کیا حضرت ہندہؓ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا ؟
کیا حضرت ہندہؓ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا ؟ مسند بن احمد کی روایت کی اسنادی حیثیت!
تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی
امام احمد نے مذکورہ روایت کو بیان کیا ہے جسکی سند درج ذیل ہے :
حدثنا عفان، حدثنا حماد، حدثنا عطاء بن السائب، عن الشعبي، عن ابن مسعود، أن النساء كن يوم أحد خلف المسلمين۔۔۔ الخ
[مسند احمد برقم: 4414]
اور مذکورہ سند میں امام عطاء بن سائب سے بیان کرنے والا راوی امام حماد بن سلمہ ہے جیسا کہ اس روایت کو امام ابن ابی شیبہ نے بھی بیان کیا ہے جس میں مکمل نام کی تصریح موجود ہے :
جیسا کہ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اپنی سند سے مذکورہ روایت بیان کرتے ہیں :
عفان , قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: أخبرنا عطاء بن السائب , عن الشعبي , عن ابن مسعود , أن النساء , كن يوم أحد خلف المسلمين۔۔۔الخ
[مصنف ابن ابی شیبہ برقم: 36783]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایت کی سند کا حال!
اس مذکورہ روایت کا بنیادی راوی امام عطاء بن سائب ہے جنکو اختلاط ہو گیا تھا اور حافظہ متغیر ہو گیاتھا جسکی وجہ سے متقدمین ناقدین نے اس کے تلامذہ کی تخصیص کی ہے کہ عطاء سے انکے قدیم تلامذہ کا سماع صحیح ہے اور عطاء کے متاخرین تلامذہ کا سماع ضعیف ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناقدین سے عطاء بن سائب کے بارے تفصیلی کلام درج ذزیل ہے :
امام یحییٰ بن سعید القطان
وقال يحيى القطان: ما سمعت أحدا من الناس يقول في عطاء بن السائب شيئا في حديثه القديم، قيل ليحيى: ما حدث سفيان وشعبة أصحيح هو؟ قال: نعم إلا حديثين كان شعبة يقول: سمعتهما بأخرة
امام یحییٰ کہتے ہیں میں نے عطاء بن سائب کی احادیث ان لوگوں سے سماع کی ہےجنکا سماع (عطاء) سے قدیم ہے ۔ تو امام یحییٰ سے کہا گیا کہ سفیان اور شعبہ کا سماع ان سے صحیح ہے ؟ تو کہا ہاں سوائے شعبہ کی ان دو احادیث کے جو انہوں نے (عطاء) سے آخری دور میں سنی
[تاریخ الکبری للبخاری برقم: 3000] [الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم]
امام احمد بن حنبل :
وقال عبد الله: سألته (يعني أباه) عن عطاء بن السائب. فقال: صالح، من سمع منه ـ يعني قديماً ـ وقد تغير، فإنه ليس بذاك،
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں میں نےاپنے والد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا یہ صالح ہے جب ان سے سماع کرنے والے قدیم (تلامذہ) ہو۔ اور جنہوں نے (اسکے)تغیر میں (سماع) کیا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے (یعنی ضعیف ہے)
[العلل برقم: 882]
وقال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن عطاء بن السائب. قال: من سمع منه قديماً كان صحيحاً، ومن سمع منه حديثاً لم يكن بشيء، سمع منه قديماً شعبة، وسفيان
امام ابو طالب کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا : جس نے اس سے قدیم (زمانے) میں سماع کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ اور جس نے (بعدمیں ) سماع کیا ہے وہ کوئی شی نہیں ہے ۔ اور اس سے قدیم سماع کرنے والوں میں امام شعبہ اور امام سفیان ثوری ہیں ۔
[الجرح والتعدیل برقم: 1848]
امام ابن سعد :
وكان ثقة. وقد روى عنه المتقدمون. وقد كان تغير حفظه بآخره واختلط في آخر عمره.
