أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَقَدۡ رَاٰى مِنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِ الۡكُبۡرٰى ۞

ترجمہ:

بیشک ( اس نبی نے) اپنے رب کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی کو ضرو دیکھا

جن نشانیوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج دیکھا

النجم : ١٨ میں فرمایا : بیشک ( اس نبی نے) اپنے رب کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی کو ضرور دیکھا۔

اپنے رب کی نشانیوں کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) حضرت ابن مسعود نے کہا : آپ نے دیکھا کہ سونے سے بنے ہوئے پروانوں نے سدرہ کو ڈھانپ لیا تھا۔

(٢) حضرت ابن مسعود کا دوسرا قول ہے کہ آپ نے حضرت جبریل کو ان کی اصل صورت میں دیکھا کہ انہوں نے اپنے پروں سے افق کو گھیر لیا تھا۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٧)

(٣) حضرت ابن مسعود (رض) کا تیسرا قول ہے کہ آپ نے جنت کے رفرف ( سبز رنگ کے تخت) کو دیکھا۔( زاد المسیرج ٨ ص ٧١)

علامہ اسماعیل بن محمد حنفی قونوی متوفی ١١٩٥ ھ لکھتے ہیں :

آپ نے شب معراج ان علامات اور دلائل کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور اس کی دوسری بلند صفات پر دلالت کرتی ہیں اور جن کو دیکھ کر دیکھنے والا متعجب ہوتا ہے، یعنی عالم ملک اور شہادت اور عالم الغیب اور جبروت۔( حاشیۃ القونوی علی البیضاوی ج ١٨ ص ٢٨١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

شب معراج کی نشانیاں دیکھنے سے امام رازی کا یہ استدلال کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی شب اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت پر معراج کے قصہ کو ختم فرمایا اور اس قصہ کی ابتداء اس آیت سے کی تھی :

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط (بنی اسرائیل : ١)

سبحان ہے وہ ذات جو اپنے مقدس بندے کو راتوں رات، رات کے ایک لمحہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھائیں۔

اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اپنے رب کو دیکھا ہوتا تو یہی سب سے بڑی نشانی ہوتی، بعض مفسرین نے کہا کہ حضرت جبریل کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا یہ سب سے بڑی نشانی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ احادیث میں ہے : حضرت جبریل سے بھی بڑے فرشتے ہیں، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس رات آپ نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا اور حضرت جبریل بھی ان بڑی نشانیوں میں داخل ہیں اگرچہ وہ سب سے بڑی نشانی نہیں ہیں۔( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٤٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی کے استدلال پر علامہ اسماعیل حقی کا تبصرہ

علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ فرماتے ہیں :

فقیر یہ کہتا ہے کہ ان نشانیوں کو دیکھنا اللہ تعالیٰ کے دیکھنے پر مشتمل ہے جیسا کہ شیخ کبیر (رض) نے ” الفلوک “ میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صرف اس وقت مشکل ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کے مظاہر اور اضافات سے صرف نظر کر کے دیکھا جائے لیکن مظاہر میں اور حجابات مراتب میں اس کو دیکھنا ممکن ہے، جیسے آفتاب کو بالمشافہ دیکھنا مشکل ہے لیکن اس کو رقیق بادل کی اوٹ سے دیکھنا ممکن اور آسان ہے ( ان کی عبارت ختم ہوئی)

علامہ اسماعیل حنفی فرماتے ہیں : رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دکھانا، اللہ تعالیٰ کو دکھانے پر مشتمل ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات ملکوتیہ آیات ملکیہ پر فائق ہیں ( یعنی اس کی صفات فرشتوں سے بلند ہیں) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تمام مشاہد دکھائے تاکہ تمام مراتب اور مشاہد میں مکمل ہوجائے اور یہ محال ہے کہ ایک کریم دوسرے کریم کو دعوت دے اور ایک حبیب دوسرے حبیب کو اپنے محل میں بلائے اور خود اپنے حبیب سے چھپ جائے اور اس کو اپنا چہرہ نہ دکھائے۔( روح البیان ج ٩ ص ٢٧٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام رازی کے استدلال پر مصنف کا تبصرہ

