*اتر پردیش کے مسلمان بہار جیسی غلطی نہ کریں -*

تحریر :محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف

چیئرمین :تحریک علمائے بندیل کھنڈ

 

آقا علیہ السلام فرماتے ہیں “لا یلدغ المؤمن فی جحر مرتین” مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، حضور حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک بار دھوکا کھائے تو سنبھل جائے، نصیحت پکڑے اور دوبارہ دھوکا نہ کھائے – اس حدیث کو پیش نظر رکھیں اور آنے والے اعدادوشمار ملاحظہ فرمائیں اور پھر خود فیصلہ کریں کہ اتر پردیش میں ہونے والے الیکشن میں ہمیں کیا کرنا چاہیے –

 

بہار الیکشن 2015 :

2015 کا الیکشن کل 243 سیٹوں پر ہوا تھا، حکومت سازی کے لیے 122 سیٹیں درکار تھیں۔

 

ان انتخابات میں لالو یادو کی آر جے ڈی اور نتیش کمار کی قیادت والی جے ڈی (یو) نے 101-101 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا ۔جبکہ کانگریس نے 41 اور بی جے پی نے 157 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔

 

انتخابی نتائج کے بعد آر جے ڈی 80 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ اس کے بعد جے ڈی یو کو 71 سیٹیں اور بی جے پی کو 53 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ ان انتخابات میں کانگریس کو محض 27 سیٹیں ملی تھیں ۔

 

ان انتخابات میں مہا گٹھبندھن کی حکومت بنی اور نتیش کمار کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ لیکن یہ حکومت زیادہ دنوں تک نہ چل سکی اور 2017 میں جے ڈی (یو) عظیم اتحاد سے الگ ہو گیا، حاشیے پر چل رہی بی جے پی کو جیسے صحرا میں سوئی مل گئی اور اس نے فوراً نیتیش کمار کو سمرتھن دے دیا، اس طرح نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی اور مدت پوری کی، پھر ان دونوں نے 2020 میں مل کر حکومت بنا لی، لیکن اس بار نیتیش کمار پیچھے اور بی جے پی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے – اگر بہار کے مسلمان 2015 میں مجلس کا ساتھ دیتے تو 2020 کا نقشہ کچھ اور ہوتا –

 

*مسلمانوں کے لئے سبق*

نیتیش کمار نے ووٹ مہا گٹھبندھن کا لیا اور گود میں بی جے پی کی بیٹھ گیے، لالو، کانگریس ،مسلمان دیکھتے رہ گیے، اس میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا، 2017 سے 20 تک بہار میں وہ سب ہوا جو بی جے پی چاہتی تھی، اور اسی لیے بی جے پی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے، اور آگے اس کی راہ آسان ہونا یقینی ہے –

بہار میں مسلمانوں کا ووٹ برباد گیا، کیونکہ وہاں عظیم اتحاد کو یک طرفہ ووٹ کیا اور نتیجہ غلط ہوا، کاش ہم مسلم قیادت کو تھوڑی توجہ دیتے تو نتیجہ کچھ بھی ہوتا، 2020 میں مسلم قیادت بہار اور بنگال ہوتے ہوے اتر پردیش میں مضبوط ہو چکی ہوتی – الیکشن ایک صوبے کا نہیں ہوتا، الیکشن تو ملک کی سیاست کا رخ موڑنے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے مسلمانوں کا یہ سمجھنا کہ یہ محض یوپی، بہار، بنگال ،مہاراشٹر وغیرہ کا الیکشن ہے نہایت غلط ہے، ایک الیکشن ہر آنے والے الیکشن کا پیش خیمہ ہوتا ہے، جتنا ہم اپنی قیادت کو توجہ دیں گے اتنا ہی پورے ملک میں مضبوط ہونگے –

بہار کی طرح اگر ہم اتر پردیش میں بھی SP, RLD اور سبھا سپا یعنی راج بھر کے مشترکہ اتحاد کو یک طرفہ سپورٹ کرتے ہیں اور ان دونوں کے صدر جینت چودھری اور اوم پرکاش راج بھر اگر اپنے پرانے ساتھی یعنی بی جے پی کی طرف چلے جاتے ہیں تو ایسے میں ہمارے یا اکھلیش کے پاس کیا رہ جائے گا – ظاہر ہے کہ راج بھر بھروسے کے لائق نہیں، انھیں اگر مرکزی حکومت میں جگہ مل جاتی ہے تو وہ اپنی قوم کے لیے تھوڑا بہت لے کر بی جے پی میں جانا پسند کریں گے، یونہی راشٹریہ لوک دل بھی بی جے پی کی پرانی اتحادی رہی ہے، انھیں اگر بی جے پی مرکز میں لے جاتی ہے یا نائب وزیر اعلیٰ بناتی ہے تو یہ بھی کھسک جائیں گے –

 

ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہر سیکولر پارٹی کے ایم ایل اے، ایم پی کتنی آسانی سے پالا بدل رہے ہیں اور بدلتے رہے ہیں، ہم نے مدھیہ پردیش میں دیکھا، کس طرح کانگریس کی حکومت بنی، اور پھر ختم بھی ہوگئی، ہم نے گووا بھی دیکھا جہاں کانگریس مضبوط تھی پر حکومت بی جے پی کی بنی، اس کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہوا ہے – جب کہ یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر مسلم قیادت مضبوط ہوتی ہے تو وہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ہی اتحاد کرے گی، پھر بھی اپنی قیادت کو یکسر خارج کرنا سمجھ سے پرے ہے –

 

*مسلمان کیا کریں؟

 

اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مخصوص سیٹوں پر اویسی کی حمایت کریں اس سے دو فائدے ہونگے –

(1) اگر اویسی جیتے تو اکھلیش کو ہی سپورٹ کریں گے اور سرکار میں حصے داری ملے گی –

(2) اگر اویسی جیتے اور سرکار بی جے پی کی بنی تب بھی ہماری قیادت کھڑی ہو جائے گی ، جو انڈیا کی سیاست کو ایک نیا رخ دے گی، 2024 اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں ہماری طاقت بڑھے گی اس طرح ہم پورے ملک میں مضبوط ہونگے –

اگر ہم اویسی صاحب کو یکسر مسترد کرتے ہیں تو بھی دو نقصان ہونگے –

(1) سماجوادی حکومت بننے کے بعد بھی ہمیں کچھ نہیں ملنے والا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے،اور پھر سماجوادی زیادہ ظلم کرے گی کیوں کہ جو متبادل ابھر رہا تھا وہ ہم خود ختم کرچکے ہونگے، ایسے میں یا تو مسلم ایم ایل اے پارٹی میں چپ چاپ رہیں یا پھر باہر ہو جائیں –

 

(2) مسلم ایم ایل کی کثرت مظفر نگر فسادات کی طرح ہی خاموش رہے گی، کیونکہ اب انکے پاس متبادل بھی نہیں ہوگا ، نیز قوم مسلم ایک بار پھر ابھرتی قیادت سے محروم ہو جائے گی، پھر کب ابھرے کون جانے؟ یہ نقصان صرف اتر پردیش کو نہیں ہوگا بلکہ پورے ملک میں مسلم قیادت پر پڑے گا، اور سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کامیاب نہ ہونے دینے والی اپنی چال میں پھر کامیاب ہو جائیں گے، نوجوانوں اور لیڈروں کی ہمت ٹوٹے گی، اور خواہی نخواہی پھر انھیں سیکولر پارٹیوں کی طرف جانا ہوگا –

16/1/2022