》》تلمیذ خاص امام اعظم ابو حنیفہؓ امام زفر ؒکی اصحاب الحدیث پر علمی جلالت

▪︎ازقلم:اسد الطحاوی الحنفی

 

●امام خطیب بغدادی انکی علمی جلالت و فقاہت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی سند سے روایت نقل کرتے ہیں :

▪︎أخبرني الحسن بن أبي طالب , أنا علي بن عمرو الحريري: أن علي بن محمد بن كاس النخعي , حدثهم قال: نا إبراهيم بن إسحاق الزهري , نا أبو نعيم , قال: كنت أمر على زفر , وهو محتب بثوبه في كندة , فيقول: ا أحول تعال حتى أغربل لك أحاديثك فأريه ما قد سمعت فيقول: هذا يؤخذ به وهذا لا يؤخذ به , وهذا ناسخ وهذا منسوخ

 

امام انعیم فضل بن دکین فرماتے ہیں:میں امام زفرؒ کے پاس سے گزرتا تھا اور انہوں نے خود کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا ہوتا تھا وہ مجھے کہتے اے بھینگے! ادھر آو تاکہ میں تمہاری احادیث کی چھان بین کروں تو میں انکو اپنی روایات پیش کر دیتا تھا (یعنی سنا دیتا تھا ) جو پہلے میں نے سنی ہوئی ہوتی تھیں ۔تو وہ کہتے تھے کہ اس (فلاں حدیث) کو لیا جائے گا(یعنی یہ راجح ہے) اور اس فلاں (حدیث)کو نہیں لیا جائے گا (یہ مرجوع) ہے اور یہاں پر یہ (حدیث) ناسخ ہے اور یہ (حدیث) منسوخ ہے

[الفقيه و المتفقه للخطیب بغدادی ، جلد ۲، ص ۱۶۳]

 

《《یعنی امام زفر علیہ رحمہ امام ابو نعیم فضل بن دکین کو بتاتے تھے کہ تمہارا یاد کیا گیا مجموعہ حدیث میں کتنا قابل عمل ہے اور کتنا چھوڑنے کے لائق ہے۔》》

 

●سند کے رجال کا تعارف!!

 

■۱۔پہلا راوی : الحسن بن محمد بن الحسن بن علي أبو محمد الخلال وهو الحسن بن أبي طالب

 

كتبنا عنه، وكان ثقة،

[تاریخ بغداد برقم: 3950]

 

■۲۔دوسرا راوی: عليّ بن عمرو بْن سهل، أَبُو الحسن الحريري

 

وكان ثقة.

[تاریخ بغداد برقم: 6384]

 

■۳۔تیسرا راوی : علي بْن مُحَمَّد بْن الحسن بْن مُحَمَّد أَبُو القاسم النخعي القاضي المعروف بابن كاس

 

وكان ثقة فاضلا عارفا بالفقه على مذهب أَبِي حنيفة،

[تاریخ بغداد برقم: 6422]

 

■۴۔چوتھا راوی : إبراهيم بن إسحاق بن أبي العنبس أبو إسحاق الزهري القاضي الكوفي

 

وكان ثقة، خيرا، فاضلا

[تاریخ بغداد برقم: 3010]

 

■۶۔چھٹے راوی: امام ابو نعیم فضل بن دکین

▪︎اور امام ابو نعیم فضل بن دکین متفقہ علیہ ثقہ امام ہیں انکی خود کی علمی جلالت یہ تھی کہ امام احمد بن حنبل و امام یحییٰ بن معین جیسے محدثین انکے سامنے بچے ہوتے تھے علم کے اعتبار سے اسکا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتاہے :

 

●امام ذھبیؒ سیر اعلام النبلاء میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں :

▪︎أحمد بن منصور الرمادي، يقول: خرجت مع أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين إلى عبد الرزاق، خادما لهما، فلما عدنا إلى الكوفة، قال يحيى بن معين لأحمد بن حنبل: أريد أختبر أبا نعيم، فقال له أحمد بن حنبل: لا تريد، الرجل ثقة، فقال يحيى بن معين: لا بد لي، فأخذ ورقة، فكتب فيها ثلاثين حديثا من حديث أبي نعيم، وجعل على رأس كل عشرة منها حديثا ليس من حديثه، ثم جاءوا إلى أبي نعيم، فدقوا عليه الباب، فخرج، فجلس على دكان طين حذاء بابه، وأخذ أحمد بن حنبل فأجلسه عن يمينه، وأخذ يحيى بن معين فأجلسه عن يساره، ثم جلست أسفل الدكان، فأخرج يحيى بن معين الطبق، فقرأ عليه عشرة أحاديث، وأبو نعيم ساكت، ثم قرأ الحادي عشر، فقال له أبو نعيم: ليس من حديثي اضرب عليه، ثم قرأ العشر الثاني، وأبو نعيم ساكت، فقرأ الحديث الثاني، فقال أبو نعيم: ليس من حديثي، فاضرب عليه، ثم قرأ العشر الثالث، وقرأ الحديث الثالث، فتغير أبو نعيم، وانقلبت عيناه، ثم أقبل على يحيى بن معين، فقال له: أما هذا، وذراع أحمد في يده، فأورع من أن يعمل مثل هذا، وأما هذا يريدني، فأقل من أن يفعل مثل هذا، ولكن هذا من فعلك يا فاعل، ثم أخرج رجله فرفس يحيى بن معين، فرمى به من الدكان، وقام فدخل داره، فقال أحمد ليحيى: ألم أمنعك من الرجل، وأقل لك: إنه ثبت، قال: والله لرفسته إلي أحب إلي من سفري.

 

▪︎امام احمد بن منصور رمادی کہتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل کی خدمت گزاری میں میں امام عبد الرزاق صنعانی کے پاس پہنچے واپسی پر جب ہم کوفہ کے قریب پہنچے تو امام یحییٰ بن معین نے امام احمد بن حنبل سے کہا :” میں ابو نعیم فضل بن دکین کی جانچ پڑتال کرنا چاہتا ہوں”تو امام احمد نے کہا اسے ثقہ ہی پاو گےتو امام یحییٰ بن معین نے کہا ” میں تو ضرور اب انکو ازماوگا”(نوٹ: امام ابن معین اور امام احمد کی لنگوٹیا یاری تھی تو ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد پکڑ لیتے تھے شغل کے لیے )چناچہ انہوں (ابن معین) نے ایک صفحہ لیا اور اس پر امام ابو نعیم کے مجمعہ احادیث میں سے ۳۰ روایات لکھیں اور ہر ۱۰ احادیث کے بعد ایک ایسی حدیث بھی لکھ دی جو انکی احادیث میں سے نہیں تھی ۔ پھر انکی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ (ابو نعیم) باہر تشریف لائے اپنے جبوترے پر بیٹھ گئےامام ابن معین نے صفحہ نکالا اور ۱۰ احادیث انکے سامنے بیان کر کے گیارھویں حدیث بیان کی تو انہوں ( ابو نعیم) نے فرمایا یہ میری حدیث نہیں ہے اسے نکال دوپھر اگلی ۱۰ احادیث بیان کی تو امام ابو نعیم خاموش رہے جب گیارھویں حدیث بیان کی تو پھر ابو نعیم نے کہا یہ حدیث میری نہیں ہے اسے نکال دوپھر آخری ۱۰ احادیث پڑھ کر گیارھویں حدیث بھی پڑھی تو ابو نعیم غصہ ہو گئے (وہ ابن معین کی نیت جان چکے تھے )اور امام احمد بن حنبل کا ہاتھ پکڑ لیا امام ابو نعیم نے اور امام ابن معین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا :یہ ابن حنبل ایسا کرنے سے بہت زیادہ محتاط ہے اور پرہیزگار بھی (کہ ہم کو جانچے) اور احمد بن منصور یہ ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں (کیونکہ وہ تم جیسا حافظ الحدیث نہیں )تو یہ کام (یعنی یہ منصوبہ ) تمہارا ہی ہےپھر ابو نعیم گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنا پاوں امام یحییٰ بن معین کے سینے پر مارا جس سے وہ گر پڑےامام احمد بن حنبل نے امام یحییٰ بن معین سے کہا”میں نہ کہتا تھا کہ یہ بہت ثقہ اور قوی حافظہ کے مالک ہیں امام یحییٰ بن معین (نے مٹی جھاڑتے ہوئے) فرمایااللہ کی سم انکا مجھے لات مارنا مجھے اپنے سفر سے زیادہ محبوب ہے

[سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۰ ، ص ۱۴۸]

 

》》اس واقعہ کو امام خطیب نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے جسکی سند حسن ہے

▪︎قرأت على علي بن أبي علي البصري، عن علي بن الحسن الجراحي، قال: حدثنا أحمد بن محمد بن الجراح أبو عبد الله، قال: سمعت أحمد بن منصور الرمادي، ۔۔۔۔الخ

[تاریخ بغداد ، جلد ۱۴ ، ص ۲۰۷]

 

●پتہ چلا کہ امام ابن معین حنفی اور احمد بن حنبل جیسے لوگ انکے سامنے علم کے اعتبار سے بچے تھے

 

●لیکن یہی امام ابو نعیم جو علم حدیث میں خود امام زفر بن ھذیلؒ کے شاگرد تھےاور امام زفر ؒکی علمی جلالت کا حال یہ تھا کہ انکو راہ چلتے بلا لیتے اور انکی روایات سے ہی انکو اصول ناسخ و منسوخ اور راجح و مرجوع کا اصول بھی سیکھاتے ہیں اور احادیث کی پہچان بھی کراتے ۔

¤¤ اب امام زفر کے بارے تھوڑا سا تعارف ہو جائے کہ تلمیذخاص امام ابو حنیفہ ؓ امام زفر علیہ رحمہ علم حدیث اور علم فقہ میں اپنی مثال آپ تھے۔¤¤

 

●امام المغرب ابن عبدالبر المالکی رحمہ اللہ الانتقاء میں انکا تعارف یوں پیش کرتے ہیں :

 

زفر بن الهذيل العنبري

▪︎ثم التميمي فكان كبيرا من كبار أصحاب أبي حنيفة وأفقههم وكان يقال إنه كان أحسنهم قياسا ولي قضاء البصرة فقال له أبو حنيفة قد علمت ما بيننا وبين أهل البصرة من العداوة والحسد والمنافسة ما أظنك تسلم منهم فلما قدم البصرة قاضيا اجتمع إليه أهل العلم وجعلوا يناظرونه في الفقه يوما بعد يوم فكان إذا رأى منهم قبولا واستحسانا لما يجيئ به قال لهم هذا قول أبي حنيفة فكانوا يقولون ويحسن أبو حنيفة هذا فيقول لهم نعم وأكثر من هذا فلم يزل بهم إذا رأى منهم قبولا لما يحتج به عليهم ورضى به وتسليما له قال لهم هذا قول أبي حنيفة فيعجبون من ذلك فلم تزل حاله معهم على هذا حتى رجع كثير منهم عن بغضه إلى محبته وإلى القول الحسن فيه بعد ما كانوا عليه من القول السيئ فيه

 

یہ امام ابو حنیفہ کے اکابر شاگردوں میں بلند حیثیت کے مالک ہیں اور ان میں سب سے بڑے فقیہ سمجھے جاتے ہیں یہ بات کہی جاتی ہے کہ قیاس کرنے کے حوالے سے یہ ان سب سے عمدہ تھے یہ بصرہ کے قاضی رہے ۔ امام ابو حنیفہ نے ان سے فرمایا تھا: تم جانتے ہو کہ :

