》》مولا علی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج کو پلٹانا اور اس روایت کی اسنادی تحقیق اور ائمہ محدثین کا موقف!!!

 

●امام ابن عساکر روایت کرتے ہیں

 

▪︎ورواهُ ابْن شاهين حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن سَعِيد الْهَمدَانِي.

حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن يَحْيَى الصُّوفِي حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بْن شريك حَدَّثَنَا أبي عَن عُرْوَة بْن عَبْد الله بْن قُشَيْر عَن فَاطِمَة بِنْت عَلِيّ بْن أبي طَالب عَن أَسمَاء بِه ۔۔۔۔ِ الخ

 

[تاريخ دمشق لابن عساكر : 314/42، الموضوعات لابن الجوزي : 356/1، اللآلي المصنوعة للسيوطي : 338/1]

 

●اس روایت پرامام ابن کثیر ؒ نے جو اعتراض کیے وہ درج ذیل ہیں :

 

¤اس سند میں ایک بنیادی راوی محدث ابن عقدہ ہیں اور اس پر کچھ محدثین نے انکے شیعہ ہونے کی وجہ سے تعصب میں جروحات کی تھیں اور انکو چور اور رافضی پتہ نہیں کیا کیا بنا کر رکھ دیا

 

امام ابن کثیر سے انکے بارے پہلے تفصیل نقل کرتے ہیں :

 

وفيها توفي من الأعيان أبو العباس بن عقدة الحافظ.

▪︎أحمد بن محمد بن سعيد بن عبد الرحمن أبو العباس الكوفي المعروف بابن عقدة، لقبوه بذلك من أجل تعقيده في التصريف والنحو، وكان أيضا عقدة في الورع والنسك، وكان من الحفاظ الكبار، سمع الحديث الكثير ورحل فسمع من خلائق من المشايخ، وسمع منه الطبراني والدارقطني وابن الجعابي وابن عدي وابن المظفر وابن شاهين.

 

قال الدارقطني: أجمع أهل الكوفة على أنه لم ير من زمن ابن مسعود إلى زمان ابن عقدة أحفظ منه، ويقال إنه كان يحفظ نحوا من ستمائة ألف حديث، منها ثلاثمائة ألف في فضائل أهل البيت، بما فيها من الصحاح والضعاف، وكانت كتبه ستمائة حمل جمل، وكان ينسب مع هذا كله إلى التشيع والمغالاة.

قال الدارقطني: كان رجل سوء.

ونسبه ابن عدي إلى أنه كان يعمل النسخ لأشياخ ويأمرهم بروايتها.

▪︎قال الخطيب: حدثني علي بن محمد بن نصر قال: سمعت حمزة بن يوسف، سمعت أبا عمر بن حيويه يقول: كان ابن عقدة يجلس في جامع براثى معدن الرفض يملي مثالب الصحابة – أو قال الشيخين – فتركت حديثه لا أحدث عنه بشئ.

▪︎ابن عقدہ ایک کبار حفاظ الحدیث میں سے ایک تھے اور یہ کثرت سے احادیث کا سماع کرنےوالے تھے اور ان سے اپنے وقت کے مشائخ نے روایت کیا ہے جسیا کہ امام دارقطنی ، امام ابن عدی ، امام طبرانی ، ابن الجعانی ، اور ابن عدی اور امام ابن شاھین وغیرہم نے

 

امام دارقطنی کہتے ہیں تمام اہل کوفہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے بعد کے زمانے کے بعد شیخ ابو العباس ابن عقدہ سے بڑا حافظ الحدیث نہیں دیکھا گیا ۔

 

پھر دارقطنی نے کہا کہ یہ برا آدمی تھا (رفض کی طرف اشارہ ہے )

 

اور ابن عدی نے انکی نسبت یہ کلام بھی نقل کیا ہے کوفیٰ کہ بعض لوگوں نے انکے نسخے لکھ کر دیے اور انکو بیان کرنے کا کہا

 

خطیب نے ابو عمرہ کا یہ کلام نقل کیا ہے کہ ابن عقدہ صحابہ کرام کی خامیاں املاء کروایا کرتا تھا حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، کی خامیاں املاء کروایا کرتا تھا اس لیے میں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا

[البداية والنهاية، جلد 11، ص 236]

 

●اب امام ابن کثیر سے اس رویت پر جرح پیش کرتے ہیں جو انہوں نے ابن عقدہ کو ررافضی سمجھتے ہوئے اس روایت کا رد کیا

 

امام ابن کثیر کہتے ہیں :

 

وقال الشيخ أبو الفرج بن

▪︎الجوزي في الموضوعات: وقد روى ابن شاهين هذا الحديث عن ابن عقدة فذكره، ثم قال: وهذا باطل، والمتهم به ابن عقدة، فإنه كان رافضيا يحدث بمثالب الصحابة، قال الخطيب: ثنا علي بن محمد بن نصر، سمعت حمزة بن يوسف يقول: كان ابن عقدة بجامع براثا يملي مثالب الصحابة أو قال: الشيخين فتركته، وقال الدارقطني: كان ابن عقدة رجل سوء، وقال ابن عدي: سمعت أبا بكر بن أبي غالب يقول: ابن عقدة لا يتدين بالحديث لأنه كان يحمل شيوخا بالكوفة على الكذب فيسوي لهم نسخا ويأمرهم أن يرووها، وقد بينا كذبه عن غير شيخ بالكوفة

▪︎اور شیخ ا بن جوزی نے موضوعات میں یہ (رد الشمس) روایت کی ہے ابن شاھین کے حوالے سے جو کہ وہ اپنے شیخ ابن عقدہ سے بیان کنرتے ہیں اور پھر (ابن جوزی) نے کہ یہ روایت باطل ہے اور ابن عقدہ کو متہم راوی قرار دیا ہے انہوں نے کہ یہ رافضی تھا جو کہ صحابہ کے مثالب بیان کرتا تھا جیسا کہ خطیب نے حمزہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن عقدہ جامع مسجد میں مثالب صحابہ نقل کرتا تھا اور میں نے اسکو ترک کر دیا ، اور دارقطنی نے کہا اسکا دین صحیح نہیں اور ابن عدی کہتے ہیں میں ابو بکر غالب سے سنا کہ ابن عقدہ کو کوفیٰ کے بعد لوگوں نے جھوٹی روایات نسخے میں لکھ کر دیں اور کہا انکو بیان کرو اور یہ بیان کرنے لگ گیا

[البداية والنهاية جلد6 ، ص 87]

 

●معلوم ہوا کہ ابن کثیر نے یہاں ابن جوزی جیسے بندے کی جامد تقلید کی ہے اور ابن عقدہ پر تمام ناقدین کے کلام جو کہ مبہم جروحات پر مبنی تھا اسکو قبول کیا اور ابن عدہ کو روافض کی لسٹ میں ڈال دیا

 

اور امام ابن کثیر نے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ :

قلت : ھذا لحدیث ضعیف و منکر من جمیع طرقة فلا یخلو واحدة عن شیعی ومجهول الحال و شیعیٰ و متروک

▪︎میں کہتاہوں کہ یہ حدیث ضعیف و منکر ہے اپنے سارے طریق سے کیونکہ اسکی کوئی بھی سند شیعہ مجہول الحال یا شیعہ متروک الحدیث راوی سے خالی نہیں

 

●اور یہی موقف ابن تیمیہ کا تھا جیسا کہ وہ کہتا ہے

وکان من جما لاکاذیب الشیعة

▪︎کہ ابن عقدہ حفظ الحدیث کے ساتھ شیعہ کا جھوٹ بھی جمع کرنے والا تھا

[منہاج السنہ ابن تیمیہ]

 

●یعنی کے ان لوگوں کے پاس بس یہی مواد تھا کہ جی یہ روایات نقل کرتا تھا مثالب صحابہ میں دارقطنی نے یوں کہا اور خطیب یہ نقل کیا یعنی صیغۃ مجہول اور عدم ثبوت کی بنا پر فقط ایسی فضول روایات کی ببا پر ابن عقدہ کو رافضی قرار دے دیا

 

《●》اب ہم تمام ناقدین سے پیش کرتے ہیں کہ احمد بن محمد بن العقدہ فقط شیعہ تھا یا رافضی تھا ؟

 

¤امام ابن عدی سے توثیق :

أحمد بن مُحَمد بن سَعِيد أبو العباس الهمداني.يعرف بابن عقدة، كان صاحب معرفة وحفظ، ومقدم في هذه الصناعة، إلاَّ أني رأيت مشايخ بغداد مسيئين الثناء عليه.

