جی ایم سید کی فکر سے متاثر ایک سیکولر نوجوان کی آپ بیتی

عنوان : ماہئ بےآب (بِنْ پانی کے مچھلی)

 

رات کا تیسرا پہر تھا ۔تاروں کی جھرمٹ میں رات نہایت ہی حسین لگ رہی تھی ۔فطرتی حسن کے اِس دلفریب منظر سے محظوظ ہونے کےلئے میں بھی باغیچے میں لگے کرسی پر بیٹھ گیا ۔سردیوں کی یخبستہ راتوں میں جب کبھی تنہائی میں کھلے آسمان تلے بیٹھتا تو کافی کی گرماگرم کپ بھی میرے ہاتھ ہوتی تھی ۔گرم گرم کافی کی چسکیاں بھرتے ہوئے مشہور مصنف اوشو (گرور جنیش) کی کتاب “صحرا کا متلاشی “کے مباحث کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔۔

(ضروری وضاحت: “صوفی ازم پر مباحثہ پر مشتمل یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ایک سلیم الفطرت مسلمان کو ایمان کی وادیوں سے اجنبی بنانے کے متعلق کافی ہے ۔)

۔

مُلائیت سے میں سخت نالاں ہوچکاتھا ۔عملی طور پر مجھے کسی مذھب سے دلچسپی اور لگاؤ نہیں رہی تھی البتہ میں خود کو کلمہ گو مسلمان ضرور کہتا تھا اور مجھے پسند بھی تھا کہ مُلّا لوگ بھی مجھے مسلمان سمجھیں ۔مختلف رائیٹرز کو پڑھتے ہوئے میرے افکار وخیالات میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے تھے ۔آخری نظر جس پر ٹِک گئ جسے میں نے اپنا گُرو مانا وہ تھا جی ایم سید یعنی مشہور قومپرست سندھی سپوت سائیں غلام مرتضی سیّد المعروف جی ایم سیّد ۔۔۔۔۔

۔

سائیں اپنی مشہورِ زمانہ کتاب “جیسا میں نے دیکھا ” میں لکھتے ہیں! کسی عقیدہ یا نظرئیے کی شریعت یا دنیاوی ضابطوں کو حرفِ آخر قرار دینا دینِ فطرت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے مجھے ہر مذہب میں حق کا پَرْتَوْ نظر آیا ہے ۔سارے مذہبی نظریوں کو میں دینِ فطرت کا جز تسلیم کرتا ہوں ۔

۔

آسمان پر ایک نظر دوڑائی ستاروں اور پھر رات میں گرتی شبنم سے پودوں کے پتوں کو پُرْنَمْ ہوتے دیکھا، ٹیبل پر رکھی ہوئی کتابوں میں نظر دوڑائی، کافی کی گرما گرم چسکی لی ۔سائیں کی لکھی ہوئی بات کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ مشہور مسلمان فلسفی ،اِمام المتکلّمین میر سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام نامی ایک چھوٹا سے رسالہ بھی ٹیبل پر رکھا تھا ۔حسبِ عادت نئ کتاب کھول کر دیکھنے کی عادت کو دوہراتے ہوئے کتابچہ کھولا پہلی نظر جس عبارت پر پڑی جَلّی حروف میں لکھا تھا میر سیّد شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک الہیات (وہ علم جس میں خدا کے وجود اور ذات وصفات سے بحث کی جاتی ہے یعنی دینیات کا علم جو خدا اور دین سے متعلق ہو) کے حوالہ سے انسانوں کو حاصل ہونے والے علم کی تین قسمیں ہیں ۔تقلیدی ،استدلالی، کشفی ۔۔۔۔

۔

میر صاحب کی بات نہ جانے کیوں اِتنی اچھی لگی کہ میں حیرت میں ڈوب گیا ۔سوچنے لگا کہ میں جس نظریہ پر ہوں وہ علم تقلیدی ہے؟ استدلالی ہے؟ یا پھر کشفی؟

اِن تینوں کا معنی کنگھالنے کےلئے جب میں نے اِن کی تعریفات پر غور کیا تو لفظ تقلیدی کے آگے خاص عنوان کے تحت لکھا ہوا تھا اس سے مراد اُن لوگوں کا علم ہے جو خود مسائل کو اُن کے منابع (اصولوں )سے اخذ کرنے سے قاصر ہیں محض اپنے قائدین کے بتائے ہوئے مسائل واحکام وتعبیرات پر عمل پیرا ہیں ۔

۔

یہ بات پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ گویا میر شریف صاحب میرے نظریات پر علمی ہتھوڑے برسا کر کہہ رہے کہ اے جی ایم سید کو اپنا گرو ماننے والے دین ومذھب کے متعلق تمھارا علم محض تقلیدی ہے ۔جیسے جی ایم نے لکھا ویسے تونے مان لیا ۔استدلال کی کُلفت تو نے کبھی اٹھائ ہی نہیں تو کشف کہاں سے تجھے حاصل ہوگا ۔

