*کرسمس پہ مبارکباد دینا کیسا؟*

 

(فتویٰ : مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن مدظلہ)

تلخیص : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

 

بعض علماء کرسمس پر مسیحی برادری کو مبارکباد دینے کو بلا تفصیل حرام یا کفر و شرک قرار دیتے ہیں. ایسا فتویٰ مدارات کے اسلامی اصول اور دینی حکمت کے خلاف ہے.

Happy Christmas

کے معنی ہیں: ’’عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘‘۔اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے.

کیونکہ پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ آپ مخلوق ہیں اور اللہ کے بندے ہیں،اس سے آپ کے اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہوجاتی ہے۔

احادیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کی خوشی اور تعظیم والے دن دس محرم(نو محرم کو ساتھ ملا کر) کو روزہ رکھا اور صحابہ کر بھی رکھنے کی. تاکید کی. یہودی اس دن کی تعظیم اس لیےکرتے تھے کہ انہیں اس دن فرعون سے نجات حاصل ہوئی تھی. حضور نے فرمایا کہ ہم اس خوشی کے زیادہ حق دار ہیں.

معلوم ہوا کہ جو کام اپنی اصل کے اعتبار سے پسندیدہ ہو، اُسے محض اہلِ کتاب کی مشابہت کی وجہ سے ترک کرنا لازم نہیں ، بلکہ ایسی تدبیر کی جائے کہ وہ پسندیدہ عمل بھی ادا ہوجائے اور مشابہت سے بھی بچ جائیں۔

قرآن حکیم میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے دن کو مبارک کہا گیا ہے :

’’اور مجھ(عیسی) پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جائوں گا، (مریم:33)‘‘۔

لہذا فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔

پس اگر ایک خالص عقیدہ توحید رکھنے والا مسلمان اہنے عقیدے پر مکمّل قائم رہتے ہوئے محض مدارات کی وجہ سے کسی مسیحی کو مبارکباد دیتا ہے تو اس کی رخصت دی جا سکتی ہے.

لیکن ان کی عبادت گاہوں میں جا کر ان کی مذہبی رسوم میں شرکت کرنا یا ان کی طرح صلیب لٹکانا یا ان کی طرح کوئی کفریہ و شرکیہ عقیدہ رکھنا یہ سب حرام ہی ہے.

 

نوٹ: بلکہ اگر سیدنا عیسی علیہ السلام کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام کیا جائے تو یہ برکت ہی برکت ہے.