صلح کلی کی حقیقی تعریف
مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب زید مجدُہ
۔
عنوان : صلح کلی کی حقیقی تعریف
۔
آجکل کراچی کا مذہبی ماحول کافی گرم ہے ۔ماحول کو گرم رکھنے میں یہ کرم نوازی پاکستان کے صوبہ پنجاب کی طرف سے ہورہی ہے ۔اہلیانِ پنجاب بالخصوص لاہور، پنڈی، فیصل آباد والوں کو خدا سلامت رکھے جنکی بدولت مذہبی اور سیاسی سطح پر کرم نوازیاں دیگر صوبوں کے شہروں پر وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔
۔
حالیہ دنوں کرم نوازیوں کی برسات مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان صاحب کی ذاتِ عالی پر برس رہی ہے ۔سوشل میڈیا پر ایک پورا غول مفتی صاحب کے عزت کے درپے ہے ۔الغرض ایک ہنگامہ برپا ہے اور ہنگامہ آرائی کرنے والے لوگ خود کو اعلیٰ حضرت امام اھل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلی رحمۃ اللہ کا فکری وارث بتارہے ہیں خود کو ٹنا ٹن سنی کہہ ہیں ۔
۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام اھل سنت رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق اگر سُنّی صحیح العقیدہ عالم دین جس کی تحریر وتقریر سے لوگوں کو دینی اعتبار سے نفع پنہچ رہا ہو ، اُس سے بتقضائےبشریت کوئ لغزشِ فاحش سرزد ہوجائے اور وہ غلطی کفر بھی نہ ہو، نہ اُس کے سبب ضروریاتِ مذھب اھل سنت میں سے کسی ضرورت کا خلاف لازم آرہا ہو تو ایسی صورت میں شرع کہتی ہے غلطی کو مخفی رکھنا واجب ہے ۔لغزشِ فاحش کو بنیاد بناکر اُس عالم دین کی عزت خراب کرنا اشاعتِ فاحشہ ہے اور اشاعتِ فاحشہ بنصِ قطعی حرام ہے ۔
۔
اگر غلطی ایسی ہو جس سے دین کے کسی حکم کا بدل جانا لازم آتا ہو تو دیگر علماء حق پر لازم ہے کہ اُس عالم دین کو احسن انداز میں سمجھائیں، حکمتِ عملی سے اُس پر نَکِیْر کریں ۔جب احسن صورتوں میں سے کسی صورت اصلاح ممکن نظر نہ آئے تو عوام میں اُس کی بدمذھبی یا کفر واضح کریں تاکہ لوگوں کا ایمان اُس کے شر سے محفوظ رہے ۔۔۔
۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمجھانے کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی غلطی کی نشاندہی یوں فرماتے ” مابالُ اقوامٍ یفعلون کذا وکذا ” لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اِس اِس طرح کرتے ہیں ۔
۔
ہنگامہ آرائی کرنے والوں سے گزارش ہے کہ پہلے غلطی کی نشاندہی کریں کہ مفتی صاحب سے کس قسم کی غلطی سرزد ہوئی ہے ۔
۔
ہمارے زمانے میں صلح کلی کی اصل تعریف پر توجہ کم ہے ۔صلح کلی کی من پسند تعریف کی تشہیر عام ہے ۔
۔
حق وباطل کا فرق مٹاکر اِلْتِباسُ الْحق بِالْباطِلْ کا مُرتَکِبْ ہو کر صلحِ کل بن جانا یقیناً مردود عمل ہے ۔
۔
جس شخص سے ہماری نہیں بنتی وہ اگر صُلحِ کل بن جائے تو ہماری غیرتِ ایمانی جاگ جاگتی ہے ،حسام الحرمین شریف اور تمھیدالایمان شریف کے مندرجات ہمیں نظر آجاتے ہیں۔
۔
ناپسند شخصیات کا صلح کل بن جانے پر “مَنْ شکّ في کفرہ وعذابہ فقد کفر ” کی عبارت ہماری وردِ زبان بن جاتی ہے ۔
۔
اگر ممدوح شخصیات میں سے کسی سے غلطی سرزد ہوجائے جس سے صلح کل بن جانا لازم آتا ہو اور وہ ممدوح شخصیت اُس غلطی پر قائم بھی رہے تو اُس وقت ہماری زبانیں گونگی ہوجاتی ہیں، ہم چشم پوشی سے کام لیتے ہیں یعنی ممدوح شخصیات سے غلطی سرزد ہونے اور پھر اُس غلطی پر قائم رہنے پر ہم لوگ شریعت کا حکم ظاہر نہیں کرتے ۔۔۔۔
۔
حق وباطل کا فرق مٹاکر طواغیتِ اربعہ اور اُن کے متبعین کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا، اُن سے محبت بھرے تعلقات رکھنا بھی صلح کلی ہے ایسے ہی سیاسی شخصیات جو بتوں کی تعظیم کرتے ہیں، ہولی دیوالی کے دنوں بتوں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں ،سِکھوں کے گوردواروں میں اُن کے مذھبی تہوار سیلیبریٹ کرتے ہیں اِن کی غلطیوں سے چشمِ پوشی کرنا، اِن سے محبت بھرے تعلقات رکھنا، اِن کو سرْسرْ کہنا بھی تو صلح کلی ہے ۔
۔
حسام الحرمین اور تمھیدالایمان شریف کے دروس کا خلاصہ یہی ہے کہ ہر وہ شخص جو التزام کفر کرے، مرتد ہوجائے اُس سے تعلق رکھنا حرام حرام اشد حرام اور منافئ ایمان ہے وہ چاہے طواغیتِ اربعہ اور اُن کے ہمنوا ہوں یا پھر کوئ سیاسی یا مذھبی شخصیت ۔۔
۔
اللّھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارناالباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ۔
✍️ ابوحاتم
11/01/2022/