء کی شام کو میرا چھوٹا بھائی جو اس وقت تقربا ۴ سال کی عمر کا تھا، “امی جہوں” یعنی امی کے پاس جاؤں گا۔ کہہ رہا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ امی کل آ جائیں گی۔
اسے بہلانے پھسلانے کے لیے میں اسے گود میں لے کر ٹہلنے نکل گیا۔ ٹہلتے ٹہلتے روڈ پر آ گیا۔ اس نے ٹیمپو کو دیکھتے ہی کہا کہ چل اس پر بیٹھ کر نانی کے گھر چلا جا! میرا بھی دل کر رہا تھا کہ نانی کے گھر چلا جاؤں، مجھے بھی وہ رات بڑی عجیب لگ رہی تھی، مجھے بھی محسوس ہو گیا تھا کہ میری والدہ کی یہ آخری شب ہے۔ پر ابو کو بتائے بغیر تو نہ جا سکتے تھے۔ اور اتنی رات گئے مئو کی طرف سواری بھی بہت کم جاتی تھی۔ خیر! دیگر راتوں کی طرح یہ رات بھی کسی طرح گزر گئی، صبح ہوئی تو میں نے دکان کھول دی۔ کچھ دیر بعد ابو کے موبائل پر امی کے انتقال کی خبر آئی۔ پر ابو کو ہمت نہ ہو رہی تھی ہمیں وہ یہ خبر سنا سکیں۔ مگر تھوڑی دیر بعد میری امی کی خالہ زاد بہن جو محلے ہی میں رہتی ہیں آئی اور گلے سے لگا کر رونے لگیں، اتنے ہی میں میری چھوٹی پھوپھی تبسم [جو امی کے انتقال کے بعد نو مہینے تک ہمارے گھر آ کر گھر کا سارا کام کی تھیں] بھی آ گئیں اور کہنے لگیں “ہائے رے مورے لئکن یتیم ہو گئن” تب مجھے سارا ماجرا سمجھ میں آ گیا۔
اب معاملہ تدفین کا آیا تو امی کی خواہش تھی کہ میں اپنے ابا کے پاس دفن ہوؤں، کیوں کہ وہ اپنے والد کی چہیتی بیٹی تھیں۔ اور ابو بھی وہیں تدفین کرنے پر راضی ہو گئے تاکہ بچوں کا ننہال سے رشتہ بنا رہے۔ مولانا محمد جعفر صادق اعظمی حفظہ اللہ (استاذ جامعہ ضیاءالعلوم ادری) نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جب میری امی کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا جا رہا تھا تو وہ سارا منظر میرے ابو نے میرے چھوٹے بھائی کو دکھا دیا، اور بتا دیا کہ امی اس میں دفن ہو گئیں ہیں تاکہ آئندہ امی کے پاس جانے کی ضد مت کرنا۔ واقعی میں میرے ابو نے اس مقام پر آ کر بڑی ہمت اور حکمت سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ننہال کا رشتہ بھی بچا ہے اور چھوٹا بھائی امی کے پاس آج تک جانے کا نام تک نہیں لیا ہے۔
*از: محمد سلیم انصاری ادروی*