سیالکوٹ جیسے اندوہناک پیش آتے ہیں تو کئی فکری گروہ نکل آتے ہیں:

ایک، جو قرآن پاک کی تعلیمات سے بُغض رکھتے ہیں۔ ایسے مواقع پر کُھل کر قرآنی تعلیمات کو وجہ قرار دیتے ہیں۔

دو، جو حدیث کے منکر ہیں۔ ایسے مواقع پر احادیث پر تبرا بھیجنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

تین، جو فقہ کے خلاف ہیں۔ ایسے مواقع پر فقہی علوم کے خلاف اپنی نفرت نکالنا نہیں بھولتے۔

چار، جو اپنے ملک کے خلاف ہیں۔ ایسے مواقع پر پاکستان کی تمام تر خرابیاں لیے موجود ہوتے ہیں۔ کچھ پاکستان کے قیام کو غلط گردانتے ہیں۔ کچھ پاکستان سے بھاگ نکلنے کی منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ جو باہر ہیں، وہ مطمئن نظر آتے ہیں کہ ہم نے بروقت فیصلہ کرلیا۔

کل سے کم و بیش یہی چار بولیاں سنائی دے رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ کہنے والے بہت کم ہیں کہ جہالت ہونا اور انصاف کی فراہمی نہ ہونا اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

جائزہ لیجیے کہ ہمارے تعلیم کے نظام نے شعور دینے اور جہالت ختم کرنے میں کتنا کردار ادا کیا ہے؟

ایسے ہجوم زیادہ تر سکول کا چہرہ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ کوئی پانچ جماعتیں، کوئی سات اور کوئی دس جماعتیں پاس۔

پانچ، سات، دس سال اِن اداروں میں گزارنے کا اثر کیوں نہ نکلا؟

آپ سروے کروا لیں، زیادہ تر اس ہجوم کے شریک کچھ نہ کچھ سال سکولوں میں گزار کر نکلے ہونگے۔

۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری بات یہ کہ تعلیم کیوں چھوڑنا پڑی؟

سب سے بڑی وجہ معاشی تنگی ہے۔ گھر کے حالات ایسے کہ فیکٹریوں کا ایندھن بننا پڑتا ہے یا سڑکوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔

ساتھ ساتھ جب زیادہ پڑھے لکھے بھی جوتیاں چٹخاتے بیروزگار نظر آتے ہیں، خود کشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو پڑھنا لکھنا بیکار کام معلوم ہونے لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری بات انصاف کی عدم فراہمی یا کافی تاخیر سے فراہمی ہے۔

انصاف فراہم کرنے والے کہاں سے پڑھے ہیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ ایل ایل بی کی ڈگری کہاں سے حاصل کی جاتی ہے۔

یعنی جہاں کم پڑھی لکھی عوام، جہالت کا شکار ہورہی ہے، وہاں زیادہ پڑھے لکھے، عوام میں سے نکلے خواص بھی عوام کو عدم تحفظ کا عملی احساس فراہم کررہے ہیں۔

اور اگر کوئی قانون دان درست کام کرنا چاہے تو دباؤ میں لانے والے کون ہیں؟

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ہم ایک سو اسی ڈگری زاویے پر غصہ اسلام پر نکالتے ہیں۔ قرآن، حدیث اور فقہ کو نشانہ بناتے ہیں۔ ملک کو بُرا کہتے ہیں۔ اپنے تمام بغض، کینے، تعصبات اور نفرتیں ایسے مواقع پر باہر انڈیل دیتے ہیں۔

عصری تعلیم کا معیار بہتر کرنا، ساتھ تربیت اور شعور کی بیداری کو ہم آہنگ کرنا، معاشی طور پر لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، قانون کی پاسداری اور بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہی ایسے وحشیانہ مسائل کے حل ہیں۔

یہ کام اربابِ اختیار کی سنجیدگی کے بغیر ہونا سہل نہیں۔

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

آفاق احمد

#سیالکوٹ