 

امام ابن عدی کہتے ہیں کہ ابن عقدہ صاحب معرفت تھا اور حافظ اور اس علم میں مقدم تھے اور میں نے بغداد کے مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ انکی تعریف کرتے تھے

 

اسکے بعد امام ابن عدی ایک دو اور جروحات بھی نقل کرتے ہیں جنکو امام ابن کثیر و ابن جوزی نے انکے حوالے سے نقل کیا جو اوپر ہم بیان کیا اسکے بعد امام ابن ان جروحات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

ولم أجد بدا من ذكره لأني شرطت في أول كتابي هذا؛ أن أذكر فيه كل من تكلم فيه متكلم ولاَ أحابي، ولولا ذاك لم أذكره للذي كان فيه من الفضل والمعرفة.

اگر میں نے یہ شرط عائد نہ کی ہوتی (اس کتاب الضعفاء میں) کہ میں ہر اس راوی کا تذکرہ کرونگا جس کے بارے میں کلام کیا گیا ہے ہے تو میں اس (ابن عقدہ )راوی کا تذکرہ نہ کرتا (اس ضعفاء والی کتاب میں)کیونکہ اس میں فضٰلت اور معرفت پائی جاتی ہے

[الکامل فی ضعفاء الرجال ابن عدی برقم: 53]

 

●ابن عدی جو کہ دارقطنی کے مقابل غیر متعنت ہیں اور یہ زیادہ سماع کرنے والے ہیں ابن عقدہ سے تو انکے کلام کا بالکل نظر انداز کرنا انصاف نہیں تھا

 

●امام ذھبی سے ابن عقدہ پر رافضیت کے الزام کا رد

امام ذھبی ابن عقدہ کا ترجمہ میزان میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أحمد بن محمد بن سعيد بن عقدة الحافظ أبو العباس، محدث الكوفة، شيعي متوسط.ضعفه غير واحد، وقواه آخرون.

احمد بن سعید ابن عقدہ جو کہ کوفیٰ کے محدث تھے اور (حدیث میں ) متواسط یعنی درمیانے درجے کے شیعہ ہیں

اور انکو کئی لوگوں نے ضعیف قرار دیا ہے اور بعد والوں نے قوی قرار دیا ہے

 

▪︎پھر امام ذھبی ابن عدی کی تعدیل کو نقل کرنے کے بعد یہ بھی لکھتے ہیں :

 

، ثم لم يسق ابن عدي له شيئا منكرا.

 

پھر ابن عدی نے (ابن عقدہ) کی کوئی بھی منکر روایت نقل نہیں کی ہے

[میزان الاعتدال ، ص 137]

 

سیر اعلام میں فرماتے ہیں:

أبو العباس الكوفي الحافظ العلامة، أحد أعلام الحديث، ونادرة الزمان، وصاحب التصانيف على ضعف فيه، وهو المعروف بالحافظ بن عقدة.

▪︎ابو عباس کوفیٰ کے محدث اور اعلام میں سے ایک تھے جنکی مثل زمانے میں بہت کم ہیں اور انکی تصانیف بھی ہیں ان میں کمزوری ہے اور یہ ابن عقدہ کی نسبت سے معروف ہیں

 

●اسکے بعد امام ذھبی انکی مثالب صحابہ کی روایت نقل کرنے کی وجہ سے ان پر رافضیت کے الزام کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قلت: قد رمي ابن عقدة بالتشيع، ولكن روايته لهذا ونحوه، يدل على عدم غلوه في تشيعه، ومن بلغ في الحفظ والآثار مبلغ ابن عقدة

▪︎میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ ابن عقدہ شیعت کی طرف مائل تھے لیکن اس طرح کی روایات (جس میں مثالب نقل کرنے کا الزام ہے ) اس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ شیعت میں غلو نہیں رکھتے تھے

[سیر اعلام النبلاء، جلد 15 ، ص 554]

 

