*مرد عورت کا اختلاط،نماز،جماعت،پیری……!!*

سوال:

بےنمازی کےحوالے سے اور جو خود بےعمل ہو اور مرد عورت اکھٹے ہوں اس کے جلسے میں اور پیری فقیری کے بڑے بڑے دعوے کرےاس حوالےسےمعتبر حوالہ جات کے ساتھ مجھےتحریر دیں آپ کا شکریہ ہوگا

.

*اختلاط،میل جول………….!!*

شادی بیاہ ، برتھ ڈے ، نیو ائیر ، میلاد،عرس ،مزارات پے حاضری، دینی محفل دنیاوی محفل وغیرہ مواقع و محافل اور اسکول کالج یونیورسٹی مدارس تعلیم و نوکری شاپنگ تفریح وغیرہ پے مرد و عورت کا اختلاط جائز نہیں، ایسے اختلاط کرانے والا فاسق و فاجر ہے پیر و مرشد نہیں بن سکتا

①الحدیث:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ

بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (نامحرم،جن سےخلوت و اختلاط ممنوع ہو ان)عورتوں کے ساتھ خلوت،اختلاط،میل جول سے خود کو بچاؤ

(بخاري حدیث5232)

.

②الحدیث:

رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ : ” اسْتَأْخِرْنَ

راستے میں مرد و عورت کا اختلاط ہونے والا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت مرد سے الگ رہ کر راستے کے کونے پے چلے اور مرد الگ چلیں

(ابوداود حدیث5222)

اس حدیث پاک سے دو مسئلے ثابت ہوئے

¹:مرد و عورت کا اختلاط میل جول جائز نہیں، ایسی محافل و سفر وغیرہ جائز نہیں جس میں اختلاط ہو یا قوی خدشہ ہو

²:اگر محافل شادی وغیرہ میں شرائط کی پاسداری کی جائے اور عورت باپردہ ہو اور اختلاط نہ ہو مرد عورت الگ ہوں یا فقط عورتیں ہی باپردہ اکھٹی ہوں تو ممنوع نہیں

.

③بیعت جیسے ضروری اہم مواقع پے بھی آپ علیہ الصلاۃ و السلام عورتوں سے مصافحہ نہ فرماتے تھے:

انطلقن، فقد بايعتكن ولا والله ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امرأة قط، غير أنه يبايعهن بالكلام

ترجمہ:

تمھاری بیعت ہوگئ اب جاو، اللہ کی قسم رسول کریم کا ہاتھ کسی(غیر محرم)عورت کے ہاتھ سے کھبی نہ ملا،رسول کریم تو عورتوں ںسے محض زبانی کلامی بیعت کرتے تھے

(مسلم حدیث 1866)مردوں لیڈرو اور بالخصوص علماء مشائخ پیر حضرات کے لیے واضح نصیحت ہے کہ وہ بچتے رہیں غیرمحرم عورتوں سے میل جول سے ، ان سے ہاتھ پاؤں جسم دبوانے سے، ان سے ہاتھ ملانے سے…..جو نہ بچے وہ مرشد ہونے و کہلانے کے لائق نہیں

.

④الحدیث:

يَقُولُ: «لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بھی شخص عورتوں کے ساتھ(تعلیم شاپنگ وغیرہ کےلیے)

خلوت و اختلاط(میل جول، بات چیت)نہیں کر سکتا ہاں اگر عورت کا محرم مرد اس کے ساتھ ہو تو جائز ہے اور عورت باہر نہیں جا سکتی مگر یہ کہ محرم مرد کے ساتھ

[مسلم حدیث1342]شاپنگ تعلیم نوکری جائز تفریح گھومنے کے لیے عورت محرم کے ساتھ باپردہ رہ کر جاسکتی ہے، اس طرح مرد ساتھ ہوگا تو عورت کو کوئی ہراساں بھی نہ کریگا….ہراساں کرنے والے بھی مجرم ہیں تو اکیلے اور بےپردہ ہوکر گھومنے والی شاپنگ کرنی والی عورتیں بھی مجرم ہیں

.

لا يجوز اختلاط الرجال بالنساء في حفلات الزواج وغيرها؛ لما في ذلك من الفتنة لهم ولهن بالرؤية والكلام، وإطلاق البصر فيما حرم الله

محافل و پروگرام وغیرہ میں مرد و عورت کا اختلاط و میل جول جائز نہیں کہ دیکھنے چھونے بات کرنے وغیرہ کے فتنے و گناہ ہیں

(موسوعة الفقه الإسلامي4/82)

.

