تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

*(تقلید شخصی)*

سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ تقلید نام کس چیز کا ہے.

تقلید دراصل ان اصول و ضوابط کی پیروی کا نام ہے جن کے ذریعے ایک مجتہد قرآن و حدیث سے احکام مستنبط کرتا ہے.

 

اگر آپ چاروں مذاہبِ کے اصول فقہ کا آپس میں موازنہ کریں تو ان میں جگہ جگہ آپس میں کثیر اختلاف پایا جاتا ہے..پھر اسی اصولی اختلاف کی وجہ سے احکام مستنبطہ میں بھی کثیر اختلاف پایا جاتا ہے.

 

ایسے میں ایک صاحب بصیرت شخص اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ایک وقت میں چاروں مذاہب کے فقہی اصولوں کو فالو کرنا قطعاً ناممکن ہے،کیونکہ وہ کئی زاویوں سے آپس میں مختلف و متضاد ہیں.

 

ایک فقہ حدیث مرسل کو قبول کرتی ہے اور دوسری نہیں کرتی… ایک فقہ میں مفہومِ مخالف معتبر ہے اور دوسری میں نہیں.. ایک فقہ میں علت قدر مع الجنس ہے اور دوسری میں طعم و ثمنیت.. ایک فقہ میں قروء کا مطلب حیض ہے اور دوسری میں طہر..

یہ فقط چند مثالیں ہیں ورنہ ہزاروں مقامات پر اسی طرح کا اختلاف پایا جاتا ہے.

 

اب اس اختلاف کا لازمی و منطقی نتیجہ یہی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی فقہی مذہب کے اصولوں کو فالو کیا جائے…اسی کا نام تقلید شخصی ہے..

 

اگر تقلید شخصی کو واجب قرار نہ دیا جائے تو یہ سارے کا سارا عظیم القدر فقہی اصولی اختلاف تلپٹ ہو کے رہ جائے گا، علمی اصول و ضوابط کی یہ جو محنت و مشقت سے تعمیر شدہ چار مربوط و منظم خوبصورت عمارتیں ہیں یہ سب ٹوٹنا پھوٹنا شروع ہو جائیں گی.. ایک وقت آئے گا کہ ان میں سے ایک بھی باقی نہیں بچے گی.

 

مطلق تقلید اس لیے فرض ہے کہ ان چار مذاہب نے تمام تر ممکنہ اصولوں کو اپنے اندر سمو لیا ہے.. اور تقلید شخصی اس لیے واجب ہے کہ ان چاروں کی بقا کسی ایک کو فالو کرنے میں ہے، نہ کہ بیک وقت سب کو فالو کرنے میں، جو کہ بنیادی طور پر ممکن ہی نہیں ہے.