●اور تذکرہ الحفاظ میں امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں :

▪︎ابن عقدة حافظ العصر والمحدث البحر أبو العباس أحمد بن محمد بن سعيد الكوفي وكان إليه المنتهى في قوة الحفظ وكثرة الحديث

▪︎ابن عقدہ جو حافظ العصر محدث البحر تھےاور یہ قوط حفظ اور کثرت الحدیث کے حوالے سے بہت اعلی درجے پر فائز تھے

 

قلت: ما يملي ابن عقدة مثل هذا إلا وهو غير غال في التشيع، ولكن الكوفة تغلي بالتشيع وتفور

▪︎میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ ابن عقدہ اس جیسی عبارات املاء نہیں کراتا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تشیع میں غالی نہیں تھے لیکن کوفہ شیعوں(غالی و رفض )سے ابل اور بھڑک رہا تھا

[تذکرہ الحفاظ الذھبی برقم:860]

 

●یعنی امام ذھبی نے انکو متواسط درجے کا یعنی صدوق درجے کا شیعہ راوی مانا ہے جسکی روایت مقبول ہوتی ہے سوائے اسکے مذہب کی تائید میں تو ابن کثیر ، ابن تیمیہ اور ابن جوزی کے اس روایت کے اس خاص سند پر ابن عقدہ کا یہ اعتراض تو فضول ثابت ہوا

 

●امام ابن حجر عسقلانی سے ابن عقدہ کے حفظ اور عدالت یعنی رفض کے الزام کا رد

 

امام ابن حجر عسقلانی ایک روایت پر امام بیھقی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

الْعَبَّاسِ الْهَمْدَانِيّ هُوَ ابْنُ عُقْدَةَ حَافِظٌ كَبِيرٌ إنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِ بِسَبَبِ الْمَذْهَبِ وَلِأُمُورٍ أُخْرَى وَلَمْ يُضَعِّفْهُ بِسَبَبِ الْمُتُونِ أَصْلًا فَالْإِسْنَادُ حَسَنٌ

▪︎ابو عباس ھمدانی جو کہ ابن عقدہ ہیں جو کہ حافظ الکبیر ہیں انکے بارے جو کلام کیا گیا ہے وہ انکے مذہب کی وجہ سے ہے اور ان سے مروی اس سند سے یہ حسن ہے

[تلخیص الحبیر ، ص ز373]

 

●اسی طرح امام خطیب بغدادی کہتے ہیں :

وکان حافظ علما مکثرا وروی عنہ االحفاظ الاکبر مثل الجعانی ، طبرانی ، ابو حسن دارقطنی و ابن شاھین ۔

▪︎یہ ابن عقدہ حافظ اور عالم تھے بہت زیاہ بیان کرنے والے تھے اور ان سے بیان کرنے والے بڑے حفاظ میں سے ہیں جیسا کہ دارقطنی ، الجعانی ، اور ابن شاھین وغیرہ کے طبقے کے محدثین

[تاریخ بغداد ]

 

●تو یہ راوی صدوق درجے کا ہے اور متواسط شیعہ ہے جیسا کہ امام الاعمش و حاکم اور اما م محمد بن اسحاق تھےتو یہ علت تو ختم ہوئی

 

▪︎باقی ابن کثیر نے ابن جوزی سے آگے اعتراض عبدالرحمن بن شریک پرجرح نقل کیا کیا کہ انکو امام ابو حاتم نے واھی الحدیث قرار دیا ہےتو عرض ہے ابن جوزی کو راوی پر فقط جرح نظر آتی تھی ؟ کیا اسکی آنکھیں راوی پر توثیقی کلام پر بند تھیں ؟

 

●ابن شریک کے بارے محدثین کا کلام درج ذیل ہے :؂؂؂

 

▪︎متشدد ناقد ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا اور کہا کبھی کبھار غلطی کر جاتا

 

عبد الرَّحْمَن بن شريك بن عبد الله النَّخعِيّ من أهل الْكُوفَة يروي عَن أَبِيه روى عَنهُ أَبُو شيبَة بن أبي بكر بن أبي شيبَة والكوفيون رُبمَا أَخطَأ

[الثقات بن حبان 13953]

 