اہل بصرہ اور ہمارے درمیان عداوت ، حسد اور ناچاقی پائی جاتی ہے ۔ تمہارے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ تم اس (کے اثرات) سے نہیں بچ پاوگے جب یہ قاضی کے طور پر بصرہ آئے تو اہل علم اکٹھے ہو کر انکے پاس آئے اور فقھی معاملات کے بارے میں روزانہ ان کے ساتھ بحث کرنے لگے ، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ ان کی آراءکو قبول کر رہے ہیں اور انہیں مستحسن قرار دے رہے ہیں تو انہوں (امام زفر)نے نے ان لوگوں کو بتایا کہ یہ امام ابو حنیفہؓ کے اقوالات ہیں تو ان لوگوں نے کہا :ابو حنیفہ اتنی اچھی رائے پیش کرسکتے ہیں !!(حیرانگی سے )تو امام زفر نے ان سے فرمایا :جی ہاں! بلکہ اس سے بھی زیادہ اچھی (رائے پیش کرسکتے ہیں ) ۔ بہرحال امام زفر ان کے سامنے جو دلائل پیش کرتے رہے وہ لوگ مسلسل انہیں قبول کرتے رہے ،، ان سے راضی ہوتے رہے اور انہیں تسلیم کرتے رہے ۔ جب امام زفر نان سے یہ کہتے کہ یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے ، تو وہ لوگ اس پر بہت حیران ہوتے ، ان لوگوں کے ساتھ امام زفر کی صورت حال اس طرح رہی یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگ امام ابو حنیفہ سے بغض کو چھوڑ کر انکی محبت میں گرفتار ہو گئے اور انکے بارے میں اچھی رائے رکھنے لگے ، حلانکہ وہ لوگ پہلے ان کے بارے میں بری رائےرکھتے تھے

 

●اسکے بعد امام ابن عبدالبر یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرتے ہیں :

▪︎وكان زفر قد خلف أبا حنيفة في حلقته إذ مات ثم خلف بعده أبو يوسف ثم بعدهما محمد بن الحسن ومات زفر سنة ثمان وخمسين ومائة وهو ابن ثمان وأربعين سنة

 

امام ابو حنیفہ کے انتقال کے بعد امام زفر ان کے حلقہ میں انکے جانشین بنے تھے اور پھر ان کے بعد قاضی ابی یوسف ان کے جانشین بنے تھے اور پھر ان دونوں حضرات کے بعد امام محمد بن الحسن الشیبانی اس حلقہ کے استاد بنے تھے

[الانتقاء ابن عبدالبر ص 174]

 

 

 

–》》نوٹ: معلوم ہوا کہ امام اعظم میں بھی یہ بات معروف تھی لوگ انکے خلاف اڑائی گئی جھوٹی باتوں سے ان سے تعصب و حسد رکھتے تھے اور یہ تعصب رکھنے میں اہل علم معزور تھے کیونکہ ان تک امام اعظم سے منسوب جھوٹی باتیں بیان کی گئی

 

اور پھر یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل بصرہ نے جب امام زفر کی اجتیہاد کو جانا اور پھر جب یہ معلوم ہوا کہ یہ امام اعظم سے اخذ کردہ ہے تو وہ امام اعظم سے محبت کیے بغیر نہ رکھے اللہ اکبر !!!

 

 

 

¤¤محدثین سے توثیق :¤¤

 

 

 

■امام ابن حبان

▪︎ زفر بن الهذيل بن قيس من بلعنبر كنيته أبو الهذيل الكوفي وكان من أصحاب أبي حنيفة يروي عن يحيى بن سعيد الأنصاري روى عنه شداد بن حكيم البلخي وأهل الكوفة وكان زفر متقنا حافظا

 

زفر بن الھذیل بن قیس انکی کونیت ابو الھذیل تھی یہ کوفی تھے یہ اصحاب ابی حنیفہ میں سے تھے یہ یحییٰ بن سعید الانصاری سے روایت کرتے ہیں اور ان سے شداد بن حکیم البلخی اور اہل کوفہ والے روایت کرتے ہیں اور یہ زفر متقن حافظ تھے

[الثقات ، ابن حبان، برقم: 8015 ]

 

■امام فضل بن دکین (شیخ امام بخاری )