الْخَلْوَةُ بِالْأَجْنَبِيَّةِ مَكْرُوهَةٌ وَإِنْ كَانَتْ مَعَهَا أُخْرَى كَرَاهَةَ تَحْرِيمٍ…..هَذَا أَنَّ الْخَلْوَةَ الْمُحَرَّمَةَ تَنْتَفِي بِالْحَائِلِ، وَبِوُجُودِ مَحْرَمٍ أَوْ امْرَأَةٍ ثِقَةٍ قَادِرَةٍ….وَيَظْهَرُ لِي أَنَّ مُرَادَهُمْ بِالْمَرْأَةِ الثِّقَةِ أَنْ تَكُونَ عَجُوزًا

غیر محرم عورت کے ساتھ ہونا(اختلاط،کو ایجوکیشن، میل جول) مکروہ تحریمی و گناہ ہے اگرچہ عورت کے ساتھ دوسری عورت ہو پھر بھی گناہ ہے….ہاں اگر مرد اور عورت کے بیچ میں دیوار ہو یا مضبوط پردہ ہو یا عورت کے ساتھ محرم مرد ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ دوسری ثقہ قادرہ عورت ساتھ ہو…ثقہ قادرہ عورت سے مراد ایسی زیادہ عمر والی عورت جو حفاظت وغیرہ پر بھی قادر ہو تو باہر نکلنا(اور ایسی صورت میں غیرمحرم مرد سے بات کرنا)جائز ہے

[رد المحتار,6/368ملتقطا]

.

كَالاِخْتِلاَطِ فِي الأَْفْرَاحِ وَالْمَوَالِدِ وَالأَْعْيَادِ، فَالاِخْتِلاَطُ الَّذِي يَكُونُ فِيهِ مِثْل هَذِهِ الأُْمُورِ حَرَامٌ، لِمُخَالَفَتِهِ لِقَوَاعِدِ الشَّرِيعَةِ

یعنی

تفریح عید تہوار محافل پروگرام وغیرہ میں مرد و عورت کا اختلاط حرام ہے کہ اس میں شریعت کے قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية2/290)

.

*نماز و جماعت چھوڑنے والا…………!!*

القرآن:

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا

تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف نااہل آئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور اپنی خواہشوں و فحاشی میں پڑے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل(اور ہلاکت)پائیں گے

(سورہ مریم آیت59)

.

وفي هذا الخلف قولان: أحدهما: أنهم اليهود من بعد ما تقدم من الأنبياء , قاله مقاتل. الثاني: أنهم من المسلمين. فعلى هذا في قوله {من بَعْدِهِم} قولان: أحدهما: من بعد النبي صلى الله عليه وسلم , من عصر الصحابة وإلى قيام الساعة كما روى الوليد بن قيس حكاه إبراهيم عن عبيدة. الثاني: إنهم من بعد عصر الصحابة. روى الوليد بن قيس عن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (يَكُونُ بَعْدَ سِتِّينَ سَنَةً {خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلاةَ}). الآية. وفي إضاعتهم الصلاة قولان: أحدهما: تأخيرها عن أوقاتها , قال ابن مسعود وعمر بن عبد العزيز. الثاني: تركها , قاله القرظي. ويحتمل ثالثاً: أن تكون إضاعتها الإِخلال باستيفاء شروطها

خلاصہ:

نماز ضائع کرنے والے نا اہل جنکی مذمت ہے ان سے مراد یہود و نصاری اور امت محمدیہ میں قیامت تک آنے والے ایسے لوگ جو نماز نہ پڑہیں، جماعت سے نہ پڑہیں، نماز کے احکامات پے عمل نہ کریں

(تفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/379)

 

.

أَضاعُوا الصَّلاةَ أي: تركوها وأخروها عن وقتها، وَاتَّبَعُوا الشَّهَواتِ من شرب الخمر، واستحلال نكاح الأخت، من الأب، والانهماك في فنون المعاصي

نماز کو ضائع کرنے والے یعنی وقت کے بعد جماعت چھوڑ کر پڑھنے والے قضاء کرکے پرھنے والے شراب و فحاشی والے گناہوں میں منہمک یہ لوگ نماز ضائع کرنے والے نا اہل ہیں انکی مذمت ہے

(البحر المديد في تفسير القرآن المجيد ,3/347)

.

