وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰىۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِۚ-اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَۚۖ(۳۱)

اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے (ف۷۶) بولے ہم ضرور اس شہر والوں کو ہلاک کریں گے (ف۷۷) بےشک اس کے بسنے والے ستم گار ہیں

(ف76)

ان کے بیٹے اور پوتے حضرت اسحٰق و حضرت یعقوب علیہما السلام کا ۔

(ف77)

اس شہر کا نام سدوم تھا ۔

قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًاؕ-قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا ﱞ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﱪ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۳۲)

کہا (ف۷۸) اس میں تو لوط ہے (ف۷۹) فرشتے بولے ہمیں خوب معلوم ہے جو کچھ اس میں ہے ضرور ہم اُسے (ف۸۰) اور اس کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر اس کی عورت کو وہ رہ جانے والوں میں ہے (ف۸۱)

(ف78)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ۔

(ف79)

اور لوط علیہ السلام تو اللہ کے نبی اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں ۔

(ف80)

یعنی لوط علیہ السلام کو ۔

(ف81)

عذاب میں ۔

وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ-اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۳۳)

اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس (ف۸۲) آئے ان کا آنا اُسے ناگوار ہوا اور اُن کے سبب دل تنگ ہوا (ف۸۳)اور اُنہوں نے کہا نہ ڈرئیے (ف۸۴) اور نہ غم کیجئے (ف۸۵) بےشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر آپ کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہے

(ف82)

خوب صورت مہمانوں کی شکل میں ۔

(ف83)

قوم کے افعال و حرکات اور ان کی نالائقی کا خیال کر کے اس وقت فرشتوں نے ظاہر کیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔

(ف84)

قوم سے ۔

(ف85)

ہمارا کہ قوم کے لوگ ہمارے ساتھ کوئی بے ادبی یا گستاخی کریں ہم فرشتے ہیں ہم لوگوں کو ہلاک کریں گے اور ۔

اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(۳۴)

بےشک ہم اس شہر والوں پر آسمان سے عذاب اُتارنے والے ہیں بدلہ ان کی نافرمانیوں کا

وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۳۵)

اور بےشک ہم نے اس سے روشن نشانی باقی رکھی عقل والوں کے لیے (ف۸۶)

(ف86)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ وہ روشن نشانی قومِ لوط کے ویران مکان ہیں ۔

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۳۶)

مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی اُمید رکھو (ف۸۷) اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو

(ف87)

یعنی روزِ قیامت کی ایسے افعال بجا لا کر جو ثوابِ آخرت کا باعث ہوں ۔

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ٘(۳۷)

تو انہوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنہیں زلزلے نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے (ف۸۸)

(ف88)

مردے بے جان ۔

وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ-وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ(۳۸)

اور عاد اور ثمود کو ہلاک فرمایا اور تمہیں (ف۸۹) ان کی بستیاں معلوم ہوچکی ہیں (ف۹۰) اور شیطان نے اُن کے کوتک(کرتوت) (ف۹۱) ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے اور انہیں راہ سے روکا اور اُنہیں سوجھتا تھا (ف۹۲)

(ف89)

اے اہلِ مکّہ ۔

(ف90)

حجر اور یمن میں جب تم اپنے سفر وں میں وہاں گزرے ہو ۔

(ف91)

کُفر و معاصی ۔

(ف92)

صاحبِ عقل تھے حق و باطل میں تمییز کر سکتے تھے لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا ۔

وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ ﱎ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَۚۖ(۳۹)

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو (ف۹۳) اور بےشک ان کے پاس موسیٰ روشن نشانیاں لے کر آیا تو اُنہوں نے زمین میں تکبر کیا اور وہ ہم سے نکل جانے والے نہ تھے (ف۹۴)

(ف93)

اللہ تعالٰی نے ہلاک فرمایا ۔

(ف94)

کہ ہمارے عذاب سے بچ سکتے ۔

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًاۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاۚ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۰)