یہ ثقہ تھا جب اس سے روایت کرنے والے اسکے قدیم (تلامذہ) ہوں ۔ اسکا حافظہ متغیر ہو گیا تھا آخر میں اور اسکی عمر کے آخر میں اسکو اختلاط واقع ہو گیا ۔
[الطبقات الكبرى بن سعد برقم: 2510]
امام عجلی
كوفى تابعي جائز الحديث وقال مرة كان شيخا قديما ثقة روى عن بن أبي أوفى ومن سمع من عطاء قديما فهو صحيح الحديث منهم سفيان الثوري فأما من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث منهم هشيم وخالد بن عبد الله الواسطي إلا أن عطاء كان بأخرة يتلقن
یہ کوفی تابعی ہے اور جائز الحدیث ہے اور پھر کہا یہ ثقہ تھا قدیم (زمانے کے حوالے سے)۔ ا س نے ابن ابی اوف سے ۔ اور جو عطاء سے قدیم تلامذہ کا سماع ہے وہ صحیح ہے حدیث میں ان میں سفیان ثوری ہے ۔ اور جن کا سماع ان سے آخری زمانہ کا ہے اس میں یہ مضطرب الحدیث تھا متاخرین سماع میں ھشیم ، خالد بن عبداللہ ہیں اسکے علاوہ عطاء آخری عمر میں تلقین بھی (قبول)کرتے۔
[الثقات للعجلی برقم: 1237]
امام ابو حاتم:
نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول كان عطاء بن السائب محله الصدق قديما قبل ان يختلط صالح مستقيم الحديث ثم بأخرة تغير حفظه في حديثه تخاليط كثيرة وقديم السماع من عطاء سفيان وشعبة، وحديث البصريين الذين يحدثون عنه تخاليط كثيرة لانه قدم عليهم في آخر عمره، وما روى عنه ابن فضيل ففيه غلط واضطراب
امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو کہتے سنا: عطاء بن سائب سچا تھا ۔ اور محفوظ حدیث والا تھا کہ پھر عمر کے آخری حصے میں اسکا حافظہ متغیر ہو گیا ۔ اور اسکی احادیث میں کثیر غلطیاں واقع ہوئیں ہیں ۔ جس نے قدیم سماع کیا عطا ء سے ان میں سفیان اور شعبہ ہیں ۔ اور جو بصرہ میں اس نے لوگوں کو احادیثث بیان کی وہ اختلاط کی حالت کثیر غلطیاں کی ۔ کیونکہ عمر کے آخری حصے میں یہ وہاں آئے تھے۔ اور جو ابن فضیل ان سے روایت کرتا ہے اس میں بھی غلط احادیث ہیں اور اضطراب ہے ۔
[الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم برقم: 1848]
امام ابو حاتم کا یہ کلام قابل غور ہے کہ جب دوسری بار امام عطاء بصرہ گئے تو انکا حافظہ بہت زیادہ خراب تھا اور کثیر غلطیاں کی بصرہ میں روایت کرنے میں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام یحییٰ بن معین کے بقول امام حماد بن سلمہ کا سماع بھی امام عطاء سے قبل از اختلاط ہے جیسا کہ امام الدوری روایت کرتے ہیں :
سمعت يحيى يقول حديث سفيان وشعبة بن الحجاج وحماد بن سلمة عن عطاء بن السائب مستقيم
امام یحییٰ بن معین سے سنا وہ کہتے ہیں کہ جو حدیث سفیان شعبہ اور حماد بن سلمہ نے عطاء سے بیان کی ہیں وہ محفوظ ہیں
[تاریخ یحییٰ بن معین بروایت الددوری برقم: 1465]
اب متعرض اگر یہ دعویٰ کرے کہ مذکورہ روایت بھی حماد بن سلمہ نے بیان کی ہے عطاء سے تو روایت صحیح ہوئی تو یہ دعویٰ ابھی بھی ناقص ہے کیونکہ امام حماد بن سلمہ کا سماع عطاء سے قبل از اختلاط بھی ہے اور بعد از اختلاط بھی ثابت ہے ۔
جیسا کہ امام مغلطائی الحنفی اکمال میں امام دارقطنی کی کتاب الجرح والتعدیل سے نقل کرتے ہیں :
وفي كتاب ” الجرح والتعديل ” عن الدارقطني: دخل عطاء البصرة دخلتين فسماع أيوب، وحماد بن سلمة في الدخلة الأولى صحيح. والدخلة الثانية فيه اختلاط.
