اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَؕ-اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ(۴۵)

اے محبوب پڑھو جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی (ف۱۰۹) اور نماز قائم فرماؤ بےشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے (ف۱۱۰) اور بےشک اللہ کا ذکر سب سے بڑا (ف۱۱۱) اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو

(ف109)

یعنی قرآن شریف کہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے اوراس میں لوگوں کے لئے پند و نصیحت بھی اور احکام و آداب و مکارمِ اخلاق کی تعلیم بھی ۔

(ف110)

یعنی ممنوعاتِ شرعیہ سے لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اس کو اچھی طرح ادا کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا حضور سے اس کی شکایت کی گئی فرمایا اس کی نماز کسی روز اس کو ان باتوں سے روک دے گی چنانچہ بہت ہی قریب زمانہ میں اس نے توبہ کی اور اس کا حال بہتر ہو گیا ۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں ۔

(ف111)

کہ وہ افضل طاعات ہے ۔ ترمذی کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں وہ عمل جو تمہارے اعمال میں بہتر اور ربّ کے نزدیک پاکیزہ تر ، نہایت بلند رتبہ اور تمہارے لئے سونے چاندی دینے سے بہتر اور جہاد میں لڑنے اور مارے جانے سے بہتر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا بے شک یارسولَ اللہ ، فرمایا وہ اللہ تعالٰی کا ذکر ہے ۔ ترمذی ہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور سے دریافت کیا تھا کہ روزِ قیامت اللہ تعالٰی کے نزدیک کن بندوں کا درجہ افضل ہے ؟ فرمایا بکثرت ذکر کرنے والوں کا صحابہ نے عرض کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا ؟ فرمایا اگر وہ اپنی تلوار سے کُفّار و مشرکین کو یہاں تک مارے کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے جب بھی ذاکرین ہی کا درجہ اس سے بلند ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالٰی کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے اور ایک قول اس کی تفسیر میں یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا ذکر بڑا ہے بے حیائی اور بُری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں ۔

وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﳓ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(۴۶)

اور اے مسلمانو! کتابیوں سے نہ جھگڑو مگر بہتر طریقہ پر (ف۱۱۲) مگر وہ جنہوں نے اُن میں سے ظلم کیا (ف۱۱۳) اور کہو (ف۱۱۴) ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو تمہاری طرف اُترا اور ہمارا تمہارا ایک معبود ہے اور ہم اس کے حضور گردن رکھے ہیں(ف۱۱۵)

(ف112)

اللہ تعالٰی کی طرف اس کی آیات سے دعوت دے کر اور حُجّتوں پر آگاہ کر کے ۔

(ف113)

زیادتی میں حد سے گزر گئے ، عناد اختیار کیا ، نصیحت نہ مانی ، نرمی سے نفع نہ اٹھایا ان کے ساتھ غِلظت اور سختی اختیار کرو اور ایک قول یہ ہے کہ معنٰی یہ ہیں کہ جن لوگوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایذا دی یا جنہوں نے اللہ تعالٰی کے لئے بیٹا اور شریک بتایا ان کے ساتھ سختی کرو یا یہ معنٰی ہیں کہ ذمّی جزیہ ادا کرنے والوں کے ساتھ احسن طریقہ پر مجادلہ کرو مگر جنہوں نے ظلم کیا اور ذمّہ سے نکل گئے اور جزیہ کو منع کیا ان سے مجادلہ تلوار کے ساتھ ہے ۔

مسئلہ : اس آیت سے کُفّار کے ساتھ دینی امور میں مناظرہ کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور ایسے ہی علمِ کلام سیکھنے کا جواز بھی ۔

(ف114)

اہلِ کتاب سے جب وہ تم سے اپنی کتابوں کا کوئی مضمون بیان کریں ۔

(ف115)

حدیث شریف میں ہے جب اہلِ کتاب تم سے کوئی مضمون بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو یہ کہہ دو کہ ہم اللہ تعالٰی پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے تو اگر وہ مضمون انہوں نے غلط بیان کیا ہے تو اس کی تصدیق کے گناہ سے تم بچے رہو گے اور اگر مضمون صحیح تھا تو تم اس کی تکذیب سے محفوظ رہو گے ۔

وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَؕ-فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖۚ-وَ مِنْ هٰۤؤُلَآءِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِهٖؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ(۴۷)