میں کہتا ہوں کہ امام رازی کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ آیت کا معنی ہے : نشانی اور دلیل، اور جس طرح ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر دلیل ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات خود بھی اپنی ذات اور صفات پر دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیات میں خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے داخل ہونے سے کیا چیز مانع ہے ؟ وہ خود اپنی ذات پر سب سے بڑی نشانی ہے اور سب سے بڑی قوی دلیل ہے، جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) ، حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت علی (رض) کے سامنے جب اپنی نبوت کو پیش کیا تو یہ سب بغیر کسی دلیل اور معجزے کے آپ کی نبوت پر ایمان لے آئے کیونکہ آپ کی نبوت پر سب سے بڑی دلیل خود آپ کی ذات مقدسہ اور ان کے درمیان مکہ میں گزاری ہوئی چالیس سالہ حیات تھی، قرآن مجید میں ہے :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کافروں سے، منکروں سے کہیے :

قُلْ لَّوْ شَآئَ اللہ ُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖصلے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ (یونس : ١٦)

آپ کہیے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں تم پر قرآن کی تلاوت نہ کرتا اور نہ تم کو اس کی خبر دیتا، بیشک میں تم میں اس ( دعویٰ نبوت) سے پہلے عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں پس کیا تم عقل نہیں رکھتے ( کہ میری گزاری ہوئی پاکیزہ زندگی میں میری نبوت پر استدلال کرسکو) ۔

سو جس طرح طلوع آفتاب وجودِ آفتاب پر دلیل ہے اور آپ کی ذات اور آپ کی زندگی آپ کی نبوت پر دلیل ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات خود اس کی ذات اور صفات پر دلیل ہیں، بلکہ سب سے قوی دلیل ہیں اور سب سے عظیم آیت ہیں، اور آپ کے رب کی آیتوں میں سب سے عظیم اور سب سے بڑی آیت خود اس کی ذات ہے اور اس آیت میں فرمایا ہے :

لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ یٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ (النجم : ١٨)

بے شک ( اس نبی) نے اپنے رب کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی کو ضرور دیکھا۔

” الکبریٰ “ واحد مؤنث اسم تفضیل ہے، اور جس طرح ” اکبر “ کا معنی ہے : سب سے بڑا، اسی طرح ” کبریٰ “ کا معنی ہے : سب سے بڑی، یعنی سب سے بڑی آیت اور سب سے بڑی نشانی اور لاریب وہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس آیت میں فرمایا ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی آیت ” کبریٰ “ یعنی سب سے بڑی نشانی کو دیکھا اور یہ معنی اس کو مستلزم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے رب کو دیکھا، اللہ امام رازی پر رحمتیں نازل فرمائے، نجانے ان ایسے نکتہ شناس اور ژرف بین پر یہ نکتہ کیسے مخفی رہا ؟

اللہ تعالیٰ نے صراحۃً فرمایا ہے :

الم ترالی ربک (الفرقان : ٤٥) کیا آپ نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا۔

اور فرمایا :” مازاع البصر وما طعی۔ “ (النجم : ١٧) یعنی اپنے رب کو دیکھتے وقت آپ کی نظر ادھر ادھر ہٹی، نہ اپنے رب کی روایت سے متجاوز ہوئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب حضرت ابو ذر (رض) نے سوال کیا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ نور ہے میں نے اس کو جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨)

دیدارِ الٰہی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات

اللہ تعالیٰ کے کلام میں اس قدر ثقل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہ ِ ط (الحشر : ٢١ )

اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کی دہشت سے ریزہ ریزہ ہوجاتا۔

تو آپ کے سیہ بےکینہ کی عظمت کا کیا کہنا جس پر قرآن کی چھ ہزار سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں اور اس کی صحت و سالمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

اسی طرح قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ہے :

وَلَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَط قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ وَلٰـکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرَانِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا ج (الاعراف : ١٤٣ )

اور جب موسیٰ وقت مقرر پر ہمارے پاس آئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا تو انہوں نے کہا : اے میرے رب ! مجھے اپنی ذات دکھا، میں تیری طرف نظر کروں، ( اللہ نے) فرمایا : تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے ! لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑے۔

اللہ اکبر ! اللہ تعالیٰ کی تجلی کو نہ پہاڑ سہار سکا، نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برداشت کرسکے تو ان کی آنکھوں کی ہمت کا کیا کہنا جنہوں نے اس کے جلوئوں کو اس طرح دیکھا کہ دکھانے والے نے بھی داد دی اور فرمایا :” مازاع البصر وما طعی۔ “ ( النجم : ١٧)

