*اقرأ لائبریری میں مرکز الثقافة السنیة کے سابق استاذ کی آمد!*

 

*از: محمد سلیم انصاری ادروی*

 

آج بعد نماز مغرب ساڑھے سات بجے اقرأ لائبریری ادری (مئو) میں جانا ہوا۔ لائبریری میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ہمارے قصبہ ادری کے ایک بہترین کاتب اور عالم مولانا ظفر الاسلام مصباحی ادروی حفظہ اللہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اور درمیان میں بیٹھ کر علمی اور تاریخی گفتگو فرما رہے ہیں۔ ان کے تینوں طرف تقریبا نصف درجن نوجوان علما بیٹھ کر مستفیض ہو رہے ہیں۔ سلام عرض کرنے کے بعد میں بھی ایک طرف بیٹھ گیا۔

 

مولانا ظفر الاسلام دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ (مئو) اور دارالعلوم فیض العلوم محمد آباد (مئو) کے علاوہ جامعہ مرکز الثقافة السنیة الاسلامیة کالی کٹ (کیرالا) میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ان سے مرکز اور بانئ مرکز کے تعلق سے ہی کچھ معلومات حاصل کر لی جائے۔

 

چناں چہ میں نے موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی موضوع سے متعلق چند سوالات کر ڈالے۔ جن کا مولانا ظفر الاسلام نے باری باری کرکے جوابات دیے۔ انہوں نے بتایا کہ سنہ ١٩٧٨ء میں محدث اعظم حجاز سید محمد بن علوی مالکی رحمہ اللہ (خلیفہ: مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں بریلوی، قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مہاجر مدنی علیہما الرحمہ) نے اس مرکز کی بنیاد رکھی، موجودہ دور میں اس کے کئی شعبہ جات اور کئی شاخیں ہیں جس میں کئی ہزار طلبا اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 

پھر میں نے بانئ مرکز شیخ ابوبکر حفظہ اللہ کے بارے میں کچھ سوالات کیے، مثلا شیخ نے کہاں سے تعلیم حاصل کی؟ اور شیخ کا مزاج کیسا ہے؟ وغیرہ وغیرہ…….مولانا ظفر الاسلام نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے باقیات الصالحات بنگلور میں تعلیم حاصل کی، جو حنفیوں کا مدرسہ ہے۔ آپ انتہائی مرنجاں مرنج اور ظریفانہ مزاج کے حامل ہیں۔ ہر ایک سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ نہایت ہی سادہ زندگی گزارتے ہیں۔

 

بعد ازاں مولانا ظفر الاسلام نے بات ہی بات میں امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمه کے شاگرد و خلیفہ مولانا شہاب الدین احمد کویا شالیاتی شافعی علیہ الرحمه کا تذکرہ چھیڑ دیا، جو نبیرۂ قطب ویلور علیہ الرحمہ کے اشارے پر فقہ حنفی کی تحصیل کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے تھے۔ بریلی شریف اور کیرالا کے اسی تاریخی رشتے کو تازہ کرنے کے لیے شیخ ابوبکر نے مولانا شاہ الحمید شافعی علیہ الرحمه (متوفیٰ سنہ ٢٠٢١ء) کو بریلی شریف بھیجا۔

 

شاہ الحمید بریلی شریف پہنچ کر ایک مسجد میں نماز پڑھنے لگے، چوں کہ وہ شافعی تھے اور رفع یدین بھی کر رہے تھے، وہاں موجود لوگوں نے سمجھا کہ یہ وہابی ہیں اس لیے انہیں مسجد سے باہر کر دیا۔ بعد میں شاہ الحمید نے بتایا کہ میں سنی ہوں، فقہ شافعی کو فالو کرتا ہوں۔ چوں کہ اسی طرح کا ایک اور واقعہ راقم الحروف کی نظر سے پنج گنج ولایت (ص: ٢٦٢) میں گزر چکا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ دونوں واقعہ ایک ہی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بار کیرالا سے کچھ شافعی المذہب علما تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں ازہری محدث بریلوی علیہ الرحمه سے ملنے کے لیے بریلی آئے، رضا مسجد بریلی میں جب یہ لوگ نماز پڑھنے لگے تو ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں کہ کچھ وہابی آئے ہوئے ہیں، اور تاج الشریعہ سے ملنا چاہتے ہیں۔

 

تاج الشریعہ نے جب اجازت دے دی تو وہ لوگ تاج الشریعہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور حاضر ہوتے ہی عرض کیا، کہ حضور ہم بھی حسام الحرمین پر تصدیق کرتے ہیں، مسلک اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں، لوگ جیسا سمجھ رہے ہیں، ہم قطعی ایسے نہیں، ہم شافعی مسلک کے ذمہ دار علما ہیں۔ اب تو ماحول کا پورا رنگ بدل گیا، ان حضرات کے لیے اعلیٰ عمدہ قسم کا ناشتہ آیا اور اپنائیت کے ماحول میں خیالات علمی کا تبادلہ شروع ہو گیا۔

 

خیر! بریلی شریف اور کیرالا کا رشتہ امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمه کے دور سے ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو نظر بد سے بچائے اور تا ابد قائم و دائم رکھے، آمین۔