اور اے محبوب یونہی تمہاری طرف کتاب اُتاری (ف۱۱۶) تو وہ جنہیں ہم نے کتا ب عطا فرمائی (ف۱۱۷) اس پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ان میں سے ہیں (ف۱۱۸) جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہماری آیتوں سے منکر نہیں ہوتے مگر کافر (ف۱۱۹)

(ف116)

قرآنِ پاک ، جیسے ان کی طرف توریت وغیرہ اتاری تھیں ۔

(ف117)

یعنی جنہیں توریت دی جیسے کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب ۔

فائدہ : یہ سورت مکّیہ ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب مدینہ میں ایمان لائے اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے ان کی خبر دی یہ غیبی خبروں میں سے ہے ۔ (جمل)

(ف118)

یعنی اہلِ مکّہ میں سے ۔

(ف119)

جو کُفر میں نہایت سخت ہیں ۔ جحود اس انکار کو کہتے ہیں جو معرفت کے بعد ہو یعنی جان بوجھ کر مُکرنا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ یہود خوب پہچانتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالٰی کے سچّے نبی ہیں اور قرآن حق ہے یہ سب کچھ جانتے ہوئے انہوں نے عناداً انکار کیا ۔

وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(۴۸)

اور اس (ف۱۲۰) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا (ف۱۲۱) تو باطل والے ضرور شک لاتے(ف۱۲۲)

(ف120)

قرآن کے نازِل ہونے ۔

(ف121)

یعنی آپ لکھتے پڑھتے ہوتے ۔

(ف122)

یعنی اہلِ کتاب کہتے کہ ہماری کتابوں میں نبیٔ آخر الزماں کی صفت یہ مذکور ہے کہ وہ اُمّی ہوں گے نہ لکھیں گے نہ پڑھیں گے مگر انہیں اس شک کا موقع ہی نہ ملا ۔

بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ(۴۹)

بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جن کو علم دیا گیا (۱۲۳) اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتے مگر ظالم(ف۱۲۴)

(ف123)

ضمیرِ ھُوَ کا مرجع قرآن ہے اس صورت میں معنٰی یہ ہیں کہ قرآنِ کریم روشن آیتیں ہیں جو عُلَماء اور حُفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔ روشن آیت ہونے کے یہ معنٰی کہ وہ ظاہر الاعجاز ہیں اور یہ دونوں باتیں قرآنِ پاک کے ساتھ خاص ہیں اور کوئی ایسی کتاب نہیں جو معجِزہ ہو اور نہ ایسی کہ ہر زمانے میں سینوں میں محفوظ رہی ہو اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ھُوَ کی ضمیر کا مرجع سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قرار دے کر آیت کے یہ معنٰی بیان فرمائے کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صاحب ہیں ان آیاتِ بیّنات کے جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں اہلِ کتاب میں سے علم دیا گیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں آپ کی نعت و صفت پاتے ہیں ۔ (خازن)

(ف124)

یعنی یہودِ عنود کہ بعد ظہورِ معجزات کے جان پہچان کر عناداً منکِر ہوتے ہیں ۔

وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(۵۰)

اور بولے (ف۱۲۵) کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے رب کی طرف سے (ف۱۲۶) تم فرماؤ نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں (ف۱۲۷) اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں (ف۱۲۸)

(ف125)

کُفّارِ مکّہ ۔

(ف126)

مثلِ ناقۂ حضرت صالح و عصائے حضرت موسٰی اور مائدۂ حضرت عیسٰی کے علیہم الصلٰوۃ والسلام ۔

(ف127)

حسبِ حکمت جو چاہتا ہے نازِل فرماتا ہے ۔

(ف128)

نافرمانی کرنے والوں کو عذاب کا اور اسی کا مکلّف ہوں اس کے بعد اللہ تعالٰی کُفّارِ مکّہ کے اس قول کا جواب ارشاد فرماتا ہے ۔

اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠(۵۱)

اور کیا یہ اُنہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اُتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے (ف۱۲۹) بےشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لیے

(ف129)

معنٰی یہ ہیں کہ قرآنِ کریم معجِزہ ہے ، انبیاءِ متقدّمین کے معجزات سے اتم و اکمل اور تمام نشانیوں سے طالبِ حق کو بے نیاز کرنے والا کیونکہ جب تک زمانہ ہے قرآنِ کریم باقی و ثابت رہے گا اور دوسرے معجزات کی طرح ختم نہ ہو گا ۔