▪︎اور امام ابن حجر نے بھی اسکو صدوق قرار دیا ہے

عبدُ الرحمن بن شريك بن عبدِ الله النَّخَعي، الكوفيُّ: صدوقٌ يُخطئُ،

[تقریب التہذیب]

 

●اور یہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں یعنی شریک جو کہ فی نفسی صدوق ہیں اور متابعت میں انکو لینے میں کوئی حرج نہیں

جیسا کہ امام ابن حجر کا انکو صدوق اور کثیر اغلط کی جرح پر علامہ شعیب الارنووط لکھتے ہیں :

▪︎شَرِيك بن عبد الله النَّخَعي، الكوفي، القاضي بواسط، ثم الكوفة، أبو عبدِ الله: صدوقٌ، يخطئُ كثيرًا، تَغَيَّر جفْظُه منذ وُلِّي القضاءَ بالكوفة، وكان عادلًا فاضلًا عابدًا، شديدًا على أهل البِدَعِ،

بل: صدوقٌ حسن الحديث عند المتابعهْ

[تحریر تقریب التہذیب ]

 

●اسکی متابعت بھی موجود ہے ابن عقدہ کی کہ یہ منفرد بھی نہیں

أَبُو الْحَسَن عَلِيّ بْن إِبْرَاهِيم بْن إِسْمَاعِيل بْن كَعْب الدقاق بالموصل حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن جَابِر الأودي حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بْن شريك حَدَّثَنَا أبي حَدَّثَنَا عُرْوَة بْن عَبْد الله ۔۔۔۔ الخ

▪︎اسی لیے امام سیوطی خصائص الکبری میں فرمایا کہ ابن عقدہ کے بعض طریق صحیح کی شرط پر ہیں

 

●دوسری سند جو امام طبرانی نے بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے :

حدثنا جعفر بن أحمد بن سنان الواسطي، ثنا على بن المنذر، ثنا محمد بن فضيل، ثنا فضيل بن مرزوق، عن إبراهيم بن الحسن، عن فاطمة بنت علي، عن أسماء بنت عميس،

▪︎اس روایت کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن ابراہیم بن حسن مجہول الحال ہے یہ اعتراض ہوتا ہے لیکن یہ منفرد نہیں فاطمہ بنت علی سے بیان کرنے میں اسکی بھی متابعت موجودہے

 

●حدثنا إسماعيل بن الحسن الخفاف، ثنا أحمد بن صالح، ثنا محمد بن أبي فديك، أخبرني محمد بن موسى الفطري، عن عون بن محمد، عن أم جعفر، عن أسماء بنت عميس،

[المعجم الکبیر برقم: 382, 391]

 

● اب اس روایت میں عون بن محمد پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ مجہول الحال ہے تو عرض ہے کہ کیا اس روایت جسکے ۱۰ سے زیادہ طریق ہیں ان میں عون اور ابراہیم ایک دوسرے کو تقویت کس اصول سے نہیں دے رہے ؟

 

《●》اس میں کوئی ایک منفرد نہیں تو کذب کا اعتراض کس کس پر لگایا جائے گا ؟

جبکہ عون بن محمد کی روایت بھی متابعت میں حسن ہوتی ہے جیسا کہ امام ابن حجر نے عون کو مقبول قرا ر دیا ہے جسکی روایت متابعت و شواہد میں حسن بنتی ہے

 

اور انکی روایت اسماء سے حسن قرار دی ہے جیسا کہ

 

《●》ابن حجر ایک روایت کے تحت فرماتے ہیں :

امام بیھقی عون بن محمد کی روایت سنن کبری میں بیان کرتے ہیں

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصفار، ثنا موسى بن هارون، ثنا قتيبة بن سعيد، ثنا محمد بن موسى المخزومي، ثنا عون بن محمد بن علي بن أبي طالب، عن أمه أم جعفر بنت محمد بن جعفر، أظنه وعن عمارة بن المهاجر، عن أم جعفر، أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: ” يا أسماء، إذا أنا مت فاغسليني أنت وعلي بن أبي طالب “. فغسلها علي، وأسماء رضي الله عنهما “

اور اسکی روایت کے بارے امام ابن حجر تلخیص میں فرماتے ہیں :