موسیٰ زھوش رفت بیک جلوہ صفات تو عین ذات مے نگری ودر تبسمی

کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام

ان کے قلب پر آفرین ہو کہ جس کلام کے نزول کو پہاڑ سہار نہیں سکتا وہ پورا قرآن آپ پر نازل ہوا اور آپ کی بصارت پر مرحبا ہو کہ جس کے جلوئوں کو، کوئی برداشت نہیں کرسکتا اس ذات کو آپ نے بےخوف و خطرہ دیکھا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا :

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط (البقرہ : ٢٦٠ )

اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا۔

تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چار مردہ پرندے زندہ کر کے دکھا دیا، پھر کیا وجہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سوال کیا اور کہا : ” رب ارنی انظر الیک “ ( الاعراف : ١٤٣) اے رب ! مجھے اپنی ذات دکھا، میں تیری طرف نظر کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا سوال کیوں پورا نہیں کیا اور انہیں اپنی ذات کیوں نہیں دکھائی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی صفت صدق کے مظہر ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت احیاء کو دیکھنا چاہتا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت احیائ ( زندہ کرنے کی صفت) دکھا دی، اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کے مظہر ہیں اگر وہ بھی اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو دیکھنا چاہتے تو اللہ تعالیٰ ان کی وہ صفت دکھا دیتا، لیکن انہوں نے صفت کا مظہر ہو کر ذات کو دیکھنے کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات نہیں دکھائی اور فرمایا : تم ہماری ذات کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے، تم میں وہ حوصلہ اور وہ قوت برداشت نہیں ہے کہ ہماری ذات کے جلوئوں کو سہار سکو، ہماری ذات کو تو صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو ہماری ذات کا مظہر ہو اور ہماری ذات کا مظہر تو اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی ہے اور وہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ہرچند کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی قوت نہیں تھی اور یہ حوصلہ نہیں تھا اور وہ اس کی ذات کے مظہر نہیں تھے، لیکن اللہ تعالیٰ ان میں یہ قوت پیدا تو کرسکتا تھا اور ان کو اپنی ذات کا مظہر بنا تو سکتا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز اس کی قدرت میں تو تھی لیکن اس کی حکمت میں نہیں تھی کیونکہ اس کی صفات تو بہت ہیں اس لیے اس کی صفات کے مظہر تو بہت ہوسکتے ہیں، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس کی صفات کے مظہر ہوسکتے ہیں لیکن اس کی ذات واحد ہے اس لیے اس کی ذات کا مظہر بھی واحد ہوگا۔

مسلمان دنیا میں اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ دنیا میں یہ آنکھیں فانی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات باقی ہے اور فانی آنکھوں سے باقی ذات کو نہیں دیکھا جاسکتا اور جنت میں مسلمان اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں گے، کیونکہ جنت میں مسلمانوں کے لیے خلود، دوام اور بقاء ہوگی، اب مسلمان بھی باقی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ بھی باقی ہے اور باقی آنکھوں سے باقی ذات کو دیکھا جاسکتا ہے، اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی دنیا میں سر کی آنکھوں سے اپنے رب کو جاگتے ہوے دیکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ ساری کائنات کی آنکھیں فنا کے لیے ہیں اور سرکار کی آنکھیں بقاء کے لیے ہیں۔

جن احادیث میں یہ تصریح ہے کہ شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو سر کی۔۔۔۔ آنکھوں سے دیکھا

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے، میں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا :

لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج (الانعام : ١٠٣)

آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ اس وقت ہوگا جب وہ اپنے اس نور سے تجلی فرمائے گا جو اس کا خاض نور ہے ( یعنی متناہی نور) آپ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے ( ایک بار رب کے پاس جاتے ہوئے اور ایک بار آتے ہوئے) ۔

( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٧٩، مسند احمد ج ١ ص ٢٢٣، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٦١٩)

طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : یہ اس وقت ہوگا جب وہ اس کیفیت کے ساتھ تجلی فرمائے گا جس کے سامنے کوئی بصر قائم نہیں رہ سکتی۔ ( المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٦١٩)

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی طرف نظر سے دیکھا۔ عکرمہ کہتے ہیں : میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا : آیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو نظر سے دیکھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں !ٖاللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خلیل ہونے کے ساتھ خاص کیا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر سے دیکھنے کے ساتھ خاص کیا۔

( المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٩٣٩٤، مکتبہ المعارف، ریاض، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٩٣٩٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