وقال وهب: فخلف من بعدهم خلف شرابون للقهوات، لعابون بالكعاب ركابون للشهوات، متبعون للذات، تاركون للجمعات مضيعون للصلوات

نماز ضائع کرنے والے مطلب نا اہل شرابی ناجائز کھود کود میں مشغول ، شھوت و لذتوں پیسوں کے پوچاری، جمعہ یا جماعت ترک کرنے والے یہ لوگ نماز ضائع کرنے والے نا اہل مذموم ہیں

(تفسير الثعلبي =ط دار التفسير ,17/408)

.

جو نماز وغیرہ کا علم نہ رکھتا ہو، نماز نہ پرھتا ہو یا بلاعذر جماعت سے نماز نہ پڑھتا یا شرابی ہو ، بھنگ پینے والا نشہ کرنے والا ہو، عیاش ہو، زانی و فاسق و فاجر ہو وہ قرآن پاک کی مذکورہ ایت کے مطابق مذموم و نااہل ہے ، ہلاکت میں ہے، جہنمی ہے…..بھلا وہ کیسے پیر و مرشد بن سکتا ہے…؟؟ بھلا ایسے کو کیسے پیر و مرشد بنایا جاسکتا ہے…؟؟

.

*اختلاط والا اور بےنمازی یا بلاعذر جماعت سے نماز نہ پڑھنے والا یا دیگر گناہ کرنے والا فاسق معلن پیر و مرشد نہیں بن سکتا اور نہ ایسے کو پیر و مرشد سمجھ سکتے ہیں…..!!*

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ

ترجمہ:

اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور اولی الامر(سچےمسلم حکام و علماء)کی طرف

تو

اہل استنباط(اہلِ تحقیق، باشعور، باریک دان، سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے..(سورہ نساء آیت83)

.

اس آیت میں واضح ہے کہ اپنے معاملات قران سنت اور اہل استنباط صحابہ کرام علماء صوفیاء کی طرف لوٹانا واجب ہے انکی رہنمائی لینا انہیں مرشد بنانا لازم ہے…صحابہ اہلبیت تابعین ائمہ علماء صوفیا میں سے جو اہل استنباط ہیں ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرو یہ حکم اس ایت سے ثابت ہوتا ہے

اور

اہل استنباط کا قیاس کرنا بھی اس ایت سے ثابت ہوتا ہے اور ظنیات فروعیات میں اختلاف ہو جانا بھی فطری و شرعی عمل ہے، اختلاف کی صورت میں کسی بھی اہل استنباط کی تقلید و مریدی مذکورہ آیت کی رو سے لازم ہے

.

اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اہل علم باعمل باشعور محققین ہوں، پہنچے ہوئے ہوں، کافی علم رکھتے ہوں، تو وہ مرجع و مرشد بن سکتے ہیں…..فاسق فاجر بدمذہب جاہل بےنمازی نشئ عیاش مکار وغیرہ پیر و مرشد نہیں سکتے

.

وسائط(علماء آئمہ صحابہ اہلبیت)کو مانتے ہوئے نبی کریمﷺکو مرشد ماننا فرض،جو نہ مانے اسکا پیر شیطان

اور

برحق،باعمل غیرفاسق اہلسنت علماء کو مرشد ماننا واجب،جو نہ مانے اسکا پیر شیطان…فاسق معلن غیرعالم بدمذہب گستاخ و منافق کو پیر نہیں بناسکتے…مرشد بیعت برکت چار شرائط کے ساتھ مستحب ہے،جو ایسا پیر نہ بنائے مگر فرض واجب والا پیر مانے تو کوئی حرج نہیں البتہ راہ تصوف و سلوک میں جسکا کوئی پیر نہیں اسکا پیر شیطان….(ماخوذ از فتاوی رضویہ جلد21 مسلہ185،180)

بیعت مستحبہ مرشد مستحب کی وہ چار شرائط یہ ہیں

اول : سنّی صحیح العقیدہ ہو۔

دوم: اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

سِوم: فاسق مُعلِن نہ ہو۔

چہارم: اُس کا سلسلہ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تک متصل ہو۔(بہار شریعت1/42 فتاوی رضویہ جلد21 مسلہ185،180)

.

بدمذہب و غیر معتبر عالم سے دور رہنے کا حکم ہے تو انکو پیر و مرشد کیسے بنایا جاسکتا ہے……؟؟ ہر گز نہیں بنایا جاسکتا

الحدیث:

[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]

’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

.

ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا:

لایصلی لکم

ترجمہ:

وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا

(ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636,

مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769]

.