▪︎وَرَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

[لخیص الحبیر]

 

《●》اس لیے امام ابن حجر عسقلانی اس مذکورہ روایت کے بارے فرماتے ہیں :

▪︎لَكِنْ وَقَعَ فِي الْأَوْسَطِ لِلطَّبَرَانِيِّ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الشَّمْسَ فَتَأَخَّرَتْ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

 

لیکن یہ روایت الاوسط طبرانی میں موجود ہے جابر کی حدیث سے جسکی اسناد حسن ہیں

[فتح الباری شرح صحیح بخاری ابن حجر عسقلانی ، جلد 6 ص 221]

 

●جب کچھ نہیں بچا تو ابن کثیر و ابن تیمیہ نے یہ فضول سا اعتراض جڑ دیا کہ ابراہیم نے معلوم نہیں سنا ہے عون نے ام جعفر سے سنا ہے یا نہیں اور انکا سماع اسماء سے ہے یا نہیں یہ تو بہت ہی جہالت بھرا اعتراض ہے جب راویان معرو ف ہیں ایک زمانے کے اور انکے متابع بھی موجود ہیں تفرد کا مسلہ بھی نہیں اسکے باوجود ایسا اعتراض جڑ دینا جو جمہور کے منہج کے بھی خلاف ہے

 

● متقدمین کی تصھیح کے بعد ابن تیمیہ پارٹی کا ایسا اعتراض بالکل بھونڈا تھا

 

《●》جیسا کہ امام طحاوی اس روایت کے دو اسناد بیان کرتے ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دینے کے لیے کافی تھے

دثنا أبو أمية، قال: حدثنا عبيد الله بن موسى العبسي، قال: حدثنا الفضيل بن مرزوق، عن إبراهيم بن الحسن، عن فاطمة بنت الحسين، عن أسماء ابنة عميس،

[مشکل الاثار ، برقم : 1067]

 

دوسری سند :

▪︎حدثنا علي بن عبد الرحمن بن محمد بن المغيرة، قال: حدثنا أحمد بن صالح، قال: حدثنا ابن أبي فديك، قال: حدثني محمد بن موسى، عن عون بن محمد، عن أمه أم جعفر، عن أسماء ابنة عميس، أن النبي ۔۔۔۔ الخ

[مشکل الاثار امام طحاوی برقم : 1068]

 

¤اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام طحاوی اپنی اسی سند سے امام احمد بن صالح کا یہ قول بیان کرتے ہیں :

 

●قال أبو جعفر: وكل هذه الأحاديث من علامات النبوة , وقد حكى لي علي بن عبد الرحمن بن المغيرة عن أحمد بن صالح أنه كان يقول: لا ينبغي لمن كان سبيله العلم التخلف عن حفظ حديث أسماء الذي رواه لنا عنه ; لأنه من أجل علامات النبوة

▪︎امام طحاوی فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن مغیرہ نے امام احمد بن صالح سے یہ روایت بیان کرکے ان سے یہ حکایت بھی بیان کی ہے کہ : احمد بن صالح بیان کرتے تھے کہ کسی شخص کے لیے لائق نہیں کہ وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسماء بنت علی کی یہ روایت حفظ نہ کرے جبکہ اس میں نبوت کی نشانی ہے

[شرح مشكل الآثار برقم: 1071]

 

●امام قاضی عیاض مالکی اس روایت کے تحت لکھتے ہیں :

وخرج الطحاوي في مشكل الحديث عن أسماء بنت عميس۔۔۔ الخ

قال وهذان الحديثان ثابتان ورواتهما ثقات

▪︎امام قاضی فرماتے ہیں کہ امام طحاوی نے اسکو مشکل الاثار میں تخریج کی ہے اور فرمایا کہ یہ دو احادیث ثابت ہیں ثقہ رواتہ سے

 

●اسکے بعد امام قاضی نے امام احمد بن صالح کاقول نقل کیا ہے

▪︎وحكى الطحاوي أن أحمد بن صالح كان يقول لا ينبغي لمن سبله العلم التخلف عن حفظ حديث أسماء لأنه من علامات النبوة

[الشفاء قاضی عیاض]

 

《●》مجموعی طور پر اس روایت کی تصحیح و تحسین میں

 