اس کی سند میں حفص بن عمر میمون ضعیف راوی ہے، لیکن فضائل اور مناقب میں ضعیف الاسانید روایات معتبر ہوتی ہیں خصوصاً اس صورت میں کہ اس حدیث کی تائید میں قرآن مجید کی آیات اور ” صحیح مسلم “ اور ” سنن ترمذی “ کی احادیث ہیں :

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ نور ہے جس نے اس کو جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨، الرقم المسلسل : ٢٩١، سنن ترمذی رقم الحدیث، ٣٢٨٢)

عبد اللہ بن شقیق بان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر (رض) سے کہا : اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی ہوتی تو میں آپ سے ضرور سوال کرتا، حضرت ابو ذر نے کہا : تم کس چیز کے متعلق کرتے ؟ انہوں نے کہا : میں آپ سے یہ سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضرت ابو ذر نے کہا : میں نے آپ سے یہ سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا : میں نے نور کو دیکھا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨، الرقم المسلسل : ٢٩٢)

امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

امام طبرانی اور امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دوبارہ دیکھا ہے ایک مرتبہ آنکھوں سے اور ایک مرتبہ دل ہے۔

(الدر المنثور ج ٧ ص ٥٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢ ھ)

صحابہ کرام کا اس میں اختلاف رہا ہے کہ آیاشب معراج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاگتے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے انہیں ؟ حضرت ابن عباس (رض) اور انکے موافقین صحابہ کا مؤقف ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ابن مسعود اور ان کے موافقین کا مذہب یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، البتہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ان سب کے نزدیک جائز ہے اور معتزلہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطلقاً انکار کرتے ہیں۔ ہم پہلے معتزلہ کے دلائل ذکر کر کے ان کا رد کریں گے، پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کے دلائل کا جواب ذکر کریں گے :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ نہایت باریک بین اور بہت با خبر ہے۔ (الانعام : ١٠٣)

رویت باری کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات

تقریباً ہر دور کے علماء اسلام کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رئویت ( اس کا دکھائی دینا) دنیا اور آخرت میں ممکن ہے یا نہیں ؟ بعض علماء نے اس کا انکار کیا اور جمہور علماء اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رئویت ممکن ہے اور دنیا میں یہ رئویت صرف سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے معراج کی شب واقع ہوئی اور آخرت میں تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مؤمنین کے لیے رئویت واقع ہوگی، میدان محشر میں بھی اور جنت میں بھی۔

منکرین رئویت کے دلائل اور ان کے جوابات

معتزلہ اور دیگر منکرین رئویت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جو چیزدکھائی دے، وہ دیکھنے والے کی مقابل جانب میں ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ دے تو اسکے لیے ایک جانب اور جہت کا ہونا لازم آئے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پھر تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا بھی انکار کردو، کیونکہ دیکھنے والا بھی دکھائی دینے والی چیز کی جانب مخالف میں ہوتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دیکھنے اور دکھائی دینے کا یہ قاعدہ ممکنات اور مخلوقات کے اعتبار سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کے لیے جانب اور مقابلہ کی شرط ہے، نہ دکھائی دینے کے لیے۔

منکرین رئویت کی دوسری دلیل یہ آیت ہے جس کا معنی وہ یہ کرتے ہیں کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں سلب عموم اور نفی شمول ہے عموم السلب اور شمول النفی نہیں ہے۔ یعنی ہر ہر آنکھ کے دیکھنے کی نفی نہیں ہے، نہ ہر ہر زمانہ میں دیکھنے کی نفی ہے، نہ ہر ہر مواقع پر دیکھنے کی نفی ہے، بلکہ بعض زمانہ میں بعض مواقع پر بعض لوگوں کے دیکھنے کی نفی ہے، سو دنیا میں دیکھنے کی نفی ہے اور آخرت کے بعض مواقع میں جب اللہ تعالیٰ غضب اور جلال میں ہوگا، اس وقت اس کو دیکھنے کی نفی ہے اور کفار اور منافقین کے دیکھنے کی نفی ہے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں جو اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور محشر میں اور جنت میں دیگر انبیاء (علیہم السلام) اور جملہ مؤمنین کے دیکھنے کی نفی نہیں ہے۔

منکرین رئویت کی تیسری دلیل یہ ہے کہ جن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ کو بہ طور مذمت نقل کیا ہے اور اس مطالبہ پر عذاب نازل کیا :

وَاِذْ قُلْتُمْ یٰـمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ۔ (البقرہ : ٥٥ )

