مشہور روایت ”امام کی قرات مقتدی کی قرات ہے” اس مشہور روایت پر اصحاب الحدیث نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ روایت مرسل ہے اسکو مرفوع بیان کرنے میں امام ابو حنیفہ ہیں لیکن انکی متابعت دو راویان نے کی ہے

ابو عمارہ جو کہ متروک ہے اور جابر جعفی جو کہ متروک ہے ۔

 

اور انکے علاوہ باقی ائمہ نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے۔۔۔

 

اس پر احناف کے محدثین نے امام احمد بن منیع کی مسند جو کہ اب مفقود ہے تو اتحاف المہرہ میں امام ابو حنیفہ کے دو اور متابع موجود ہیں

۱۔سفیان الثوری

۲۔ قاضی شریک۔

 

جس پر موصوف نے یہ دعویٰ کیا کہ جی اتحاف المہرہ میں سب سے پہلے اما م ابن ھمام الحنفی ( (790 – 861 هـ) نے یہ نقل کیا ہے اور باقیوں نے انکی تقلید کی ہے ۔

 

تو موصوف کا رد ہم پیش کرتے ہیں کہ امام ابن ھمام اتحاف المہرہ سے نقل کرنے میں منفرد نہیں بلکہ ان سے پہلے کے امام بوصیری جو کہ غیر حنفی ہیں انہوں نے بھی اسکو اتحاف المہرہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ کے دو متابع راویان کا اعتراف کرتے ہوئے مذکورہ روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے ۔

 

جیسا کہ امام بوصیری البوصيري (762 – 840 هـ) :

نے اپنی مشہور تصنیف مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه میں امام احمد بن منیع جو کہ امام احمد بن حنبل کے بھی شیخ تھے اور انہوں نے اپنی مسند لکھی تھی

جو کہ محدثین کے پاس تو موجود تھی لیکن آج کے دور میں مفقود ہے

امام البوصیری باب قائم کرتے ہیں :

 

باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا

باب جب امام قرآت کرے تو (مقتدی) خاموش رہے

 

پھر روایت لاتے ہیں :

حدثنا علي بن محمد حدثنا عبيد الله بن موسى عن الحسن بن صالح عن جابر عن أبي الزبير عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له إمام فإن قراءة الإمام له قراءة

هذا إسناد ضعيف جابر هو ابن يزيد الجعفي متهم

 

حدیث امام کی قرات مقتدی کی قرات ہے لیکن اسکی سند میں جابر جعفی ہے جو متہم بلکذب ہے

 

اسکے بعد امام بوصری آگے لکھتے ہیں :

لكن رواه أحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح بينته في زوائد المسانيد العشرة وهذا حديث مخالف لما رواه الأئمة الستة من حديث عبادة بن الصامت وله شاهد من حديث أبي هريرة رواه الترمذي وقال وفي الباب عن ابن مسعود وجابر وعمران بن حصين

 

لیکن امام احمد بن منیع (شیخ امام احمد بن حنبل) نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اور حمید نے باسند صحیح سے اپنی تصنیف المسانید العشرہ میں روایت کیا ہےاور یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو عبادہ بن الصابت کی بیان کی گئی ہے ائمہ ستہ کی طرف سے اور اس حدیث کے شواہد بھی موجود ہے حضرت ابی ھریرہ سے جسکو روایت کیا ہے امام ترمذی نے اور ابن مسعود ، جابر اور عمران بن حصین سے

[مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه، ص 106]

 

تو امام بصیری نے جابر جعفی کے علاوہ اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے محدثین نے امام احمد بن منیع کی مسند سے وہ روایت متصل بھی نقل کی ہے جسکی وجہ سے امام بوصیری الشافعی کو بھی اس سند کو صحیح قرار دینا پڑا تو جب امام بوصیری شافعی نے بھی متابعت تسلیم کی ہے اور سند صحیح قرار دیا ہے تو ابن ھمام پر اعتراض رفع ہو گیا تفرد کا اب ابن ھمام کی پیش کردہ سند نقل کرتے ہیں جسکو امام بوصیری شافعی صحیح کا حکم لگایا ہے

 

امام ابن الھمام اس روایت کو نقل کرتے ہیں فتح القدیر میں :

 

قال أحمد بن منيع في مسنده: أخبرنا إسحاق الأزرق، حدثنا سفيان وشريك عن موسى بن أبي عائشة عن عبد الله بن شداد عن جابر – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – «من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة»

 

امام احمد بن منیع اپنی مسند میں روایت کر کرتے ہیں اخبرنا اسحاق الارزق حدثنا سفیان الثوری ، و ، شریک عن موسی بن ابی عائشہ عن عبداللہ بن شداد عن جابر قال رسول اللہ ۔۔۔۔۔الخ

تو امام احمد بن منیع نے اپنی مسند میں امام ابی حنیفہ کے بغیر امام سفیان الثوری ، اور امام شریک سے موسیٰ کے طریق سے بطریق ابن شداد حضرت جابر سے نبی کی مرفوع روایت بیان کی ہے

[ فتح القدير:338]

 

تو محدثین کا یہ اعتراض کہ موسیٰ بن شداد سے سوائے ابی حنیفہ کے اسکو مرفوع روایت کوئی نہیں کرتا یہ اعتراض بھی باطل ہوا

بلکہ امام احمد بن منیع نے امام ابی حنیفہ کے دو متابع یعنی امام سفیان الثوری اور امام شریک اور دونوں ثقہ ہیں

