وسیم رضوی سے ناراین تیاگی تک کا سفر
وسیم رضوی سے ناراین تیاگی تک کا سفر
کسی سے کسی شی یا شخص کا خروج تب متحقق ہوتا ہے، جب پہلے سے اس میں اس کا دخول یقینی ہو۔ فرض کیجیے، ایک آدمی پہلے سے ہی کسی شہر کے احاطے میں موجود نہ ہو تو پھر اس کا یہ کہنا یا اس کے بارے میں یہ کہا جانا کہ فلاں شخص اس مخصوص جگہ کی سرحدوں سے نکل گیا، بالکل لا یعنی ہے۔
وجوہات جو بھی رہی ہوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ اتر پردیش شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کا سابق چیئرمین وسیم رضوی لمبے عرصے سے اسلام مخالف بیانات/حرکتیں دیتا/کرتا آ رہا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر فلم بنانے کی بات ہو یا پھر مدارس اسلامیہ میں دہشت گردی کی تعلیم کو لے کر انہیں نشانہ بنانے کا معاملہ؛ یہ شخص ہمیشہ سے اسلام دشمن عناصر کا پسندیدہ رہا ہے۔ مگر محبوبیت کی معراج کو یہ تب پہنچا، جب مارچ 2021 میں اس نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک عرضی دایر کی۔ اور یہ کہتے ہوے قرآن مجید سے 26 آیات کریمہ کے اخراج کی درخواست کر ڈالی کہ یہ تشدد کو فروغ دیتی ہیں۔ “محمد” نامی کتاب لکھ کر اس نے مزید اپنی خباثتوں کا مظاہرہ کیا۔
گو وسیم نے پہلے ہی یہ وصیت کر دی تھی کہ موت کے بعد دفنانے کے بجاے اس کی لاش نذر آتش کی جاے (اور ایسا کرتا بھی کیوں نہیں کہ خود اس کی شیعہ برادری تک نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ وہ اسے اپنے کسی قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دیں گے). تاہم کفر پیہم کھل کر اپنے انجام کو تب پہنچا، جب گزشتہ 6 دسمبر کو اس نے با ضابطہ ہندو دھرم اپنانے کا علانیہ فیصلہ کیا۔ اس طرح وسیم رضوی سے جیتیندر ناراین سنگھ تیاگی تک کا لمبا سفر طے ہوا۔
اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ رسم غازی آباد کے ڈاسنا مندر کے بد نام زمانہ پجاری یتی نرسنگھانند کی موجودگی میں انجام پذیر ہوئی۔ پچھلے کئی برسوں کی اسلام مخالف مسلسل کارستانیوں سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ وسیم رضوی کے دل پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے۔ اس لیے اس کا توبہ کرنا محال تھا۔ ایسے میں یہ سکون کی بات ہے کہ اب تک جو اسلام دشمن شرارت وہ مسلم نام کے ساتھ بظاہر مسلم رہ کر انجام دے رہا تھا، اب کھلا ہندو بن کر کرے گا (بالفرض، اسے یہ حرکتیں کرنا ہی ہوئیں). اگر مسلمان (دنیا کی نظر میں) رہ کر وہ اس طرح کی خباثتوں کا آیندہ بھی مظاہرہ کرتا رہتا تو شاید کسی ضعیف الاعتقاد مسلمان کے دل میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا ہو بھی سکتے تھے۔ لیکن اپنی اصلیت دنیا کے سامنے لا کرجیتندر ناراین سنگھ نے بہتوں کو اس مصیبت میں ممکنہ طور پر پڑنے سے بچا لیا ہے۔
اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ مسلمیت کا مصنوعی چولا اتارنے کے لیے اس نے یتی نرسنگھانند جیسے نفرت کے پجاری کی پناہ لی۔ اس سے یہ بات اور پختہ ہو گئی کہ اس پورے ناٹک کے پیچھے جو محرک کار فرما تھا، وہ در اصل اسلام اور مسلم دشمنی ہے۔ ہندو دھرم کی حقانیت کا کوئی انکشاف نہیں؛ ورنہ اس کے لیے ہندومت کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاتا اور خلوص کے ساتھ کسی روحانی سادھو کے زیر سایہ یہ عمل انجام پاتا۔ اس لیے معتدل ہندوؤں کی اچھی خاصی تعداد نے تیاگی کو موقع پرست اور اس طرح کے دوسرے خطابات سے نواز کر اس کی حیثیت اجاگر کر دی ہے۔ اور ایسا شاید اس لیے بھی کہ جیتیندر تیاگی پر رشوت ستانی اور ریپ جیسے سنگین الزامات عائد ہیں۔
✍️ محمدحیدررضا