غیر معتبر عالم و فاسق کی بات معتبر ہی نہیں تو اس سے رہنمائی کیسے لے سکتے ہیں…..؟؟ جب رہنمائی نہیں لے سکتے تو مرشد کیسے بنا سکتے ہیں….ہرگز نہیں، اور مرشد کا ادب کرنا لازم ہے جبکہ بدمذہب و فاسق و فاجر کا ادب و تعریف سے منع کیا گیا ہے لیھذا بدمذہب فاسق و فاجر غیرمعتبر کو مرشد نہیں بنا سکتے اور نہ ہی اسے مرشد سمجھ سکتے ہیں اور ایسے کو پیری مریدی کرنا بھی جائز نہیں

الحدیث:

إِذَا مُدِحَ الْفَاسِقُ غَضِبَ الرَّبُّ

فاسق و فاجر(گمراہ بدمذہب برے)کی تعریف(تعظیم) کی جائے تو ایسا گناہ و جرم ہے کہ رب تعالیٰ غضبناک ہوتا ہے

(شعب الإيمان ,6/511حدیث4544)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث1707)

.

بدمذہبوں مکاروں جھوٹوں منافقوں فاسقوں فاجروں غیرمعتبروں سے علم حاصل نہیں کرنا چاہیے انکی بات کا یقین نہیں کرنا چاہیے انکا باءیکاٹ لازم….نہ سننا نہ ماننا نہ پھیلانا لازم،انہیں پیر و مرشد نہ بنانا لازم

الحدیث،ترجمہ:

گناہ(گمراہیت)کی بات ہوتو نہ سنو،نہ مانو(بخاری حدیث2955)منافق مکار خارجی ناصبی رافضی نیم رافضی وغیرہ گمراہ علماء پیر فنکار سیاستدان صحافی کی بات تقریر نہ سننا،نہ ماننا لازم،ایسے لوگ پیر و مرشد رہنما نہیں بن سکتے،ایسوں کو پیر و مرشد رہنما نہیں بناسکتے… ایسوں کی

اصلاح کی کوشش جاءے، ڈٹے رہیں تو بائیکاٹ لازم…سچوں اچھوں کی پہچان پیروی و تشہیر لازم…….!!

.

سبع سنابل شریف میں ہے کہ:

اولیاء اسلاف جوکہ غوث و قطب تھے ان کے بیٹے صحیح سند اور ان کی رخصت و اجازت کے بغیر محض بزرگوں سے نسبت فرزندی رکھنے کی وجہ سے لوگوں کومرید بناتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے فلاں غوث اور قطب کے خانوادہ کے ساتھ تعلق قائم کرلیاہے اوران کی طرف رجوع کرلیاہے۔ یہ مکمل طور پر گمراہی ہے

( سبع سنابل سنبلہ دوم ص39,40بحوالہ فتوی رضویہ)

.

شیخ نے اس جہاں سے انتقال فرمایا اور کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا۔ قوم اور قبیلہ نے کسی وارث(بیٹے بھائی پوتے وغیرہ کو)یا مرید کو اس کی خلافت کے لئے تجویز کر دیا، مشائخ کے نزدیک یہ خلافت درست نہیں۔

(فتاوی رضویہ26/573)وہ جو سمجھتے ہیں کہ کسی مرشد صوفی کی وفات کے بعد اس کے وارث اولاد جاں نشین گدی نشین بن جاتے ہیں چاہے علم و عمل ہو یا نہ ہو پھر بھی مرشد بن بیٹھتے ہیں تو یہ سلسلہ خلاف شریعت ہے، ایسا نا اہل بیٹا گدی نشین درحقیقت گدی نشین ہی نہیں، پیر و مرشد نہیں…ہاں بیٹا اگر مرشد کی شرائط کا جامع ہے تو گدی نشین و مرشد بن سکتا ہے

.

الحدیث:

اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

لوگ اپنا پیشوا(مرشد)جاہلوں کو بنا دیں گے تو جاہل بغیر (معتبر مستند)علم کے فتوی دیکر خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے

(بخاری حدیث100)

اس حدیث پاک میں واضح اشارہ ہے کہ معتبر عالم کو پیشوا مرشد بنانا چاہیے ان سے سوال جواب و فتوی رشد و ہدایت نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور جاہل ، بہت کم علم اور مکار و منافق بدمذہب غیرمعتبر فاسق و فاجر وغیرہ مرشد بننے کے لائق نہیں ، انہیں مرشد نہیں بناسکتے…..!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574