▪︎حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال سمعت أبا نعيم الفضل بن دكين وذكر زفر فقال: كان ثقة مأمونا

 

امام الدوری فرماتے ہیں امام نعیم بن دکین کے سامنے جب زفر کا ذکر کیا گیا تو فرمایا وہ ثقہ مامون تھے

 

■امام یحییٰ بن معین الحنفی

▪︎حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمدالدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول: زفر صاحب الرأي ثقة مامون

امام الدوری فرماتے ہیں : یحییٰ بن معین سے سنا وہ فرماتے : زفر یہ صاحب الرائے (مجتہد) تھے اور ثقہ مامون تھے

[الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم برقم: 2756]

 

■امام الدارقطنی :

▪︎وعن زفر بن الهذيل صاحب أبي حنيفة, فقال ثقة.

 

زفر بن الھذیل صاحب ابی حنیفہ تھے اور ثقہ تھے

[سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه برقم: 175]

 

■امام ذھبی :

 

▪︎زفر بن الهذيل بن قيس بن سلم العنبري أبو الهذيل

الفقيه، المجتهد، الرباني، العلامة، أبو الهذيل بن الهذيل بن قيس بن سلم. قلت: هو من بحور الفقه، وأذكياء الوقت.تفقه بأبي حنيفة، وهو أكبر تلامذته، وكان ممن جمع بين العلم والعمل، وكان يدري الحديث ويتقنه.

 

زفر بن الھذیل بن قیس العنبری ابو الھذیل یہ فقیہ مجتہد ربانی اور علامہ تھےمیں (امام ذھبی )کہتا ہوں وہ سمندر تھے فقہ کے اپنے وقت میں

انہوں نے فقہ سیکھی ابی حنیفہ سے اور یہ انکے بڑے شاگرد تھے ، ان میں عمل اور علم کا مجموعہ تھا یہ حدیث اور فقہ کی اچھی معرفت رکھتے تھے

[سیر اعلام النبلاء برقم: 6]

 

¤امام فضل بن دکین چونکے انکے خاص شاگرد تھے وہ فرماتے ہیں :

 

●امام ابن ابی العوام بیان کرتے ہیں :

▪︎ثنا أبو معمر محمد بن أحمد بن خزيمة البصري قال: ثنا عباس بن محمد بن حاتم قال: سمعت يحيى بن معين يقول: زفر صاحب الرأي ثقة مأمون، سمعت أبا نعيم الفضل بن دكين، وذكر له زفر فقال: كان ثقة مأموناً، وجعل يعظم أمره، وهذه الدار التي فيها الجبان دارهم، قلت: فكيف وقع إلى البصرة؟ قال: في ميراث له فتشبث به البصريون وقالوا: حدثنا، فأقام فيهم.

 

امام ابو معمر محمد بن احمد بن خزیمہ (ثقہ عندہ الطحاوی) وہ فرماتے ہیں عباس الدوری (ثقہ) سے وہ فرماتے ہیں امام یحییٰ بن معین سے :

میں نے ابو نعیم بن دکین سے کو سنا : انکے سامنے امام زفر کا ذکر ہوا تو انہوں نےفرمایا کہ زفر ثقہ بھی ہے اور مامون بھی تھے اور وہ (امام نعیم) انکے کام کی تعظیم کرتے اور پھر فرمایا یہ گھر (اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ) جس میں اندھیرا ہے کہ بندہ ڈر جاتا ہےتو میں(یحییٰ بن معین) نے کہا : یہ بصرہ کیسے آگئے ؟ فرمایا کہ یہ اسکو میراث میں ملا تھا بصری لوگ انکو چپک گئے ان کو پکڑ لیا اور خواہش کرتے رہے کہ ہمیں احادیث بیان کریں تو انہوں (امام زفر ) نے وہیں سکونت اختیار کر لی ( وسند صحیح )

[فضائل و مناقب ابی حنیفہ ابن ابی العوام]

 

تحقیق :اسد الطحاوی

مزید تحاریر کے لیے وزٹ کریں : AsadTahawi.com