¤امام احمد بن صالح

¤امام ابو جعفر الطحاوی

¤امام قاضی عیاض مالکی

¤امام ابن حجر عسقلانی

¤امام قسطلانی

¤امام زرقانی

¤امام سیوطی

¤امام ابن حجر مکی

¤امام محمد بن یوسف الصاالحی

¤امام مغلطائی

¤امام ملا علی قاری

¤امام ابن عادین شامی

¤امام شاہ ولی اللہ

• اور بہت سے کثیر محدثین ہیں

 

•لیکن دوسری جانب ابن تیمیہ ، ابن جوزی جن پر ویسے محدثین کی جرح ہے یہ روایت کو موضوع کہنے کے حوالے سے متعنت ہیں اور امام ذھبی کا ایک خاص طریق پر جرح باقی طریق کی نفی نہیں کرتا کیونکہ محدث جب کسی روایت پرجرح کرتا ہے تو وہ منفرد روایت پر ہی ہوتی ہے

نیز امام ذھبی ہی سے ثابت ہے کہ انہوں نے ابن عقدہ کا کا دفاع کیا ہے اس لیے جو ابن تیمیہ مقلدی پارٹی ہے اسکو چاہیے کہ امام ابن حجر عسقلانی ، امام زرقانی ، امام قسطلانی جیسے لوگوں نے ابن تیمیہ کی خطاء کو متعین کر کے اسکا رد کرکے حدیث کی توثیق کی ہے تو وہ اہل فن میں سے ہیں اور تحقیقا اور عقلا یہی حق بنتا ہے کہ وہ ابن تیمیہ کی تقلید چھوڑ دیں دلائل کے سامنے

 

کیونکہ یہ روایت کثیر الاسناد ہے اور کسی کا تفرد نہیں جو ضبط کے اعتبار سے مضبوط نہ ہو اور فردا فردا اکیلی اکیلی سند کا رد کر دینا اور متابعت اور شاہد کے اصول کی بتی بنا کر پی لینا یہ جہالت کے سوا کچھ نہیں

 

●جیسا کہ امام زرقانی ابن تیمیہ کی کلاس لیتے ہوئے فرماتے ہیں :

ولا عجب أصلًا؛ لأن إسناد حديث أسماء حسن، وكذا إسناد حديث أبي هريرة الآتي، كما صرَّح به السيوطي قائلًا: ومن ثَمَّ صححه الطحاوي والقاضي عياض، وذكره ابن الجوزي في الموضوعات فأخطأ، كما بينته في مختصر الموضوعات، وفي النكت البديعات، انتهى. يعني: لما تقرر في علوم الحديث: أنَّ الحسن إذا اجتمع مع حسن آخر، أو تعددت طرقه ارتقى للصحة، فالعجب العجاب إنما هو من كلام ابن تيمية هذا، لا من عياض؛ لأنه الجاري على القواعد المعلومة في الألفية وغيرها، لصغار الطلبة.

ولذا قال الحافظ في فتح الباري: أخطأ ابن الجوزي بذكره في الموضوعات، وكذا ابن تيمية في كتاب الرد على الروافض في زعم وضعه، انتهى.

 

▪︎اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ حدیث جو اسماء تک اسکی سند حسن ہے اور اسی طرح حضرت ابو ھریرہ سے مروی روایت کی بھی سند حسن ہے ۔

امام جلال الدین سیوطی نے تفصیل سے اسکو بیان کیا ہے اس روایت کو صحیح قرار دینے والوں میں سے امام طحاوی ، امام قاضی نے کہا ہے ۔

 

●اسکے بعد امام زرقانی امام سیوطی نے ابن جوزی کا رد اور خطاء کو ظاہر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

▪︎یہ اصول حدیث ہے کہ جب متعدد حسن طریق دوسرے حسن طریق سے ملتے ہیں تو وہ صحیح کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں یہ بات عام سا طالب علم بھی جانتا ہے جسکو ابن تیمیہ نے چھوڑ دیا

[شرح العلامہ الزرقانی علی المواھب الدنیہ امام القسطلانی ص ۴۸۸]

 

 

 

《《تحقیق: دعاگواسد الطحاوی الحنفی البریلوی》》