دین کی اعلیٰ تعلیم کیوں نہیں

 

آج کل عوام و خواص کی زبان پر تعلیم کے حوالے سے ایک لفظ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے. جسے دیکھو اپنے بچے کی اعلیٰ دنیوی تعلیم کے قصیدے پڑھ رہا ہے. Higher Education کی صداؤں سے اسکولوں کے ایڈمیشن ہال اور اشتہارات ہی نہیں، گلی کوچوں کے نکڑ اور گھروں کے بند کمرے بھی گونج رہے ہیں. سرمایہ دار دولت کے دم پر اپنے بچے کو ہائی ایجوکیٹڈ دیکھنا چاہتا ہے تو متوسط و غریب طبقہ بھی اپنی جمع پونجی داؤ پر لگا کر اپنی اولاد کو ہائی ایجوکیٹڈ لوگوں کی صف میں کھڑا کرنے پر بضد ہے. پیشہ ور خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان پرائمری کے بعد پیشے سے جڑنے کی جگہ اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھنے لگتا ہے، جو کہ فی نفسہ برا بھی نہیں ہے. فی زمانہ دنیوی تعلیم کے سلسلے میں ہر آنکھ اعلیٰ تعلیم کا خواب دیکھ رہی ہے اور ہر مائنڈ ہائی ایجوکیشن کے نشے میں ڈوبا ہوا ہے. حد تو یہ ہو گئی کہ پرائمری تعلیم حاصل کر کے تجارت کدوں کو آباد کرنے والے اور ہائر سیکنڈری تعلیم کے ذریعے ملکوں کا لٹریسی ریٹ بڑھانے والے افراد کو کوئی پوچھنے والا ہے نہ ہی کوئی سراہنے والا. مُلا ہو، برہمن ہو یا مسٹر، سب باری باری ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں “نسلوں کا روشن مستقبل یعنی” ہر بار جواب آتا ہے “ہائر ایجوکیشن.”

 

لوگ دنیا کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس سے کوئی بھی باشعور شخص نالاں نہیں ہے، المیہ تو یہ ہے کہ لوگ دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر رہے. جتنا دنیوی میدان میں ہائر ایجوکیشن کی طرف بڑھنا مسرور کن ہے اتنا ہی دین کی راہ میں ادنیٰ و اوسط معیار پر اکتفا کر لینا افسوس ناک ہے. ایسا ماحول جہاں کوئی بھی پرائمری لیول پر رضامند نہیں ہوتا اور کسی کو بھی آرڈنری نالج سے متاثر نہیں کیا جا سکتا، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اعلیٰ اعلیٰ کی ایسی جنون آمیز فضا میں بھی ایک شعبہ ہے جہاں لوگ بلکہ مذہبی لوگ بلکہ دھارمک گرو کا درجہ رکھنے والے لوگ اپنی اولاد کی ادنیٰ تعلیم جس کو سیکنڈری تو کجا پرائمری بھی نہیں کہا جا سکتا، پر نہ صرف یہ کہ مہر بسکوت ہیں بلکہ راضی برضا بلکہ فخر زدہ ہیں. دینی تعلیم سے متعلق ایسی غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ عوام کی نظر میں اندر دیکھ کر ٹوٹا پھوٹا قرآن پڑھ لینا ایورج تعلیم ہے اور چند دعاؤں اور سورتوں کا زبانی یاد ہو جانا اعلیٰ تعلیم. خواص کا نقطہ نظر بھی کچھ اس سے مختلف نہیں، ان کے حساب سے اندر دیکھ کر اردو پڑھ لینا دینی تعلیم کی ادنیٰ سطح ہے اور تقریر کرنے لگنا اعلیٰ معیار ہے. عوام کی نظروں میں دینی علوم حاصل کرنے والے افراد کا تصور “دھارمک گرو” کی حیثیت سے زیادہ اور تعلیم یافتہ شخص کے طور پر کم ہے. اگر اِس فکری پسماندگی کی وجوہات پر غور کیا جائے تو سب سے بڑی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ یہ استعماریت کے وضع کردہ تعلیمی ماڈل کے اثرات ہیں، جس کا اسیر بنانے کے لیے روزانہ ہزاروں ڈالر ایڈورٹائز پر خرچ کیے جاتے ہیں.

 

ایک اور بات جس نے دنیوی تعلیم کے میدان میں توازن پیدا کر رکھا ہے وہ ہے “عہدہ بَقدر تعلیم” کا اصول. پرائمری پاس بندہ چپراسی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، میٹرک پاس کو ٹی ٹی جیسی جاب مل جائے تو غنیمت، بی اے ایم اے کرنے پر ہی بندہ بڑے ادارے میں ٹیچر بننے کا اہل سمجھا جاتا ہے، آئی ایس آئی پی ایس کے بعد ہی بڑے سرکاری عہدوں کی راہ کھلتی ہے. رشوت اور جانبداری کا بازار گرم ہونے اور داخلہ بازی و سند فروشی جیسے جرائم کی بھرمار کے باوجود اِسی درجہ بندی کا نتیجہ ہے کہ دنیوی تعلیم میں اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز بھی باقی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ تک پہنچنے کی لگن بھی. اس کے بالمقابل دینی علوم کا گراف دیکھیں تو اب تو عام لوگ دینی علوم میں درجہ بندی کو بھی فراموش کر چکے ہیں. اب عام مسلم سماج میں حافظ بھی “مولِی ساب” ہے، مولوی بھی، عالم بھی، فاضل بھی بلکہ مفتی و محقق بھی “مولی ساب” سے بڑھ کر کچھ نہیں. اور سچ یہ ہے کہ جب محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو چکے تو محمود بننے کی جد و جہد کون کرے گا؟ جب “مولی ساب” نام کا ایک ہی پلیٹ فارم سب کو سمیٹ کر رکھ دیتا ہو تو دین میں ہائر ایجوکیشن حاصل کرنے کے لیے تضییع اوقات کا کیا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ دنیوی تعلیم کے لیے دس، بارہ، پندرہ یا اس سے زیادہ سال نچھاور کرنے کے لیے تیار رہنے والے لوگ دینی تعلیم کے نام پر اپنی زندگی کے ایام میں سے صرف چار پانچ سال کی بھیک کیوں نکالتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علوم کی اعلیٰ سطح تک پہنچ کر ان میں مہارت پیدا کرنا ہماری priority نہیں بلکہ جدید مغربی تعلیمی ماڈل کی طرز پر؛ محض اتنا پڑھ لینا جس سے پیسے کمانے میں مدد مل سکے یہی ہمارا مطمح نظر ہے.(إلا ما شاء اللہ) نتیجہ یہ ہے کہ دین کی ترجمانی کرنے والے محققین؛ کم اور دین کو حصول زر کا ذریعہ سمجھنے والے لوگ؛ زیادہ پیدا ہو رہے ہیں.

 

✍️ پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)

15.05.1443

20.12.2021