*جاٹ لینڈ کی سیاسی ڈگر اور مسلمان*

 

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی( کالپی شریف)

چئیرمین تحریک علمائے بندیل

رکن روشن مستقبل دہلی

 

اتر پردیش میں اس وقت سیاسی پارہ پورے شباب پر ہے اور ہر طرح کی کھچڑی پکنے کے لیے ہانڈیاں چڑھ چکی ہیں، یہ کھچڑی سیاسی کھچڑی ہے جس میں ہر کوئی مسلمانوں کو تیج پتہ کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے، ایسا ہی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، سارے خانسامے اس بار بھی وہی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بار حیدرآبادی بریانی کی انٹری سے کھچڑی “بیر بل کی کھچڑی” میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے –

مسلم نوجوان اس بات کو خوب سمجھ چکے ہیں کہ ہمیں صرف استعمال کیا گیا ہے اب اور کسی کا ذائقہ بڑھانے سے بہتر ہے کہ اپنی بریانی کو ہی ترجیح دی جائے – سیاسی ریلیوں میں آرہی بھیڑ اور نوجوان، بزرگوں کے انٹرویوز میں جارحانہ، مدبرانہ،حصے دارانہ پوائنٹڈ اور حاضر جوابی کے جو نمونے” گُھمنتو” نیوز چینلوں کی کوریج سے منظر عام پر آرہے ہیں وہ بھی مسلم قیادت کے لیے خوشی کی بات ہے، وہ بزرگ جو عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں اور گاؤں کی سیاست سے زیادہ جانتے نہیں تھے آج ملکی سیاست پر بات کرتے اور دلائل کا انبار لگاتے دیکھے جارہے ہیں –

بقول ڈاکٹر اقبال

ع یہ نکلتے ہوے سورج کی افق تابی ہے –

 

یاد رہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دن میں ترقی نہیں کرتیں اور جس قوم کے نوجوان بیدار ہو جائیں وہی قوم کامیاب ہوتی ہے، اور نوجوانوں کی بیداری ہی سے حصے دارانہ سیاست کی داغ بیل پڑا کرتی ہے اور کافی حد تک اس کی ابتدا ہو چکی ہے –

 

*مغربی اتر پردیش پر سب کی نگاہیں کیوں؟*

 

ساری سیکولر کہلانے والی پارٹیاں اس وقت وقت اپنی اپنی طاقت جھونک رہی ہیں، کوئی تین سو یونٹ بجلی فری دینے کی بات کر رہا ہے تو کوئی خواتین کو 50 فیصد حصے داری اور گریجویشن کرنے والی طالبات کو اسکوٹی کی پیش کش کر رہا ہے، اس سب کے بیچ سب سے زیادہ سرخیاں مغربی اتر پردیش کے 14 اضلاع کی 71 ودھان سبھا نشستوں کو لے کر ہیں، یہیں سے کسان آندولن میں نئی جان ڈالی گئی اور یہیں سے گنا کسانوں کا مدعا بھی زور پکڑا، یہیں کسانوں پر گاڑی چڑھاکر انھیں جھکانے کی ناکام کوشش بھی ہوئی اور یہیں کسان مہیا پنچائیت بھی ہوئی، یہی وہ علاقہ ہے جہاں بی جے پی رہنماؤں کے لیے گاؤں کے باہر ہورڈنگس لگائی گئیں کہ “بی جے پی والوں کا گاؤں میں داخلہ ممنوع ہے” –

 

اکھلیش یادو حکومت کے دوران ہوے مظفر نگر فسادات کا بی جے پی کو اتنا فائدہ ہوا کہ 2017 میں ہونے والے الیکشن میں یہاں سے بی جے پی کو 71 میں سے 51 ودھان سبھا سیٹوں پر کامیابی ملی، وہیں 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں 19 میں سے سولہ نشستیں بی جے پی اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی – یعنی اتر پردیش اور دہلی کی حکومتوں کا راستہ بی جے پی نے اسی مغربی اتر پردیش کے سہارے طے کیا تھا – یہی وجہ ہے کہ اکھلیش، مایاوتی، پرینکا گاندھی سب کی نگاہیں یہاں کے جاٹ ووٹروں پر ہے، اسی لیے اکھلیش یادو نے جینت چودھری کو گٹھبندھن میں تقریباً شامل کر لیا ہے وہ بھی من مانی شرائط پر –

 

*اجگر فارمولا اور جینت چودھری*

 