تو ان میں ہر ایک کو ہم نے اُس کے گناہ پر پکڑا تو ان میں ہم نے کسی پر پتھراؤ بھیجا (ف۹۵) اور اُن میں کسی کو چنگھاڑ نے آلیا (ف۹۶ ) اور ان میں کسی کو زمین میں دھنسادیا (ف۹۷) اور ان میں کسی کو ڈبو دیا (ف۹۸) اور اللہ کی شان نہ تھی کہ اُن پر ظلم کرے (ف۹۹) ہاں وہ خود ہی (ف۱۰۰) اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے

(ف95)

اور وہ قو مِ لوط تھی جن کو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں سے ہلاک کیا گیا جو تیز ہوا سے ان پر لگتے تھے ۔

(ف96)

یعنی قومِ ثمود کہ ہولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کی گئی ۔

(ف97)

یعنی قارون اور اس کے ساتھیوں کو ۔

(ف98)

جیسے قومِ نوح کو اور فرعون کو اور اس کی قو م کو ۔

(ف99)

وہ کسی کو بغیر گناہ کے عذاب میں گرفتار نہیں کرتا ۔

(ف100)

نافرمانیاں کر کے اور کُفر و طغیان اختیار کر کے ۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِۖۚ-اِتَّخَذَتْ بَیْتًاؕ-وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱)

ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اَور مالک بنالیے ہیں (ف۱۰۱) مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا (ف۱۰۲) اور بےشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر (ف۱۰۳) کیا اچھا ہوتا اگر جانتے (ف۱۰۴)

(ف101)

یعنی بُتوں کو معبود ٹھہرایا ہے ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور واقع میں ان کے عجز و بے اختیاری کی مثال یہ ہے جو آگے ذکر فرمائی جاتی ہے ۔

(ف102)

اپنے رہنے کے لئے نہ اس سے گرمی دور ہو نہ سردی ، نہ گرد و غبار و بارش کسی چیز سے حفاظت ایسے ہی بُت ہیں کہ اپنے پوجاریوں کو نہ دنیا میں نفع پہنچا سکیں نہ آخرت میں کوئی ضرر پہنچا سکیں ۔

(ف103)

ایسے ہی سب دِینوں میں کمزور اور نکمّا دین بُت پرستوں کا دین ہے ۔

فائدہ : حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے دور کرو یہ ناداری کا باعث ہوتے ہیں ۔

(ف104)

کہ ان کا دین اس قدر نکمّا ہے ۔

اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۴۲)

اللہ جانتا ہے جس چیز کی اُس کے سوا پوجا کرتے ہیں(ف۱۰۵) اور وہی عزت و حکمت والا ہے (ف۱۰۶)

(ف105)

کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی ۔

(ف106)

تو عاقل کو کب شایان ہے کہ عزّت و حکمت والے قادرِ مختار کی عبادت چھوڑ کر بے علم بے اختیار پتّھروں کی پوجا کرے ۔

وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳)

اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے (ف۱۰۷)

(ف107)

یعنی ان کے حسن و خوبی اور ان کے نفع اور فائدے اور ان کی حکمت کو علم والے سمجھتے ہیں جیسا کہ اس مثال نے مشرک اور موحِّد کا حال خوب اچھی طرح ظاہر کر دیا اور فرق واضح فرما دیا ۔ قریش کے کُفّار نے طنز کے طور پر کہا تھا کہ اللہ تعالٰی مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے ہنسی بنائی تھی ۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں تمثیل کی حکمت کو نہیں جانتے ۔ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال مقتضائے حکمت ہے تو باطل اور کمزور دین کے ضعف و بطلان کے اظہار کے لئے یہ مثال نہایت ہی نافع ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے عقل و علم عطا فرمایا وہ سمجھتے ہیں ۔

خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۠(۴۴)

اللہ نے آسمان اور زمین حق بنائے بےشک اس میں نشانی ہے (ف۱۰۸) مسلمانوں کے لیے

(ف108)

اس کی قدرت و حکمت اور اس کی توحید و یکتائی پر دلالت کرنے والی ۔