اور کتاب الجرح والتعدیل میں امام دارقطنی سے روایت ہے : کہ عطاء بصرہ میں دو مرتبہ آئے تو ان سے ایوب، حماد بن سلمہ نے پہلی بار جو سماع کیا جو کہ صحیح ہے ۔ اور جب وہ دوسری بار آئے تو تب ان میں اختلاط تھا
[إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال برقم: 3715]
اس سے ثابت ہوا کہ عطاء سے حماد بن سلمہ نے بصرہ میں دو بار سماع کیا ہے پہلی بار میں انکا سماع جب تھا تب عطاء ٹھیک تھا لیکن جب دوسری بار حماد بن سلمہ اور ایوب نے بصرہ میں سماع کیا تب اختلاط شدہ تھا عطا اور بقول امام ابو حاتم بصرہ میں دوسری بار جب یہ گئے تو انکی روایات میں کثیر غلطیاں تھیں ۔
ا ب حماد سے عطاء کی روایات میں تمیز نہیں ہو سکتی کہ کونسی روایات قبل اختلاط ہیں اور کونسی بعد از اختلاط ہیں جسکی وجہ سے یہ روایت ساقط الاعتبار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام دارقطنی کی بنام الجرح والتعدیل کتاب موجود نہیں ہے اور وہ امام مغلطائی اس کتاب کا حوالہ دینے میں منفرد ہیں
تو یہ کوئی علمی اعتراض نہیں کیونکہ امام مغلطائی حنفی ایک ثقہ جید محدث ہیں اور محدث جب کتاب کے حوالے سے کوئی روایت مصنف کی نقل کرے تووہ حجت ہوتی ہے ۔ باقی اس کتاب کا حوالہ دینے میں امام مغلطائی الحنفی منفرد بھی نہیں بلکہ امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ وہ اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال نقل کیے ہیں
وقال الدارقطني في الجرح والتعديل: “ثقة
[تہذیب التہذیب برقم: 199]
وقال الدارقطني في الجرح والتعديل ثقة.
[تہذیب التہذیب برقم: 15]
امام ابن حجر عسقلانی نے اس کتاب سے ۱۲ سے زیادہ جگہ پر فقط تہذیب میں اس کتاب کے حوالے سے امام دارقطنی کے اقوال لکھے ہیں اور اسکے علاوہ بھی اور محدثین نے نقل کیے ہیں اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال تو فقط ایک مثال کافی ہے ۔
نیز یہ جرح نقل کرنے میں امام مغلطائی منفرد نہیں بلکہ امام سلمی نے بھی یہ جرح امام دارقطنی نے بیان کی ہے
وقال الشيخ: دخل عطاء بن السائب البصرة، وجلس؛ فسماع أيوب وحماد بن سلمة في الرحلة الأولى صحيح، والرحلة الثانية فيه اختلاط.
شیخ (دارقطنی) نے کہا کہ عطاء بن سائب بصرہ میں مجلس قائم کی پھر ان سے ایوب اور حماد بن سلمہ نے پہلی مرتبہ سماع کیا جو کہ صحیح ہےاور دوسری بار جب کیا (سماع) تو ان (عطاء) میں اختلاط تھا
[سؤالات السلمي للدارقطني برقم: 478]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب تک اس علت کو رفع نہ کیا جائے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت قبل اختلاط سنی یا بعد از اختلاط تو یہ علت قائم رہے گی جسکی وجہ سے روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور روایت ضعیف رہے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ
امام ابن کثیر نے اس روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے عطاء بن سائب کے سبب جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
وهذا إسناد فيه ضعف أيضا من جهة عطاء بن السائب
اور اس سند میں ضعف ہے عطاء بن سائب کے سبب
[البداية والنهاية ، ج۴، ص ۴۶]
اور اسی طرح امام ہیثمی کا بھی یہی موقف ہے وہ فرماتے ہیں :
رواه أحمد، وفيه عطاء بن السائب؛ وقد اختلط.
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد برقم: 10072]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید یہ ہے حماد بن سلمہ کو بھی اختلاط ہو گیا تھا لیکن انکی روایت بعدا ز اختلاط مطلق ضعیف تو نہیں ہوتیں لیکن انکی روایات میں نکارت آگئی تھیں ۔ اور امام شعبی کا حضرت ابن مسعود سے سماع نہیں تھا لیکن یہ علت روایت کی صیحت کے منافی نہیں کیونکہ امام شعبی کی مرسیل حجت ہوتی ہیں ائمہ کے نزدیک ۔ اس لیے اصل علت اس روایت میں عطاء کا اختلاط اور حماد کا ان سے سماع کی تمیز نہیں قبل اور بعد اختلاط میں ۔
تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی