قائد اعظمؒ اور عشق رسول صلى اللّه عليه وآله وسلم
قائد اعظمؒ اور عشق رسول صلى اللّه عليه وآله وسلم
سید صابر بخاری
بانی ء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے ۔ محبوب کائنات ، فخر موجودات ، حضرت محمد مصطفی صلى اللّه عليه وآله وسلم سے ان کی محبت و عقیدت اظہر من الشمس ہے۔ قدرت نے ان کو شعور بالکل مذہبی اور دینی دیا تھا۔ کراچی میں “سندھ مدرسۃ الاسلام”میں دوران تعلیم ان کو دین اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں بنیادی باتوں کی تعلیم دی جا چکی تھی۔ اسی لئے آپکے دل میں حب رسول ﷺ ہمیشہ کیلئے نقش ہو کر رہ گئی۔ قائداعظمؒ تقریباًسولہ برس کے تھے کہ جب لندن میں بیرسٹری کی خاطر تشریف لے گئے اور لکنز ان میں آپنے داخلہ صرف اس لئے لیا تھا کہ اس کے دروازے پر ہمارے عظیم پیغمبر حضور محمد مصطفی ﷺ کا اسم گرامی دنیا کے عظیم قانون سازوں میں سر فہرست لکھا تھا۔ ایک گمنام عاشق رسول ﷺ لکھتے ہیں “جب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر برطانیہ گئے تو لندن میں قانون کی چاروں مشہور درس گاہوں کو دیکھا، ان میں سے ایک درس گاہ لکنز ان میں ایک بڑا بورڈ لگا ہواہے جس پر کچھ نام لکھے ہوئے ہیں۔اپنے گائیڈ سے پوچھا یہ کن کے نام ہیں؟ انہوں نے بتایا دُنیا کی بڑی بڑی شخصیات کے نام ہیں جنہوں نے دنیا کو اور نوع انسانی کو قانون دیا جناح صاحب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ سب سے اول حضور نبی کریم ﷺ کا نام لکھا ہوا تھا کیونکہ شریعت کا قانون انہوں ﷺ نے رائج فرمایا اور یہ قانون اُنہوں ﷺ نے ایسارائج کیا کہ قیامت تک قائم ودائم رہے گا.
جناح صاحب نے سر فہرست اپنے محبوب ﷺ کا نام پڑھا تو فیصلہ کر لیا کہ میں صرف اسی درس گاہ میں قانون کا علم حاصل کروں گا بس یہ تھا عشق نبی ﷺ کا پہلا تیر جو جناح ؒ کے نرم ونازک دل میں پیوست ہو گیا اور وہ اسی دن سے عزم کئے ہوئے تھے کہ میں حضرت محمد ﷺ کے دین کی خدمت کروں گا اور ان ﷺ کی امت کو علیٰحدہ مملکت دلاؤں گا اور عشق محمدی ﷺ کی مالا گلے میں ڈالوں گا۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نہ صرف محافل میلاد النبی ﷺ میں شرکت فرماتے بلکہ محبت وعقیدت میں ڈوب کربارگاہ رسالت مآب ﷺ میں اپنی عقیدت کے پھول بھی نچھاور کرتے تھے۔ نواب بہادر یار جنگ مرحوم 1934ء میں عید میلاد النبی ﷺ کے ایک جلسہ میں قائداعظمؒ سے ملے، نواب بہادر یار جنگ بہت بڑے خطیب تھے اور ان کی خصوصیت یہی تھی کہ وہ عید میلاد النبی ﷺ کے جلسوں میں خطاب کیا کرتے تھے ۔ قائداعظمؒ سے مل کر اتنے متاثر ہوئے کہ تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ کے دست راست ثابت ہوئے ایسے ہی ایک جلسہ میں نواب بہادر یار جنگ قائد اعظمؒ کی تقریر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“خطبہ صدارت ختم ہوا اور تکبیر کے نعروں میں محمد مصطفی ﷺ کے نام مبارک سے نسبت رکھنے والا عقل ودل کے جناحین پر خود بھی عرش کی سیر کرنے لگا اور اپنے سامعین کو بھی فرش سے بلند کرنے لگا۔ تقریر مختصر تھی جس کے ابتدائی جملے میرے لئے سند تھے اور آخری حصہ قانون محمدی ﷺ کا دنیا کے دیگر مشہور قوانین خصوصاً”رومن لاء “سے تقابلی معالعہ تھا، موجودہ قوانین کا ایک عالم متجّر جس کی زندگی “رومن لا”کی زیارت کو اپنی آغوش میں پرورش کرتے ہوئے گزری جب قانون محمدی ﷺ کے گوشے کھولنے لگا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیم مغرب کے شیدائیوں نے حسن محمد ﷺ کے کیسے کیسے جلوے دیکھے ہوں گے “
قیام پاکستان کے بعد جنوری 1948ء میں پہلی عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناح ؒ حضور سرکار ِ کائنات ﷺ سے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہاریوں کرتے ہیں
“آج ہم لوگ یہاں ایک حقیر اجتماع کی صورت میں اس عظیم ترین شخصیت ﷺ کو خراج عقیدت ادا کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں جس ﷺ کی تقدیس نہ صرف یہ کہ کروڑوں دلوں میں موجزن ہے بلکہ جس ﷺ کے سامنے دنیا کی تمام بڑی بڑی شخصیتوں کا سر احترام واکرام بھی خم ہے میں ایک عاجز ، انتہائی خاکسار بندہ نا چیز اتنی عظیم ترین ہستیوں سے بھی عظیم ہستی ﷺ کو بھلا کیا اور کس طرح نذرانہ عقیدت پیش کر سکتا ہوں حضور اکرم ﷺ عظیم مصلح تھے، عظٰیم معلم تھے، عظیم ترین واضح قانون تھے ، عظیم مدبر تھے ، عظیم فرمانروا تھے، جنہوں صلى اللّه عليه وآله وسلم نے بہترین حکومت قائم کر کے دکھائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ہم جب اسلام کی گفتگو کرتے ہیں تو وہ اس کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام صرف چند مناسک اور روایات اور روحانی تعلیمات ہی کا مجموعہ نہیں ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کو مرتب و منظم کرتا ہے اور اس کے طرز عمل کو درست رکھتا ہے حتٰی کہ سیاست اور معاشیات میں بھی وہی رہنمائی کرتاہے ۔ یہ ضابطہ حیات، عزت واحترام، دیانت ،حسن عمل اور عدل وانصاف کے بلند ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ وحدت ربانی اور مساوات انسانی ، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے نہایت اہم اصول ہیں ۔ اسلام میں آدمی میں کوئی تفریق نہیں ہے ۔ مساوات ، حریت اور اخوت ، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں۔
“حضور رسولِ مقبول ﷺ کی زندگی انتہائی سادہ تھی آپ ﷺ نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ ﷺ کے قدم چومے ، تجارت سے لیکر حکمرانی اور فرمانروائی تک ہر شعبہ حیات میں آپ ﷺ مکمل طور پر کامیاب رہے ، حضور رسول اکرم ﷺ پوری دنیا کی عظیم ترین ہستی ہیں”۔
17اگست 1944ء کو عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کے شعبہ اردو کے لیکچرار محمد اعظم نے قائداعظمؒ کے نام ایک خط لکھا کہ”میں نے تھامس کارلائل کی کتاب “ہیروز اینڈ ہیروورشپ” کے دوسرے باب کا اردو ترجمہ کیا تھا جس کا پہلا ایڈیشن طبع ہوکر ختم ہو چکا ہے اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو رہاہے، میری دلی تمنا ہے کہ دوسرے ایڈیشن کا پیش لفظ آپ تحریر فرمادیں “چنانچہ قائداعظمؒ نے “پیش لفظ”کے طور پر درج ذیل سطور تحریر کر دیں “میرے لئے یہ بات واقعتاً”باعث مسرت ہے کہ آپ تھامس کارلائل کی کتاب ہیروز اینڈ ہیروورشپ کے اردو ترجمے کا دوسرا ایڈیشن شائع کر رہے ہیں تھامس کارلائل کی دیگر کتابوں کی طرح اس کتاب کو بھی میں نے انگلستان میں اپنے زمانہ طالب علمی میں انگریزی میں پڑھا اور جب سے ہی میں اس Sage of Chalseaکا بے حد مداح اور معترف ہوں۔ اس (تھامس )کارلائل نے ہمارے عظیم پیغمبر ﷺ کی حیات طیبہ ،کردار اورسوانح کی غیر جانبدارانہ تصویر کشی کر کے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی بہت بڑی خدمت کی ہے ۔ اس کے اردو ترجمے کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کے سلسلے میں آپ کی کوششیں قابل قدر ہیں اور آپ کی کامیابی کا متمنی ہوں “یہ سطور قائد اعظم ؒ کی سرکار دوعالم ﷺ سے ازحد محبت وعقیدت اور نہایت ہی والہانہ وابستگی کا زندہ ثبوت ہے۔
قائداعظمؒ کے ذاتی ذخیرہ کتب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ قانون ، نفسیات ، شاعری ، تہذیب وتمدن کے علاوہ آپ کے ذخیرہ کتب میں قرآن حکیم کے تراجم، کتب تاریخ اور سیرت رسول مقبول ﷺ پر بھی متعدد قابل ذکر کتابیں موجود تھیں۔ ان میں سے بعض کتب پر قائداعظمؒ نے دوران مطالعہ حواشی بھی تحریر کئے ہیں اور بیشتر مقامات پر سطور کو نشان زدہ بھی کیا ہے۔
قائداعظمؒ نے تاریخ اسلام اور سیرت رسول مقبول ﷺ کا انتہائی انہماک کے ساتھ تجزیاتی مطالعہ کیا تھا ۔ جیسا کہ نواب بہادر یار جنگ سے منسوب ایک روایت سے ظاہر ہے ۔
ایک مرتبہ وہ قائداعظمؒ سے ملاقات کیلئے بمبئی گئے تو ان کی قائداعظمؒ سے مسلمانان ہند کے حال اور مستقبل پر گفتگو ہوئی۔ اس دوران ایک مرحلہ پر قائداعظمؒ نے رسول کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلو بیان کرتے ہوئے کہا کہ:
“بہاردر یار ! آپ جانتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے اولین ایام یعنی دور رسالت مآب ﷺ کے دو واضح حصے ہیں ایک مکی دور اور دوسرا مدنی دور ، مکی دور تنظیم وتربیت کا دور تھا، مدنی دور دفاع ملک وملت اور جہاد کا دور تھا ، میں اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوستان میں تنظیمی دور کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہو سکتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ مسلمانان ہند کو منظم کر لوں گا مگر میں اپنے آپ کو سپہ سالاری اور جنگ آزمائی کے قابل نہیں سمجھتا ، نہ معلوم اس ملت کو جہاد کی قیادت کرنے والا کوئی مرد میدان میسرآئے گا یا نہیں “
پروفیسر حمید احمد خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
“ایک واقعہ میرے مشاہدہ میں اس وقت آیا جب 1946ء میں عید الا ضحی کی تقریب پر دہلی کے مسلمانوں کے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے ایک عجیب ونکتہ ارشاد فرمایا یہ ان دنوں کی بات ہے جب بہار میں ہزارہا مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سفاکی سے قتل کر دئیے گئے تھے۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ “لوگ مجھے بار بار کہتے ہیں ہم صرف آپ کے ایک اشارے کے منتظر ہیں پھر دیکھئے کہ کس طرح سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ آپ ہمارے جرنیل ہیں، ہمیں ایک دفعہ حکم دیجئے کہ ہم آگے بڑھیں”
اس کے بعد قائداعظمؒ نے جو کچھ فرمایا وہ میرے حافظے پر آج تک نقش ہے کہنے لگے
“میں کس سوچ سے آگے بڑھنے کا حکم دوں؟ کیا ان لوگوں کو جو ابھی تک بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے ہیں، جنہیں ابھی تنظیم کی کئی منزلیں طے کرنی ہیں ؟” اس کے بعد آواز بلند کی اور فرمایا “اگر قائداعظمؒ اس حالت میں لوگوں کو آگے بڑھنے کی دعوت دے تو وہ جرنیل نہیں بلکہ مجرم ہوگا”
یہ انداز فکر اس امر کا بین ثبوت ہے کہ قائداعظمؒ نے تاریخ اسلام اور سیرت ﷺ کا کتنا عمیق اور شعوری مطالعہ کیا تھا اور آپ ملت اسلامیہ سے کس قدر مخلص تھے۔
قائداعظمؒ کو جب اور جہاں موقع ملتا ،وہ اسلام کی حقانیت اور تعلیمات نبوی ﷺ کو بڑے سلیس اور سادہ الفاظ میں بیان فرما دیا کر تے تھے ۔
قائداعظمؒ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے رہے بلکہ آپ نے اپنی اکثر زندگی انگلستان میں گزاری جہاں ہر قسم کی آلائشیں موجود تھیں لیکن ایک سچے غلام رسول صلى اللّه عليه وآله وسلم کی طرح رہے آپ اسوه رسول کریم صلى اللّه عليه وآله وسلم پر چلتے ہوئے کبھی جھوٹ ، فریب یا منکرات میں نہ پڑے۔ آپ کی راست بازی اور دیانتداری کو آپ کے بدترین دشمنوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ روزنامہ “تیج”دہلی 15ستمبر 1948ء کوآپ کی وفات پر لکھا “مسٹر جناحؒ کی عظیم شخصیت کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ ارادے کے پکے اور قول کے سچے تھے اور دوسرے فریق کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں بڑے سمجھدار تھے، اس لحاظ سے مسٹر جناح ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے “ہندوستان ٹائمز” (بھارت) نے یوں اعتراف کیا”انکے سیاسی مخالفین بھی یہ تسلیم کئے بنا نہیں رہ سکتے کہ مسٹر جناح ؒ اپنے ارادے کے پکے اور خلوص نیت کے مالک تھے، ممکن ہے کہ تاریخ ان کی “فرقہ پرستی”کی بنا پر انہیں نشانہ تنقید بنائے لیکن تاریخ انہیں فراموش ہرگز نہیں کر سکتی کیونکہ انہوں نے تاریخ بنائی ہے “۔
“ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کی خوبیوں کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ، وہ اپنے اندر قلب سلیم رکھتے تھے، انہوں نے اپنے دشمن کے مقابلے میں کبھی اوچھا ہتھیار استعمال نہیں کیا “ْ۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے عشاق رسول ﷺ کی طرح اپنا سب کچھ ملک وقوم پر قربان کردیا تھا ۔۔۔پیر ڈاکٹر سید محمد مظاہر اشرف الاشرفی الجیلانی اپنی یادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں
“قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کو سب کچھ دیا، اپنی تمام جائیداد قوم کے نام وقف کر گئے ، زندگی میں گورنر جنرلی میں صرف ایک روپیہ تنخواہ وصول کی ، تمام خرچ اپنی جیب سے کرتے رہے، علاج معالجہ پر بھی اپنی جیب سے خرچ کیا، ان کے بھتیجے بہن سب ہی تھے لیکن وہ سب کچھ قوم کو دے گئے “
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نہایت خشوع وخضوع سے نماز ادا کرتے تھے۔ وہ اکثر خلوت میں بھی احکم الحاکمین جل شانہ کے دربار میں سر بسجدہ آہ و زاری کرتے دیکھے گئے ۔ مولوی شبیر علی اپنی روئیداد میں لکھتے ہیں
“میرے ایک معتبر دوست نے مجھ سے بیان کیا کہ ان سے مولانا حسرت موہانی صاحب نے بیان کیاکہ میں ایک روز جناح ؒصاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح ایک نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم سے میں نے اطلاع کرنے کو کہا ، ملازم نے کہا اس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیں ، آپ تشریف رکھیں تھوڑی دیر میں جناح ؒصاحب خود تشریف لائیں گے چونکہ مجھے نہایت ضروری کام تھا اور میں اس کو جلد سے جلد جناح صاحب سے کہنا چاہتاتھا اس لئے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرہ میں چلا گیا ، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں، پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو برابر کمرہ سے مجھے کسی کے بہت ہی بلک بلک کر رونے اور کچھ کہنے کی آواز آگئی، آواز چونکہ جناح صاحب کی تھی اس لئے گھبرایا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناح صاحب سجدہ میں پڑے ہیں اور بہت ہی بے قراری کے ساتھ کچھ مانگ رہے ہیں، میں دبے پائوں وہیں سے واپس آگیا اور اب تو بھائی جب میں جاتاہوں اور ملازم کہتا ہے کہ اندر ہیں تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سجدہ میں پڑے ہوئے دعا کر رہے ہیں، میرے تصور میں ہر وقت وہی منظر اور وہی آواز رہتی ہے”
مولانا سیف الاسلام بھی اپنی چشم دیدی رپورٹ میں اسی قسم کا واقعہ یوں لکھتے ہیں
“قائد اعظمؒ رات کے دو بجے اتھ کر نماز پڑھتے ہیں اور بہت دیر تک سجدے میں روتے ہیں اور بہت گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں”
قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیتوں پر غور و فکر کرنا اور ان پر عمل کرنا ایک سچے اور پکے عاشق رسول ْﷺ کی علامت ہے۔ قائداعظمؒ بھی نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے بلکہ اس کی ایک ایک آیت شریف پر غوروفکر بھی کرتے تھے۔ بادشاہی مسجد لاہور کے سابق خطیب مولانا غلام مرشد ایک ذاتی واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں
“ان کے سامنے میز پر قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا نسخہ رکھا تھا ، اسے ہاتھ میں لے کر فرمایا “میرا ایمان ہے کہ اس کتاب عظیم میں دنیا اور آخرت کی زندگیوں کے متعلق مکمل ضابطے اور آئین موجود ہیں ۔ تمدنی ، معاشی اور اخلاقی ، انمٹ اور دائمی قواعد موجود ہیں”
عبدالرشید بٹلر کی زبانی ایک ایمان افروز واقعہ سنئے
“قائد اعظمؒ گورنر ہاؤس پشاور میں آئے تو رات دو بجے میں نے انہیں کافی پیش کی ۔ اس وقت سردار عبدالرب نشتر بابائے قوم سے ملاقات کیلئے گورنر ہاؤس میں موجود تھے وہ ملاقات کر کے کوئی اڑھائی بجے کے لگ بھگ چلے گئے کہ سکیورٹی والوں نے مجھے طلب کر لیا کیونکہ قائد اعظمؒ کے کمرے میں اس شب جانے والا آخری سرکاری اہلکار میں تھا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس وقت کہیں کوئی شخص تو نظر نہیں آیا کیونکہ جس کمرے میں قائد اعظمؒ ٹھہرے تھے اس سے ٹھک ٹھک کی آوازیں آرہی تھیں یہ آواز ایک ردھم سے آتی اور پھر وقفہ آجاتا ، وقفے کے بعد دوبارہ اس ردھم سے یہ آواز آتی چونکہ سرحد میں(خان عبدالغفار خان، سرحدی گاندھی کی جماعت کے)سرخ پوشوں کا زور تھا سکیورٹی والوں کو خدشہ ہوا کہ قائداعظم پر کوئی حملہ نہ کیا جا رہا ہو۔ ان کے دروازے پر دستک دینے کی کسی کو جرأت نہ تھی، چنانچہ مجھے ایک روشندان میں سے جھانک کر قائد اعظمؒ کے بارے میں معلوم کرنے کا فرض سونپا گیا ، میں نے جونہی روشندان سے اندر جھانکا تو دیکھا قائد اعظمؒ فرش پر چل رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ یہ بات میرے لئے تشویش کا باعث بنی اور میں اس کی وجہ معلوم کرنے کیلئے روشندان سے اندر جھانکتا رہا، لکڑی کے فرش پر چلنے کی وجہ سے قائداعظمؒ کے جوتوں کی آواز ٹھک ٹھک پیدا کر رہی تھی اور جب آواز رک جاتی تو وہ کمرے میں موجود انگیٹھی پر اپنی دونوں گہنیاں رکھ کر کچھ پڑھتے اور پھر ٹہل ٹہل کر اس پر غور کرتے اور روتے ، میں نے یہ بات سکیورٹی والوں کو بتا دی جنہوں نے بتایا کہ بابائے قوم کے کمرے میں انگریزی زبان کے ترجمہ والا قرآن مجید کا نسخہ رکھا ہوا ہے اس پر میں سمجھ گیا کہ قائداعظمؒ ایک یا دو آیات شریف پڑھ کر ان کا ترجمہ پڑھنے کے بعد کمرے میں گھوم گھوم کر ان پر غور کرتے اور معافی ومطالب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی روانی کا موجب ہیں”۔
اس حقیقت کا اظہار قائداعظمؒ نے رانانصر اللہ خان سے یوں کیا:
“میں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کئی بار پڑھا ہے، مجھے اس کی بعض سورتوں سے بہت تقویت ملتی ہے مثلاًوہ چھوٹی سی صورت (الم ترکیف فعل ربک)ہے جس میں ابابیل کا تذکرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے جس طرح کفار کے بڑے لشکر کو ابابیلوں کے ذریعے شکست دی اسی طرح ہم لوگوں کے ذریعے انشاء اللہ کفار کی قوتوں کو شکست ہوگی”اس واقعہ کے راوی رانا نصراللہ خان کہتے ہیں کہ “قائداعظمؒ سورۃ الم ترکیف (سورہ فیل)بہت ذوق وشوق سے سنتے تھے اور اپنی بات چیت اور تقریروں میں اکثر انشاء اللہ اور” اللہ کو اگر منظور ہوا” جیسے فقرے استعمال کرتے تھے۔
قائداعظمؒ نے اکثر اپنی تقاریر میں اپنے پیارے محبوب ﷺ کی پیاری کتاب قرآن کریم کے حوالے دئیے ہیں مثلاً1943ء میں کراچی مسلم لیگ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
“وہ کونسارشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس اُمت کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ، وہ رشتہ وہ چٹان ، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے”۔
اسی طرح مسلمان قوم کو اپنے پیامِ عید 1945ء میں فرمایا:
“جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے، مذہبی سماجی ، شہری ،کاروباری ، فوجی ، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطہ حیات جو مذہبی تقریبات سے لیکر روز مرہ زندگی کے معاملات تک ،روح کی نجات سے لیکر جسم کی صحت تک تمام افراد سے لیکر ایک فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لیکر جرم تک، اس دنیا میں جزاوسزا سے لیکر اگلے جہاں کی سزا اور جزا تک کی حد بندی کرتا ہے۔
عشرت رحمانی لکھتے ہیں
برادرم مولانا حامد علی خان کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ شیخ عبدالقادر مرحوم سے ذکر کیا تھا کہ بعض عرب علماء نے کہا ہے کہ قائداعظم ؒ کا اصل پیغام سیاسی نہیں اخلاقی اور روحانی ہے، اس پر شیخ صاحب نے جواب دیا یہ بالکل درست ہے اور رفتہ رفتہ یہ حقیقت ظاہر ہوتی جائے گی۔
قائداعظمؒ کے اقوال ، بیانات ، اور تقریروں پر بغور نظر ڈالنے کے بعد شیخ صاحب اور عرب علما کے خیالات کی تائید ہوتی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی دلی تمنا تھی کہ کسی نہ کسی طرح حج کی سعادت حاصل ہو اور دیار رسول ﷺ پر حاضری کی سعادت نصیب ہو۔ ایک دفعہ آپ نے زیارت حرمین شریفین کا عز م بھی کر لیا تھا۔ اس مبارک ارادے پر پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ نے آپ کو مبارک دیتے ہوئے یوں راہنمائی فرمائی۔
گذشتہ ہفتے میں ایک پیغام عزم حج کی مبارکبادکا بھیج چکا ہوں ، اب دوسری مرتبہ آپ کو مسلم لیگ کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اب آپ کا فرض ہے کہ ان ہزارہا اشغال کو چھوڑ کر اپنے وعدے کے مطابق اس بارگاہ الٰہی میں اور دربار مبارک حضرت رسول اللہ ﷺ پر حاضر ہو کر اس کا شکریہ ادا کریں اور فقیر کے پیغام کو معمولی نہ سمجھیں ۔ عید الفطر کے بعد ہوائی جہاز میں سوار ہو کر کراچی سے دوسرے دن مکہ معظمہ پہنچ جائیں اور پانچ دن مناسک حج ادا کر کے دو تین گھٹنے میں مدینہ طیبہ حاضر ہو جائیں وہاں ہفتہ عشرہ قیام فرما کر تیسرے ہفتے کراچی واپس پہنچ جائیں۔
اس خط کے جواب میں قائداعظمؒ نے تحریر کیا
” 17جولائی کے خط کا بہت بہت شکریہ ، آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں تیزی کے ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کی بنا پر میرے لیے اس وقت ہندوستان سے دور ہونا ممکن نہیں ہے” ۔
