تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

*امیر کو امیر تر بنانے کی شیطانی فلاسفی*

 

آج کل ہمارے لبرل دانش ور امیر کو امیر تر بنانے کی شیطانی فلاسفی کو بھر پور سپورٹ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں نت نئے فلسفے پیش کر کے سادہ عوام کو گم راہ کر رہے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جتنے زیادہ بلینز ( امیر ترین ) لوگ ہوں گے، جتنی زیادہ کمپنیاں ہوں گی اتنا زیادہ غریبوں کو نوکریاں ملیں گی ، کیونکہ حکومتیں سب غریبوں کو اکاموڈیٹ ( یعنی مالی سرپرستی ) کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں. لہٰذا امیروں پہ ٹیکس لگا لگا کر ان کی امیری کو نیچے لانا غریب دشمنی ہے.

 

حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ فلسفہ سوائے دھوکے اور سراب کے کچھ بھی نہیں . آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کہاں اور کیا گڑبڑ ہے.

 

اسلام کا کہنا یہ ہے کہ مال و دولت صرف امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتے رہیں بلکہ ان کا معاشرے کے تمام چھوٹے بڑے طبقات میں گردش کرنا ضروری ہے.

 

تمام طبقات میں گردش کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس مال و دولت ایک خاص حد سے تجاوز کر جائیں تو حکومت ان کی زکوۃ عشر فطرانہ قربانی اور صدقات نافلہ وغیرہ کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کو یقینی بنائے تاکہ ان کے اموال غریبوں کا سہارا بنیں.

 

اسلام بلا ضرورت حد سے زیادہ ٹیکس لگانے کو پسند نہیں کرتا، لہذا ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ غیر ضروری ٹیکس نہ لگائے جائیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بس ٹیکس نہ لگائے جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ امیروں پہ جو غریبوں کے لیے اسلام نے زکوۃ عشر وغیرہ لازم کیے ہیں ان کی ادائیگی کو زور بازو سے یقینی بنایا جائے.

 

موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں امیروں کے پاس دولت زیادہ آ جانے سے غریبوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ سخت نقصان ہوتا ہے، کیوں کہ بہت سے امیر لوگ وہ پیسہ یا تو دیگر ممالک منتقل کر دیتے ہیں یا پھر بینکوں میں سود پہ رکھ دیتے ہیں یا پھر ان سے منفی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں، مثلاً بڑے بڑے ڈانس شو، شراب و کباب، مخالفین کو کچلنا اور جرائم کی سرپرستی وغیرہ.

اس لیے اسلام کسی کے حد سے زیادہ زیادہ امیر ہونے کو برا جانتا ہے.

 

مال و دولت غریبوں تک پہنچانے کا یہ طریقہ اسلام کو قطعا پسند نہیں کہ آپ بڑے بڑے امیروں کا ایک طبقہ وجود میں لا کر بے شمار غریبوں کو ان کی نوکری ملازمت اور غلامی میں دے دیں اور پھر کہیں کہ غریبوں کا بھلا ہو گیا ، سرکاری و غیر سرکاری نوکریاں بس ایک خاص حد تک ہی کافی ہیں. غریبوں کا سہارا بننے کے درج ذیل طریقے ہیں:

 

زرعی زمین کو مناسب حصوں میں تقسیم کر کے لوگوں کو ان کے مالکانہ حقوق دیے جائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ زمینوں کے مالک بنیں اور ان پہ محنت کر کے کمائیں کھائیں.

 

سرکاری یا امیر ترین لوگوں کی ملکیت میں بڑی بڑی فیکٹریاں وجود میں لا کر لاکھوں لوگوں کو ملازم بنا کر تھوڑی تھوڑی تنخواہیں دینے کی بجائے ان فیکٹریوں کے امور کو چھوٹے چھوٹے یونٹس میں تبدیل کر کے لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا جائے، اس طرح کام بھی بہتر سامنے آئے گا اور لوگوں کی ملکیتوں میں بھی اضافہ ہو گا.

 

بینکوں کے سودی قرضوں کے نظام کو کلیتا جڑ سے اکھاڑ دیا جائے، کیونکہ یہی وہ مالی اژدہا ہے جو امیروں کی امیری میں خطرناک حد تک اضافہ کرتا ہے اور غریبوں کو تھوڑی تھوڑی تنخواہوں کے عوض ان کی ملازمت میں لاتا ہے، اس کی بجائے عوام کو مختلف پیشوں کی ٹریننگ دے کر غیر سودی قرضے جاری کر کے ان کی تجارتی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے.

 

بڑے بڑے شاپنگ مال قطعا معاشرے کے اجتماعی مفاد میں نہیں ہیں، ان پہ پابندی عائد کر دی جائے، کیونکہ وہ معدودے چند لوگوں کو مضبوط کرتے ہیں اور نچلے طبقے کے کاروبار کو خراب کرتے ہیں، ان کی بجائے زیادہ سے زیادہ انفرادی ملکیتوں کے کاروبار کو فروغ دیا جائے، یعنی سادہ لفظوں میں ملازموں کی فوج تیار کرنے کی بجائے تاجروں کی فوج تیار کی جائے.

 

جب دولت مالکانہ بنیادوں پر معدودے چند لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچے گی تو اس سے مثبت سرگرمیوں کو فروغ ملے گا.. اور اگر چند ایک امیروں کے ہاتھوں میں بلاک رہی تو وہ منفی سرگرمیوں کا سبب بنیں گے، جیساکہ اس وقت ہم معاشرے میں دیکھ رہے ہیں.

 

تفصیل کے لیے ہمارا مقالہ “اسلام کا معاشی نظام ” ملاحظہ ہو.