اِذۡ يَغۡشَى السِّدۡرَةَ مَا يَغۡشٰىۙ ۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذۡ يَغۡشَى السِّدۡرَةَ مَا يَغۡشٰىۙ ۞
ترجمہ:
جب سدرہ کو ڈھانپ لیا اس چیز نے جس نے ڈھانپ لیا
سدرہ کو ڈھانپنے والی چیزوں میں متعدد اقوال
النجم : ١٦ میں فرمایا : جب سدرہ کو ڈھانپ لیا اس چیز نے جس نے ڈھانپ لیا۔
سدرہ کو کس چیز نے ڈھانپا ؟ اس میں بھی حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود (رض) ، ان کے اصحاب اور ضحاک نے کہا : وہ سونے سے بنے ہوئے پروانے ہیں، جیسا کہ ” صحیح مسلم “ میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سدرہ پر پہنچے تو اس کو سونے کے بنے ہوئے پروانوں نے ڈھانپ رکھا تھا، وہاں آپ کو تین چیزیں دی گئیں : آپ کو پانچ نمازیں دی گئیں، سورة بقرہ کی آخری آیات دی گئیں اور آپ کی امت میں سے ہر اس شخص کو بخش دیا گیا جس نے شرک نہیں کیا۔( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣)
(٢) حسن بصری نے کہا : سدرہ کو رب العٰلمین کے نور نے ڈھانپاپس وہ روشن ہوگئی۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٧)
(٣) القشیری نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کس چیز نے سدرہ کو ڈھانپ لیا ؟ آپ نے فرمایا : سونے کے پروانوں نے، یعنی سونے کی دھات سے بنے ہوئے پر اونوں نے، بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ سدرہ کو اللہ کے نور نے ڈھانپ لیا حتیٰ کہ اب کوئی اس کی طرف دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔(الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٩٠)
(٤) ربیع بن انس نے کہا : سدرہ کو رب العٰلمین کے نور نے ڈھانپ لیا اور اس پر فرشتے ہیں جیسے پرندے درخت پر ہوتے ہیں اور ابن زید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ سدرہ کو سونے سے بنے ہوئے پروانوں نے ڈھانپ رکھا ہے اور میں نے دیکھا کے ہر پتے پر ایک فرشتہ کھڑا ہوا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اذا یغشی السدرۃ ما یغشی۔ “ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٨)
(٥) مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد سبز رنگ کا تخت ہے، ان سے دوسری روایت ہے کہ رفرف کو سبز پرندوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔
(٦) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ سدرہ اللہ تعالیٰ کے امر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٢)
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے امر کی تعظیم ہے گویا اللہ تعالیٰ کے ملکوت کے دلائل نے سدرہ کو ڈھانپ رکھا ہے، اگر یہ سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے امر کے لیے سدرہ کو کیوں خاص کیا گیا، کسی اور درخت کو کیوں نہیں اختیار کیا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سدرہ میں تین اوصاف ہیں : (١) اس کا سایہ بہت لمبا ہے (٢) اس کا ذائقہ بہت لذیذ ہے (٣) اس کی خوشبو بہت نفیس ہے، پس یہ ایمان کے مشابہ ہے جو قول، عمل اور نیت کا جامع ہے، اس کا سایہ بہ منزلہ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ ہیں، اس کا سایہ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ کی نیت ہے اور اس کی خوشبو ایمان لانے کے بعد اس کا قول اور اظہار ہے۔(النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٦)
امام ابو دائود نے حضرت عبد اللہ بن حبشی (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے بیری کے درخت کو کاٹ ڈالا، اللہ تعالیٰ اس کے سر کو جہنم میں نیچے کر دے گا۔ ( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٤٣٩)
امام ابو دائود نے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا : جو شخص بیری کے اس درخت کو جنگل میں بےفائدہ اور ظما ً کاٹ دے گا جس کے سائے میں مسافر اور جانور بیٹھتے ہیں، اللہ تعالیٰ دوزخ میں اس کے سر کو نیچے کر دے گا ( سوچئے ! جب عام بیری کے درخت کی یہ عظمت ہے تو سدرۃ المنتہیٰ کی عظمت کا کیا عالم ہوگا۔ سعیدی غفرلہٗ )
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 16