۔

اپنے مستی میں مست تھا ۔جی ایم سید، سرسید علی گڑھی، گرونانک، بھگت کبیر وغیرہ کی نظریات سے متاثر ہوکر مُلائیت سے دور ایک صوفیانہ درحقیقت زندیقیانہ زندگی گزار رہا تھا ۔سندھ پبلک سروس میں گورنمنٹ کی جاب تھی ۔گلشن اقبال جیسے علاقے میں عالیشان بنگلے میں رہائش تھی لیکن بھلا ہو میر سید شریف جیسے بڑے اسلامی فلسفی ،متکلم عالم دین کا کہ اُن کے لکھے ہوئے چند جملوں نے میری ساری علمیت کا پردہ چاک کرکے مجھے میرے ہی سامنے طشت ازبام کردیا ۔نہ چاہتے ہوئے بھی رات کے اُس پہر وضو کیا قرآن کریم کو کھول کر دیکھا سب سے پہلے جِس آیت پر نظر پڑی لکھاتھا “وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)

اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاکاروں سے ہے ۔

۔

قرآنی الفاظ کی سحر نے مجھے جکڑ لیا ۔میری حالت ایسی تھی گویا ماہئ بے آب ہوں ۔میر سید شریف کی بات اور قرآنی الفاظ نے میرے سابقہ نظریات کو پاش پاش کردیا ۔مجھے یقین ہوا کہ حق صرف اسلام ہی ہے ۔ہندو مت، بدھ مت، جین مت، سکھ مت اور دیگر تمام مذاھب باطل ہیں میرا یہ علم محض تقلیدی نہ رہے اس کےلئے مجھےمزید دلیل کی ضرورت تھی چونکہ میں ملائیت سے بیزار تھا اس لئے مجھے کسی مولانا یا مفتی کی بات پر بھروسہ نہیں تھا ۔فلسفہ میں امام غزالی اور انقلابِ سندھ وہند کے متعلق مطالعہ کرتے ہوئے بارہا احمد بن عبدالرحیم المعروف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام پڑھا تھا ۔

۔

علمِ استدلالی کے حصول کی خاطر میں نے گھر کی لائیبریری کا رخ کیا ۔قرآنی علوم ومعارف کے متعلق شاہ ولی اللہ صاحب کی مشہور کتاب “الفوزالکبیر” کی ورق گردانی شروع کی چند صفحات کے بعد مجھے جواب مل گیا ” ومناط الحکم ھو الایمان باللہ والیوم الآخر والایمان بالنبی الذی بعث الیھم والانقیاد لہ، والعمل بشرائع ملتہ، والاجتناب عن نواھیھا، لاتخصیص الحکم بفرقۃ من الفرق لذاتھا “نجات یافتہ ہونے کےلئے جملہ مذاھب میں سے کسی مذھب سے چمٹے رہنا بذاتہ کوئی فضیلت نہیں رکھتا ۔آخرت میں نجات یافتہ ہونے کا مدار اللہ اور یوم آخرت اور نبی پر ایمان رکھنے ،نبی کی اطاعت، اُس کی شریعت پر عمل اور اُس کے منع کردہ کاموں سے بچنے میں ہے۔

۔

ابو حامد محمد بن محمد المعروف امام غزالی کا “مجمعۃ رسائل الامام الغزالی ” دارالکتب العلمیہ بیروت فھرست نمبر 3 رسالہ نمبر 4 ۔۔۔۔امام نے لکھا “الکفر ھو تکذیب الرسول علیہ الصلاۃ والسلام فی شئ مما جاء بہ، والایمان تصدیقہ فی جمیع ماجاء بہ، فالیھودی والنصرانی کافران لتکذیبھما للرسول علیہ الصلاۃ والسلام، والبرھمی کافر بالطریق الاولٰی لانہ انکر مع رسولنا المرسل سائر الرسل ۔

گویا امام غزالی فرمارہے ہیں کہ تمام مذاہب حق کا پَرْتَوْ نہیں ہیں جیسا کہ جی ایم سید کا نظریہ ہے ۔جی ایم سید کی قبرپر جاکر کوئی شخص بتائے کہ میں صوفیوں کا امام ہوں لوگ میری یعنی غزالی کی کتابیں پڑھ کر صوفی بنتے ہیں ۔میں( یعنی غزالی) کہتا ہوں کہ برھمی (ایک غیر مسلم فرقہ) کافر ہیں کیونکہ وہ صرف ہمارے رسول (محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار نہیں کرتے بلکہ وہ تو تمام رسولوں کو مبعوث فرمانے والی ذات یعنی اللہ کے بھی منکر ہیں ۔جی ایم سید نے یہ بات کیسے لکھ دی کہ کسی عقیدہ کو حرفِ آخر قرار نہیں دیا جاتا جبکہ میں غزالی تمھیں بتائے دیتا ہوں کہ جی ایم سید سب کو نجات یافتہ کہ کر دین اسلام کو جھٹلا رہا ہے ۔غیر مسلم مشرکوں کا نجات یافتہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے میں غزالی لکھ دیتا ہوں کہ یہودی اور عیسائی بھی کافر ہیں کہ وہ ہمارے رسول کی رسالت کے منکر ہیں ۔

۔

فکر اسلامی کو صحیح نظر سے پڑھنے کے بعد میرے شکوک شبہات کافور ہوگئے ۔حق نکھر کر سامنے آگیا۔تمام باطل نظریات سے توبہ کرتے ہوئے میں نے کہا کہ حق صرف اسلام ہے اور یہی دین مُنْجِیْ (نجات دلانے والی) ہے ۔

✍️ ابوحاتم

26/12/2021/

نوٹ ۔یہ مضمون تخیّلاتی ہے ۔صاحب تحریر کبھی جی ایم سے متاثر نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا ان شاء الله تعالیٰ ۔