تہبند پھٹے امیر المومنین فی حدیث!! :(

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی

 

●امام ابونعیم اصبھانی اپنی تصنیف حلیہ الاولیاء میں ایک روایت بیان کرتے ہیں :

▪︎حدثنا أبو بكر بن مالك، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، نا أبو الربيع الواسطي قال: سمعت حفص بن غياث، يقول: دخل سفيان الثوري على مجمع التيمي، فإذا في إزار سفيان خرق، قال: فأخذ أربعة دراهم فناولها سفيان فقال: «اشتر إزارا» قال سفيان: لا أحتاج إليها، قال مجمع: «صدقت أنت لا تحتاج، ولكني أحتاج» قال: فأخذها فاشترى بها إزارا، فكان سفيان يقول: كساني أخي مجمع جزاه الله خيرا. وقال سفيان: ليس شيء من عملي أرجو أن لا يشوبه شيء كحبي مجمعا التيمي

 

▪︎امام حفص بن غیاث فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام سفیان الثوریؒ حضرت مجمع تیمی کے پاس گئے ، انکا تہبند پھٹ چکا تھا ، حضرت مجمع تیمی نے چار درہم نکالےے اور انکی طرف بھڑاتے ہوئے کہا :

”آپ ایک تہبند خرید لیجئیے گا” امام سفیان الثوریؒ نے کہا : ”مجھے اسکی حاجت نہیں ہے ۔ تو آپ (مجع) نے فرمایا : سفیان!! آپ سچ فرما رہے ہیں کہ آپکو حاجت نہیں لیکن مجھے حاجت ہے ( کہ آپ کا تہبند پھٹا ہوا نہ ہو ) پھر امام سفیان ثوری نے وہ دراہم لے لیے اور ان سے ایک تہبند خرید لیا ۔ آپ (سفیان) اکثر کہا کرتے تھے ” میرے بھائی مجمع نے مجھے کپڑا پہنایا ہے اللہ انہیں جزائے خیر عطاکرے”

مزید فرماتے ”میرا کوئی عمل حضرت مجمع تیمی کی محبت سے زیادہ خالص نہیں”

(سبحان اللہ )

[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جلد 5 ص 89]

 

●سند کے رجال کا مختصر تعارف!!!

 

■ پہلا راوی : أحمد بن جعفر بن حمدان بن مالك بن شبيب، أبو بكر القطِيعي البغدادي

 

قال أبو عبد الرحمن السلمي: سألت الدارقطني عن أبي بكر القطيعي، فقال: ثقة زاهد قديمٌ، سمعتُ أنه مجاب الدعوة.

وقال البَرْقاني: كان شيخًا صالحًا

[تاریخ الاسلام الذھبی برقم: 262]

 

■دوسرا راوی : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل (متفقہ علیہ ثقہ)

 

■تیسرا راوی : امام احمد بن حنبل (متقن المجتہد امام )

 

■چوتھا راوی : أبو الربيع الأعرج، الواسطي.

 

سمعت أبا عبد الله يقول: أبو الربيع الأعرج، واسطي، وكان حائكًا، وكان رجلاً صالحًا، ليس به بأس

[سؤالاته» (2100) ]

 

■پانچواں راوی : امام حفض بن غیاث

▪︎یہ مشہور ثقہ امام ہیں لیکن انکو آخر میں قلیل اختلاط ہو گیا تھا اور شاید اسکا سبب امام الاعمش ہوں

کیونکہ یہ وہی بیچارے ہیں جنہوں نے امام الاعمش سے ایک حدیث کی سند پوچھی تھی تو انہوں نے انکا سر دیوار میں دے مارا تھا اور کہا تھا کہ لو یہ ہے سند :)

 

¤نتیجہ!!!¤

 

●امام سفیان الثوری جو دنیاوی تنگی کے باجود حدیث رسولﷺ کی برکت سے امیر المومنین فی حدیث بنے اپنے زمانے ٰمیں اور آج کتب حدیث میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جو امام سفیان الثوری کی حدیث کی محتاج نہ ہو ۔۔۔۔

 

●اس لیے امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ؓ اپنے دوست امام سفیان الثوریؓ کے لیے فرمایا کرتے تھے :

▪︎بیشک امام سفیان الثوری اگر ابراہیم النخعی (تابعین) کے زمانے میں ہوتے تو بھی لوگ انکی بیان کردہ احادیث کے محتاج ہوتے (انکے کثرت الحدیث ہونے کے سبب)

 

▪︎اللہ انکی قبر پر لاکھوں کروڑوں رحمتیں نازل کرے

 

دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی