أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفَرَءَيۡتُمُ اللّٰتَ وَالۡعُزّٰىۙ ۞

ترجمہ:

کیا تم نے لات اور عزیٰ کو ( بہ غور) دیکھا ؟

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بہ غور دیکھا۔ اور اس تیسری ایک اور دیوی منات کو۔ کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اللہ کے لیے بیٹیاں ہیں۔ پھر تو یہ بڑی ظالمانہ تقسیم ہے۔ یہ صرف وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی، یہ مشرکین صرف اپنے گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور اپنی نفسانی خواہشوں کی، اور بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ضرور ہدایت آچکی ہے۔ کیا انسان کے لیے وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔ پس اللہ ہی دنیا اور آخرت کا مالک ہے۔ ( النجم ( ٢٥۔ ١٩)

بتوں کی پرستش کا ابطلال اور توحید کا استحقاق

النجم کے آغاز کے آغاز سے لے کر النجم : ١٨ تک اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور رفعت بیان کی اور شب معراج جو آپ پر اپنا خصوصی انعام و اکرام فرمایا اور آپ کو اپنے قرب خاص سے نوازا اور اپنا دیدار عطاء کیا، اس کا تفصیل سے بیان فرمایا۔ اس کے بعد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو پیغام دے کر بھیجتا تھا اس پیغام کا ذکر فرمایا اور وہ پیغام ہے شرک کا ابطلال اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا احقاق، مشرکین مکہ لات، عزیٰ اور منات نام کی دیویوں کی پرستش کرتے تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے بطلان کو ظاہر فرماتا ہے کہ ان کو دیکھوتو سہی کیا یہی اس کائنات کو پیدا کرنے، پالنے اور رزق دینے میں اللہ سبحانہٗ کی شریک ہیں ؟ ان دیویوں کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے پھر یہ تمہاری اور ساری کائنات کی خالق اور رزق کیسے ہوگئیں۔

لات، منات اور عزیٰ کے صیغے ہیں اور لات میں ” تائ “ کو گول بنا کر ” لاۃ “ کی شکل میں نہیں لکھا گیا بلکہ ” تا “ کو مبسوط بنا کر ’ ’ لات “ کی شکل میں لکھا گیا تاکہ لکھنے میں اس کی لفط ” اللہ “ کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

لات، عزیٰ اور منات کی تحقیق

علامہ محمود بن عمر زمخشری خوارزمی متوفی ٥٣٨ ھ ان اسماء کی لفظی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

لات، عزیٰ اور منات اس کے بتوں کے نام ہیں اور یہ مؤثنات ہیں، پس لات قبیلہ ثقیف کی دیوی کا بت ہے، اس کی طائف میں پرستش کی جاتی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس کی نخلہ ( مکہ اور مدینے کے درمیان ایک مقام) میں پرستش کی جاتی تھی اور لات کا لفظ ” لوی “ سے بنا ہے، لات کا لفظ اصل میں ” لویۃ “ تھا، واو متحرک ما قبل مفتوح اس کو الف سے بدل دیا اور یا خلاف قیاس کرگئی تو یہ لات ہوگیا، ” لوی “ کا معنی ہے : کسی کی پرستش کرنا اور اس پر آسن جما کر بیٹھنا، یا کسی چیز کے گرد طواف کرنا، وہ اس دیوی کے بت کے پرستش کرتے تھے، اس کے پاس دھرنامار کر بیٹھتے تھے، اس لفظ کو لام کی تشدید کے ساتھ ” اللات “ بھی پڑھا گیا ہے اور ان کا زعم یہ تھا کہ ” اللات “ ایک شخص کا نام تھا جو ستو میں گھی ملا کر حجاج کو پلاتا تھا ( مگر ازروئے قرآن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ لات کسی مرد کا نام نہیں، دیوی کا نام ہے۔ ) جب وہ مرگیا تو انہوں نے اس کی قبر کی پرستش کرنی شروع کردی، پھر اس کا بت بنا لیا اور اس کی پرستش شروع کردی۔

اور عزیٰ اعز کی تانیث ہے، یہ ببول کا درخت تھا، مقام نخلہ میں قبیلہ غطفان کے لوگ اس کی پرستش کرتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ طائف کے درمیان مقام نخلہ میں ببول کے تین درخت تھے ان پر گنبد بنا ہوا تھا، اور چادریں چڑھی ہوئی تھیں، ان میں ایک حنبہ ہوئی تھی۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو اسے مسمار کرنے کے لیے بھیجا، حضرت خالد نے یہ درخت کاٹ ڈالے اور گنبد مسمار کردیا اور واپس آ کر آپ کو اس کی اطلاع دی، آپ نے فرمایا : تم نے کچھ نہیں کیا، دوبارہ جائو، حضرت خالد جب دوبارہ گئے تو وہاں کے محافظوں اور خادموں نے بہت شور و غل کیا اور ” یا عزی یا عزی “ کہہ کر اس کے نام کی دہائی دی، حضرت خالد نے دیکھا وہاں ایک برہنہ عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور وہ اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے، آپ نے تلوار مار کر اس کا کام تمام کردیا، آپ نے فرمایا : یہی عزیٰ تھی، اب اس کی کبھی پرستش نہیں ہوگی۔

( الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١١١۔ ١١٠، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٤٧، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٩٠٢، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٥ ص ٧٧)

اور منات ایک بت تھا، یہ مشلل کی طرف سمندر کے کنارے قدید میں تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مسمار کرنے کے لیے حضرت ابو سفیان (رض) کو بھیجا تھا جنہوں نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا، قبیلہ ہذیل اور خزاعہ اس کی پرستش کرتے تھے، اس کو منات اس لیے کہتے ہیں کہ منٰی قربانی کرنا ہے اور مشرکین اس کے استھان پر اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے تھے اور اس سے بارش طلب کرتے تھے اور لات کو مسمار کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت مغیرہ بن (رض) کو اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب (رض) کو بھیجا تھا۔

( الکشاف ملخصاً و موضحا ًو مخرجاً ، ج ٤ ص ٤٢٤، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٨٠۔ ٢٧٨، ملخصاً )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 19