اور جب تم نے کہا : اے موسیٰ ! ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، حتیٰ کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں تو تم کو ( بجلی کی) کڑک نے پکڑ لیا اور تم ( اس منظر کو) دیکھ رہے تھے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ان پر عذاب نازل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے اور ان کی باتوں پر یقین کرنے کو از راہ عناد اور سرکشی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے پر معلق کردیا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور شوق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے تھے۔

منکرین رئویت کی چوتھی دلیل یہ حدیث ہے : امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :

مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ام المؤمنین (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اے ابو عائشہ (رض) ! جس شخص نے تین باتوں میں سے ایک بات بھی کہی، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے پوچھا : وہ کون سی باتیں ہیں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : جس شخص نے یہ زعم کیا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بہت جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا : میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا : اے ام المؤمنین ! مجھے مہلت دیں اور جلدی نہ کریں، کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا :

ولقدراہ بالافق المبین۔ ( التکویر : ٢٣) اور بیشک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا۔

ولقد راہ نزلۃ اخری۔ ( النجم : ١٣) اور بیشک انہوں نے اسے دوسری بار ضرور دیکھا۔

حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : میں اس امت میں وہ سب سے پہلی خاتون ہوں جس نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا، آپ نے فرمایا : اس سے مراد حضرت جبریل ہیں، حضرت جبریل (علیہ السلام) کو جس صورت پر پیدا کیا گیا، میں نے اس صورت پر ان کو صرف دوباردیکھا ہے۔ میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کی عظیم خلقت نے آسمان سے زمین تک جگہ کو بھر لیا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) نے ( مسروق سے) فرمایا : کیا تم نے قرآن مجید کی یہ آیتیں نہیں سنیں :

لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج (الانعام : ١٠٣)

آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔

وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہ ُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ ط (الشوریٰ ٥١ )

اور کسی بشر کے لائق نہیں کہ وہ اللہ سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے، پہنچا دے۔

( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٥٥۔ ٤٦١٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٦٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٦٠٩٩، السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١١٤٧ )

اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) کا اس مسئلہ میں اختلاف تھا، جیسا کہ ہم انشاء اللہ عنقریب بیان کریں گے۔ حضرت عائشہ (رض) اس بات کی قائل نہیں تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، لیکن وہ آخرت میں رئویت باری کا انکار نہیں کرتی تھیں۔ حضرت ابن عباس (رض) شب معراج میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کے قائل تھے اور جمہور علماء اسلام ان کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے سورة الانعام کی جس زیر بحث آیت سے استدلال کیا ہے، اس کا جواب ہم دے چکے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، نہ یہ کہ آنکھیں اس کا مطلقاً ادراک نہیں کرسکتیں۔

اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق قرآن مجید کی آیات

وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۔ (القیامہ : ٢٢۔ ٢٣ )

کتنے ہی چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔

اس آیت میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی تصریح ہے :

کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ۔ (المطففین : ١٥)

بے شک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے ضرور محروم ہوں گے۔

اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے اور یہ چیز انکے لیے اسی وقت باعث ِ حرمان ویاس ہوگی جب مسلمان اس دن اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں، کیونکہ اگر ان کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہو اور نہ کافروں کو، تو پھر یہ چیز ان کے لیے باعث ِ افسوس نہیں ہوگی۔

لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز (الانعام : ١٠٣) آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔

یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح میں ہے اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح میں اسی وقت ہوسکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن ہو، کیونکہ اسی چیز کی نفی وجہ کمال ہوتی ہے جس کا ثبوت ممکن ہو، مثلاً ہوا، خوشبو اور آواز کا دکھائی دینا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ان کی مدح اور تعریف میں یہ نہیں کہا جاتا کہ ہوا، خوشبو اور آواز کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، تو اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں، یہ اللہ تعالیٰ کی مدح اور تعریف اسی وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہو۔ سو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی دلیل ہے :

قال رب ارنی انظر الیک (الاعراف : ١٤٣) موسیٰ نے عرض کیا : اے میرے رب ! مجھے اپنی ذات دکھا میں تجھے دیکھوں۔

اگر دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال نہ کرتے۔

وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ ۔ (حم السجدہ : ٣١)

اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کروگے۔

نیک اور صاف دل لوگ جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار طلب کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ جنت میں ان کی ہر خواہش پوری فرمائے گا، سو یہ آیت جنت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی دلیل ہے۔

آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق احادیث

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا۔ آپ نے فرمایا : تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہ ہو۔ تمہیں اس کو دیکھنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، پس اگر تم یہ کرسکتے ہو کہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو تو اس طرح کرو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٣٦۔ ٥٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٠٧، سنن ابو دائودب رقم الحدیث : ٤٧٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٠، سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٤٦٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٧ مسند احمد رقم الحدیث : ١٩٢ طبع جدید، مسند احمد ج ٢ ص ٣ طبع قدیم)

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ ط (یونس : ٢٦ )

جن لوگوں نے نیک کام کیے ان کے لیے اچھی جزاء ہے اور اس سے بھی زیادہ۔

آپ نے فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی نداء کرے گا کہ اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے، وہ کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کیے اور ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی اور ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا ؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : پھر حجاب کھول دیا جائے گا، آپ نے فرمایا : جنتیوں کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٦١، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٧، مسند احمد ج ٤ ص ٣٣٣۔ ٣٣٢ طبع قدیم)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت کا ادنیٰ درجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی جنتوں، اپنی بیویوں اور اپنی نعمتوں اور اپنے خادموں اور اپنی باندیوں کی طرف ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم وہ ہوگا جو صبح اور شام اسکے چہرے کی زیارت کرے گا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی :

وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۔ (القیامہ : ٢٢۔ ٢٣ )

کتنے ہی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔

امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن، صحیح، غریب ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٣ )

حضرت ابوبکر بن عبد اللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ جنتیں چاندی کی ہیں، ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں۔ ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سونے کا ہے اور ان لوگوں اور ان کے رب کے دیدار میں صرف اللہ کی کبریائی کی چادر ہے جو جنت عدن میں اس کے چہرے پر ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٧٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٣٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٦١١، مسند احمد رقم الحدیث : ٨٤٢٧، طبع جدید، مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٩۔ ٣٣٥، طبع قدیم، المستدرک ج ١ ص ٨٠)

شب معراج اللہ تعالیٰ کے دیدار کے متعلق علماء امت کے نظریات

علامہ ابو لعباس احمد بن عمر بن ابراہیم مالکی قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ ” صحیح مسلم “ کی شرح میں لکھتے ہیں :

متقدمین اور متاخرین کا اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے میں اختلاف رہا ہے۔ اکثر مبتد عین دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کا انکار کرتے ہیں اور اہل السنہ اور اہل السنف دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے جو از اور وقوع کے قائل ہیں۔ پھر اس میں بھی متقدمین اور متاخرین کا اختلاف ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں ؟ حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ابوہریرہ ، مشہور روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود، سلف صالحین اور متکلمین اور محدثین کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے اور سلف صالحین کی ایک عظیم جماعت نے یہ کہا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا بھی یہی مسلک ہے۔ انہوں نے کہا : حضرت موسیٰ کلام کے ساتھ خاص کیے گئے۔ حضرت ابراہیم خلت کے ساتھ اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رئویت کے ساتھ خاص کیے گئے، حضر ابو ذر، کعب، حسن بصری اور امام احمد بن حنبل کا یہی نظریہ ہے اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعود سے بھی ایک یہی روایت ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور انکے اصحاب کی ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے۔ مشائخ کی ایک جماعت نے توقف کا قول کیا ہے۔ انہوں نے کہا : اس کی نفی اور اثبات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے، لیکن یہ عقلاً جائز ہے اور یہی صحیح ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا عقلاً اور نقلا ً جائز ہے، عقلی دلائل علم کلام میں ہیں اور نقلی دلائل میں ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رئویت کا سوال کرنا ہے، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کا سوال نہ کرتے۔ نیز احادیث متواتر و سے یہ ثابت ہے کہ مؤمنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے۔ (المعجم ج ١ ص ٤٠٢۔ ٢٠١ مطبوعہ دارالسنن بیروت، ١٤١ ھ)

امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

عبد اللہ بن الحارث نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن ابی بن کعب (رض) کی ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عباس نے کہا : ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ پھر حضرت ابن عباس نے کہا : کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے اور دیدار سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو ؟ پھر حضرت ابی بن کعب نے بہت بلند آواز سے کہا : اللہ اکبر ! حتیٰ کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ پھر حضرت ابن عباس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے رئویت اور کلام کو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت موسیٰ علی نبینا و (علیہ السلام) کے درمیان تقیم کردیا ہے اور امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے کہ حسن بصری اللہ کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور ابو عمر الطلمن کی نے اس قول کو عکرمہ سے روایت کیا ہے اور بعض متکلمین نے اس قول کو حضرت ابن مسعود سے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ مردان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! اور نقاش نے امام احمد بن حنبل سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا : میں حضرت ابن عباس کی حدیث کے مطابق کہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