مغربی یوپی میں 25 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جن پر جاٹ ووٹروں کو فیصلہ کن مانا جاتا ہے۔ مغربی یوپی میں کل 29 فیصد مسلم ووٹر ہیں۔ جاٹ + مسلم + یادو ووٹوں کا مطلب ان تمام سیٹوں پر یک طرفہ جیت ہوتی تھی ۔ لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ایس پی-بی ایس پی- آر ایل ڈی کے عظیم اتحاد کے باوجود ایسی کوئی صورت نہیں بن سکی۔ وجہ – 2013 کے مظفر نگر فسادات جس نے RLD کی جاٹ + مسلم اتحاد کو تباہ کر دیا تھا ۔

چودھری اجیت سنگھ نے اس علاقے میں ایک کامیاب فارمولا بنایا تھا جسے” اجگر” فارمولا کہا جاتا تھا، الف یعنی “ا” سے اہیر (یادو) جیم (ج) سے جاٹ، گاف(گ) سے گرجر اور “ر “سے راجپوت، مجموعہ ہوا “اجگر” چونکہ اہیر یعنی یادو الگ ہو کر اپنی پارٹی بنا چکے اور کامیاب بھی ہو چکے، ایسے میں اہیر کی جگہ” م” سے مسلم کو شامل کرلیا اور یہ ہوگیا” مجگر” –

 

اجیت سنگھ کی قیادت میں، آر ایل ڈی کی بہترین کارکردگی 2002 ء میں اسمبلی کے انتخابات میں رہی تھی جب انہوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں 14 نشستیں جیتی تھیں، اس کے بعد، 2007 میں، پارٹی نے دس نشستوں پر کامیابی پائی، 2012 میں، سماجوی پارٹی-آر ایل ڈی الائنس نے کامیابی پائی اور اس کے 9 ودھایک جیتے اور سرکار بنی، اسی طرح لوک سبھا میں بھی RLD کو تین نشستوں پر کامیابی ملی، لیکن 2017 میں RLD اکیلے 277 سیٹوں پر لڑی اور صرف ایک سیٹ جیت سکی –

 

*29 فیصد مسلم جاٹوں کے بھروسے کب تک؟*

 

جاٹ لینڈ کہے جانے والے اس علاقے میں 29 فیصدی مسلم ووٹر ہیں، لیکن یہ ووٹر چودھری چرن سنگھ(سابق وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اتر پردیش) کے زمانے سے ہی اوروں کے بھروسے رہے ہیں، کبھی سماجوادی کا سہارا بنے تو کبھی بی ایس پی اور آر ایل ڈی کا، 2013 فسادات کے بعد یہ بندھن بھی ٹوٹ گیا، مسلمانوں کے سہارے وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچنے والے سارے کے سارے دھرندر اوندھے منھ گر گیے، پچھلے ایک سال سے چل رہے کسان احتجاج میں راکیش ٹکیت فسادات کے لیے معافی مانگ چکے ہیں اسی وجہ سے مسلم کسان لیڈران ساتھ آگیے کی وجہ سے RLD کے سربراہ جینت چودھری ایک بار پھر اپنی طاقت مسلموں کے ذریعے بحال کرنا چاہتے ہیں، ورنہ ان کا حشر تو ہم 2017 میں دیکھ چکے جاٹ، راجپوت گرجر سب نے ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کو سپورٹ کیا تھا، خود خاموش حمایت کرنے والوں کو بھی مذکورہ ساری قوموں نے اوقات دکھا دی تھی، ہمارے سہارے زیادہ سیٹوں پر اکڑ دکھانے والے ایک بار پھر گھات میں ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر وہاں مسلم قیادت ہے تو اسے سپورٹ کریں –

 

*مسلمان خود پر بھروسا کریں*

 

ہم دیکھ رہے ہیں کہ 2 فیصد، چار فیصد اور چھ فیصد والے سب مل کر مسلم قیادت ختم کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ یہ تو پسند کر رہے ہیں کہ بی جے پی جیت جائے لیکن انھیں یہ پسند نہیں ہے کہ مسلم قیادت کھڑی ہو سکے، 19 فیصد مسلم ووٹ کی کسی سیاسی پارٹی کو ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جائیں گے کہاں؟ لیکن اب مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج آپ کے پاس ایک بہترین قائد ہے اگر اسے آج نہیں سمجھا گیا تو آیندہ پھر مزید مشکلات کا سامنا کرنا یقینی ہے – اب کسی کو ہرانے یا جتانے کی بجائے اپنے آپ کو آگے لانے اور مضبوطی سے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، سیاست میں کوئی مائنارٹی اور مجورٹی نہیں ہوتا، بس جو مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، ورنہ راج بھر، نشاد، موریہ جاٹ، راجپوت کتنے ہیں یہ سب پر عیاں ہے اور سب کی حصے داری بھی ہے اور حیثیت بھی –

4 /12 /2021