چنانچہ مسلمانان برصغیر کے پیچیدہ مسائل کی وجہ سے آپ فریضہ حج ادا نہ کر سکے ،البتہ قیام پاکستان کے بعد غالباً1986ء میں قائد اعظمؒ کے ایک عقیدت مند نے آپ کی بجائے “حج بدل”ادا کر کے آپ کی دلی خواہش کی تکمیل کر دی۔
1943ء میں کسی بدبخت نے قائداعظم ؒ پر حملہ کر کے آپ کو زخمی کر دیا۔ اس پر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ نے بخشی صاحب کو ایک خط اور بہت سے تحائف دے کر جناح صاحب کے پاس بھیجا کہ “میری طرف سے مزاج پرسی کر کے آؤ”
امیر ملت ، پیر سید جماعت عالی شاہ ؒ نے اپنے خط میں قائداعظمؒ کی یوں حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
“اب جو یہ حملہ آپ پر ہوا ہے ، آپ کی کامیابی کیلئے نیک فال ہے، آپ کو میں مبارکبار دیتا ہوں کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ آپ کو حصول مقصد میں خواہ کتنی بھی دشواریوں کا سامنا ہو آپ بالکل پرواہ نہ کریں اور پیچھے نہ ہٹیں جس شخص کو اللہ تعالیٰ کامیاب فرمانا چاہتا ہے اس کے دشمن پیدا کردیتا ہے ، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دشمنوں کو ذلیل وخوار کرے”قائداعظمؒ کا جواب ملاحظہ کیجئے
“جب آپ جیسے بزرگوں کی دعا میرے شامل حال ہے تو میں اپنے نیک مقصد میں ابھی سے کامیاب ہوں اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میری راہ میں کتنی ہی تکلیفیں کیوں نہ آئیں میں اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ آپ نے قرآن شریف اس لیے عنایت فرمایا ہے کہ میں مسلمانوں کا لیڈر ہوں جب تک قرآن کریم اور دین کا علم نہ ہو کیا لیڈری (راہبری)کر سکتاہوں۔ جائے نماز آپ نے اس لئے عطا کیا ہے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں مانتا تو مخلوق میرا حکم کیوں مانے گی۔ تسبیح آپ نے اس لئے ارسال کی ہے کہ میں اس پر درود شریف پڑھا کروں ، جو شخص اپنے پیغمبر ﷺ پر اللہ کی رحمت طلب نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ رحمت کیسے نازل کر سکتا ہے ، میں اس اشارے کی تعمیل کروں گا۔”
ایک گمنام عاشق رسول ﷺ لکھتے ہیں
“حقیقی راز جس وجہ سے درود شریف پڑھتے ، وہ تھا پاکستان حاصل کرنے کا جو ناممکن کام ممکن کر دکھایا ، اکثر اوقات “قائداعظم ؒ فرماتے تھے کہ “جب ایک مسلمان اپنے نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس بندے پر کیسے رحمت نازل کر سکتا ہے”
اپنی دن رات مشغول زندگی کے معمول میں سے روزانہ وقت نکال کر درود شریف کثرت سے پڑھتے رہتے تھے۔ انکا خیال تھا کہ اس کے بغیر وہ یہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے “۔
مولانا عبدالغفور عباسی مدنی جن کے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان اور ہندوستان میں مرید ہیں اور جو ساری زندگی مدینہ میں محلہ درویشاں میں گزار کر جنت البقیع میں مدفون ہوئے ایک مرتبہ حج کے دنوں میں انہوں نے فرمایا کہ
“میں نے خود خواب میں دیکھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ مدینہ منور ہ آئے ہوئے ہیں ، میرے دل میں آیا کہ میں ان کی دعوت کروں کیونکہ وہ مسلمانوں کے رہبر ہیں” غالباًیہ بھی درود شریف کی برکت تھی کہ ایسے باکمال بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح مدینہ منورہ آئے ہوئے ہیں اوروہ ان کی دعوت طعام کر رہے ہیں۔
ایک سچا عاشق رسول ﷺ موت سے کبھی نہیں ڈرتا بلکہ اسے ہنسی خوشی قبول کر لیتا ہے، قائداعظم محمد علی جناح ؒبھی موت سے نہ ڈرے بلکہ مرد مومن کی طرح مطمئن رہے۔