اور امام سفیان امیر المومنین فی حدیث

 

تو امام ابی حنیفہ اس روایت میں بالکل منفرد نہ رہے جو الزام ان پر وارد تھا

تو محدثین کا یہ اعتراض کہ موسیٰ بن شداد سے سوائے ابی حنیفہ کے اسکو مرفوع روایت کوئی نہیں کرتا یہ اعتراض بھی باطل ہوا

بلکہ امام احمد بن منیع نے امام ابی حنیفہ کے دو متابع یعنی امام سفیان الثوری اور امام شریک اور دونوں ثقہ ہیں

اور امام سفیان امیر المومنین فی حدیث

 

تو امام ابی حنیفہ اس روایت میں بالکل منفرد نہ رہے جو الزام ان پر وارد تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی موصوف نے جو مسند احمد بن منیع کے حوالے سے جو اعتراض جڑا ہے وہ سیدھی سیدھی البانی صاحب کی تقلید کی ہے جسکا جواب ہم تحقیقا پیش کرتے ہیں :

 

البانی صاحب نے اپنی طرف سے ایک کمزور جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن اسکا بھی رد پیش کر دیتے ہیں

 

البانی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

 

وذكر نحوه الدارقطنى وقال: ” وهو الصواب “. يعنى المرسل.

وقد تعقب بعض المتأخرين قول الدارقطنى المتقدم أنه لم يسنده غير أبى حنيفة وابن عمارة بما رواه أحمد بن منيع فى ” مسنده “: أخبرنا إسحاق الأزرق حدثنا سفيان وشريك عن موسى بن أبى عائشة عن عبد الله بن شداد عن جابر مرفوعاً به.

قلت: وهذا سند ظاهره الصحة , ولذلك قال البوصيرى فى ” الزوائد ” (56/1) : ” سند صحيح كما بينته فى زوائد المسانيد العشرة “.

قلت: وهو عندى معلول , فقد ذكر ابن عدى كما تقدم وكذا الدارقطنى

والبيهقى أن سفيان الثورى وشريكاً روياه مرسلاً دون ذكر جابر فذكر جابر فى إسناد ابن منيع وهم , وأظنه من إسحاق الأزرق , فإنه وإن كان ثقة فقد قال فيه ابن سعد: ” ربما غلط ” , وقد قال ابن أبى شيبة فى ” المصنف ” (1/149/2) : حدثنا شريك وجرير عن موسى بن أبى عائشة عن عبد الله بن شداد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم. فذكره مرسلا لم يذكر جابراً.

 

البانی صاحب کہتے ہیں کہ دارقطنی کے مطابق یہ روایت مرسل صحیح ہے

میں کہتا ہوں کہ بعض متاخرین نے انکا تعقب کیا ہے کہ روایت کیا ہے ابی حنیفہ اور ابن عمارہ کے بغیر امام احمد بن منیع نے اپنی مسند میں کہ وہ اسحاق الارزق سے اور وہ سفیان الثوری اور شریک سے وہ موسیٰ اور وہ عبداللہ بن شداد سے حضرت جابر سے یہ مرفوع بیان کرتے ہیں

البانی صاحب کہتے ہیں ظاہری طور پر یہ سند تو صحیح ہے جیسا کہ امام بوصری نے بھی سند کو صحیح کہا ہے

لیکن میں کہتا ہوں امام دارقطنی اور ابن عدی نے تو اس حدیث کو معلول قرار دیا ہوا ہے

 

پھر اپنا استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

میرا ظن یہ ہے کہ امام احمد بن منیع کے شیخ اسحاق الارزق جو ثقہ ہیں لیکن امام ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ کبھی کبھار وہم بھی کرجاتے تھے تو شاید یہ ان سے وھم ہوا ہے

اور امام ابن ابی شیبہ نے اسکو شریک سے بیان کیا ہے لیکن جابر کا ذکر نہیں کیا

[ إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل ج۲، ۲۷۲]

 

البانی صاحب کے جواب کا تحقیقی جائزہ!

 

امام اسحاق الارزق تو امام شریک کی احادیث کا سب سے بڑا حافظ تھا جیسا کہ امام ذھبی نے لکھا ہے سیر میں

. وكان من أعلم الناس بشريك. کہ یہ شریک کے بارے عوام الناس سے سب سے زیادہ علم رکھتا تھا

اور ایسے امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ کہ شریک سے اسحاق الارزق کی روایت اصح ہوتی ہیں

تو اسحاق الارزق کی روایت کی شریک اور سفیان الثوری سے تو بدرجہ اولیٰ قبول کرنے کا حق بنتا ہے

 

جبکہ اسکو رد کرنے کا بہانہ البانی صاحب امام ابن سعد کی جرح سے لے رہے ہیں جو کہ اپنی جرح میں منفرد ہیں کیونکہ امام ابن معین ، امام احمد ، امام ابی زرعہ و امام ابی حاتم سب نے متفقہ علیہ طور پر توثیق کی ہے اسحاق الارزق کی تو اس پر وھم کی جرح کی ہے ابن سعد نے

تو امام ابن حجر نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اہل عراق پر ابن سعد کی جرح قبول نہ ہوگی کیونکہ وہ واقدی کی تقلید کرتا تھا

تو یہ راوی بھی بغدادی ہے اور ابن سعد کی جرح باطل ہے اور منفرد ہونے کی وجہ سے بھی مردود ہے

 

تو یہ روایت میں بھی امام ابی حنیفہ منفرد نہیں ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسد الطحاوی✍