وہ بار بار کہتے رہے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے حتیٰ کہ امام احمد کا سانس منقطع ہوگیا۔ شیخ ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا بھی یہی نظریہ ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حضرت انس، حضرت ابن عباس، عکرمہ، ربیع اور حسن بصری کا بھی یہی نظریہ ہے۔ امام ابو العالیہ، قرطی اور ربیع بن انس کا یہ قول ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس اور عکرمہ سے بھی یہ قول منقول ہے۔ علامہ ابن عبدالبرنے امام احمد سے بھی اس قول کی حکایت کی ہے۔ امام مالک بن انس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں نہیں دکھائی دیتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور فانی آنکھوں سے باقی کو نہیں دیکھا جاسکتا اور جب مسلمان آخرت میں پہنچیں گے تو ان کو باقی رہنے والی آنکھیں دی جائیں گی تو پھر باقی آنکھوں سے باقی ذات کو دیکھ لیں گے۔ قاضی عیاض نے کہا : یہ عمدہ کلام ہے۔ اس دلیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہے، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی اس دنیا میں قدرت ضعیف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے، اتنی قدرت عطاء فرمادے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا بوجھ اٹھا سکے تو اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رئویت ممتنع نہیں ہے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٧ ص ٥٢۔ ٥١، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت عائشہ (رض) کے انکار رئویت کے جوابات

علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ ” صحیح مسلم “ کی شرح میں لکھتے ہیں :

صاحب تحریر کا مختاریہ ہے کہ ہماری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا : اس مسئلہ میں بہت دلائل ہیں، لیکن ہمارا استدلال اس قوی حدیث سے ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ کے لیے ہو اور رئویت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو ؟ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا : کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ! ایک معتمد سند کے ساتھ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اس مسئلہ میں دلیل حبر الامت حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث ہے۔ صحابہ کرام مشکل مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی اس مسئلہ میں ان سے رجوع کیا ہے اور ان سے یہ سوال کیا کہ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! دیکھا ہے، اور اس مسئلہ میں حضرت عائشہ (رض) کی مخالفت سے کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نہیں کیا کہ آپ نے فرمایا ہے : میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا، بلکہ انہوں نے خود قرآن مجید کی دو آیتوں سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے اور جب صحابی کا قول کسی دوسرے صحابی کے قول کے خلاف ہو تو اس کا قول حجت نہیں ہوتا اور جب حضرت ابن عباس (رض) سے صحیح سند کے ساتھ رئویت ثابت ہے تو اس روایت کو قبول کرنا واجب ہے کیونکہ یہ مسئلہ محض عقل سے نہیں جانا جاسکتا اور اس میں ظنی دلائل کافی ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) کے متعلق یہ گمان کرنا جائز نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے ظن اور اجتہاد سے یہ کہا ہے کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور معمر بن راشد نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ (رض) علم میں حضرت ابن عباس (رض) سے زائد نہیں ہیں اور حضرت ابن عباس نے ایک چیز کو ثابت کیا ہے جس کی دوسروں نے نفی کی ہے اور مثبت روایت نافی پر مقدم ہوتی ہے۔ ( صاحب تحریر کا کلام ختم ہوا) ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب ِ معراج سر کی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے، کیونکہ اس کو حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے اور یہ انہوں نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر ہی بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا استدلال صرف آیتوں سے ہے، پس سورة الانعام کی آیت : ١٠٣ کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ادراک بہ طور احاطہ کی نفی ہے اور سورة شوریٰ کی آیت : ٥١ سے جو انہوں نے استدلال کیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بلا حجاب رئویت کی نفی نہیں ہے، بلکہ بلا حجاب کلام کی نفی ہے اور رئویت کلام کو مستلزم نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہو اور دیدار کے وقت کلام نہ کیا ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں عام قاعدہ بیان کیا ہے اور عام مخصوص البعض ہے اور دو سے دلائل سے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس عام قاعدہ سے مخصوص اور مستثنیٰ ہیں۔ ( صحیح مسلم مع شرح النووی ج ١ ص ٩٨٣۔ ٩٨٦، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفی، ریاض، ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 18