تبلیغی جماعت پر پابندی اور بریلوی جماعت کے لیے سبق

از: افتخار الحسن رضوی

چند برس قبل جب ہندوستانی حکومت نے مسلمان محقق اور تقابل ادیان کے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ذات اور ان کی تنظیم پر پابندی لگائی تھی تو میں نے مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اس پابندی کو مخالف مسلک کا نقصان نہ سمجھا جائے بلکہ یہ اجتماعی طور پر پورے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ایک حملہ ہے۔ اس پابندی سے خصوصا ہندوستان اور عموما دنیا بھر میں تقابل ادیان پر ہونے والے کام کو نقصان پہنچا۔ لیکن برا ہو “میڈ ان یوپی” فرقوں کا کہ اس پر خوب جشن منائے گئے اور اسے اپنی فتح اور دوسرے مسلک کا نقصان و شکست بتایا گیا جب کہ حقائق بالکل مختلف تھے۔ فرقہ واریت اور شخصیت پرستی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی نحوست سے انسان کی سوچنے اور غلط و صحیح میں فرق جاننے کی صلاحیت چھنِ جاتی ہے اور ایسی فکر کے مبلغیں کی حمایت بھی ہمارا معاشرہ کرتا ہے، یہ فکر و طریقہ ہمارے معاشرے کا عالمی سطح پر عکاس ہے۔

حال ہی میں جب دو ہفتے قبل سعودی حکومت نے اپنی داخلی سلامتی و ملکی مفادات کی خاطر تبلیغی جماعت پر پابندی لگائی تو فکری و مسلکی تنگی کے شکار طبقوں نے ایک بار پھر شادیاں رچائیں۔ حالانکہ جمعہ کے دن پیش کیے گئے خطبات میں صوفیاٗء کا رد بلیغ بھی موجود تھا جس کی طرف یاروں کی نظر نہیں گئی۔ اس ساری صورت حال میں ہمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔

جوں ہی سعودی حکومت کی طرف سے پابندی کا معاملہ سامنے آیا، دیوبندی علماء اور تبلیغی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے با اثر افراد جن میں جامعہ بنوریہ کراچی، دار العلوم کراچی اور دیگر اداروں کے اکابر جن میں مفتی تقی عثمانی صاحب اور حافظ طاہر اشرفی بھی شامل ہیں، انہوں نے فورا پاکستانی حکومت سے دوٹوک انداز میں بات کی اور نتیجتا پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف المالکی سے سعودی سفارتخانہ اسلام آباد جا کر احتجاج نہیں بلکہ سفارتی انداز میں بات چیت کی۔ سعودی سفیر نے ان تمام مشائخ اور مندوبین کا بھرپور گرم جوشی سے استقبال کیا، ان کی بات توجہ سے نہ صرف سنی بلکہ حد درجہ اطمینان بھی دلایا کہ ان کا پیغا م سعودی حکومت تک من و عن پہنچایا جائے گا اور مسائل حل ہو جائیں گے۔

اسی دوران میرے سفارتی حلقوں میں موجود دوستوں نے مجھے حسبِ سابق ایک بار پھر طعنہ دیا کہ رضوی صاحب دیکھ لیجیے گا، تبلیغی جماعت والے احتجاج نہیں کریں گے، سڑکیں بند نہیں کریں گے، سعودی حکومت کے خلاف جلسہ نہیں کریں گے بلکہ وہ براہ راست سعودی حکومت سے بات کریں گے اور گزشتہ روز ایک انتہائی سینئیر سفارتکار نے تو یہاں تک خبر دی کہ عنقریب تبلیغی جماعت اور دیوبندی علماء کی بات سن لی جائے گی۔

بلاشبہ تبلیغی جماعت کا یہ سفارتی انداز بہت مفید اور لائق تحسین و تقلید ہے لیکن کاش ہمارے بریلوی بھائی بھی اپنے اندر ایسی ہی سفارتی صلاحیت پیدا کر لیں۔ پاکستان میں اتنی بڑی سٹریٹ پاور کسی جماعت کے پاس نہیں ہے جتنی بریلوی تحریک کے پاس ہے لیکن بد قسمتی دیکھیے کہ مدینہ منورہ میں قبرستانوں کے انہدام سے لے کر فرقہ واریت پر مبنی فیصلہ سازی، زلزلہ کے بعد متاثرہ علاقوں میں کثرت سے غیر مقلدین کی مساجد و مدارس کے قیام تک سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا، لیکن کسی بریلوی عالم میں یہ ہمت و صلاحیت پیدا نہ ہوئی کہ وہ سعودی سفارتی عملے سے بات چیت کریں۔

صدر ایردوان کے خلاف ملٹری قبضے کی کوشش ناکام ہوئی تو تمام دیوبندی اکابر کی طرف سے خوشی و مبارک کے پیغامات گئے، اخبارات میں اشتہار چھپے اور ترک میڈیا نے مکمل کوریج دی۔ اسی سال رمضان میں اسطنبول میں افطار ڈنر رکھا گیا جس میں پاکستان کی بڑی مذہبی جماعتوں کے نمائندگان کو دعوت دی گئی۔ پہلے تو ترک حکومت پریشان رہی کی بریلویوں میں سے کس کو دعوت دی جائے، خیر کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک پرانی سیاسی بریلوی مذہبی جماعت کے سربراہ کو بلایا گیا۔ ساری زندگی انہوں نے مسلکی نفرت پھیلا کر سیاست کی تھی لیکن اسطنبول میں افطار کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ صاحب کی اقتدا میں نماز مغرب ادا کر لی۔ یہ ان کی صلاحیت اور اہمیت ہے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ بریلوی عوام اپنے علماء اور زعماء پر زور دیں کہ یہ سیاست و سفارت سیکھیں اور دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے روابط قائم کریں ورنہ نعروں اور شور و غوغا کا یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلنے والا اور ملک کا باثر طبقہ اور نوجوان نسل کبھی بھی بغیر کسی منشور اور عملی اقدامات کے آپ کی حمایت نہیں کرنے والا۔ ہو سکتا ہے آپ کو میری یہ باتیں پریشان کریں لیکن میری ان تمام باتوں کی تائید چند دن قبل خیبر پختونخواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی کر رہے ہیں۔ نعرے، شور اور جلسے اصل حل نہیں بلکہ بات چیت کرنے، مسائل سمجھنے اور آپ کی رابطہ کاری کی صلاحیت اصل چیز ہے۔ تبلیغی جماعت پر پابندی آپ کی فتح نہیں بلکہ اس کے اچھے یا برے اثرات سب پر مرتب ہوں گے۔

کتبہ: افتخار الحسن رضوی

۲۰ جمادی الاول ۱۴۴۳بمطابق ۲۴ دسمبر ۲۰۲۱