اِنۡ هِىَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّيۡتُمُوۡهَاۤ اَنۡتُمۡ وَاٰبَآؤُكُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنۡ سُلۡطٰنٍؕ اِنۡ يَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهۡوَى الۡاَنۡفُسُۚ وَلَقَدۡ جَآءَهُمۡ مِّنۡ رَّبِّهِمُ الۡهُدٰىؕ ۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 23
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنۡ هِىَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّيۡتُمُوۡهَاۤ اَنۡتُمۡ وَاٰبَآؤُكُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنۡ سُلۡطٰنٍؕ اِنۡ يَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهۡوَى الۡاَنۡفُسُۚ وَلَقَدۡ جَآءَهُمۡ مِّنۡ رَّبِّهِمُ الۡهُدٰىؕ ۞
ترجمہ:
یہ صرف وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی، یہ ( مشرکین) صرف اپنے گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشوں کی، اور بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ضرور ہدایت آچکی ہے
مشرکین کے ظن کا باطل ہونا اور مجتہدین کا صحیح ہونا
النجم : ٢٣ میں فرمایا : یہ صرف وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی، یہ مشرکین صرف اپنے گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشوں کی اور بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ضرور ہدایت آچکی ہے۔
یعنی بتوں کا نام تم نے لات اور منات رکھا ہے اور جن ببول کے درختوں کا نام تم نے عزیٰ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی پرستش کرنے پر کوئی دلیل نازل نہیں کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھیج کر یہ واضح کردیا ہے کہ ان کی پرستش کرنا باطل ہے، تم اپنے دن معبودوں کو مؤنث کہتے ہو حالانکہ یہ صرف عورتوں والے نام ہیں، حقیقت میں یہ مؤنث نہیں ہیں اور تم ان کو عبادت کا مستحق قرار دیتے ہو، حالانکہ یہ واقع میں عبادت کے مستحق نہیں ہیں، یہ صرف تمہارا ظن اور گمان ہے، اس آیت سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوا کہ ظن اور گمان کی پیروی کرنا مشرکین کا طریقہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ظن کی مذمت کی ہے، حالانکہ حدیث متواتر کے علاوہ تمام احادیث ظنی ہیں اور فقہاء مجتہدین کے اجتہاد کردہ مسائل بھی ظنی ہوتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ مشرکین اس ظن کی اتباع کرتے تھے جس پر کوئی دلیل نہیں تھی اور ان کا ظن واقع کے خلاف ہوتا تھا، اسکے بر خلاف احادیث اور مجتہدین کے قیاس کے ظنی ہونے کا یہ معنی ہے کہ وہ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ نہیں ہیں کہ ان کا انکار کفر ہو لیکن احادیث اور قیاس کے حجت ہونے پر قطعی دلائل ہوتے ہیں اور مشرکین کے ظن پر کوئی دلیل نہیں ہوتی اور ان کا ظن واقع کے خلاف اور باطل ہوتا ہے۔
مشرکین کی نفسانی خواہشوں کی پیروی کی وضاحت
اور فرمایا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں، اللہ کے نبی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کا دین اور اس کی طرف سے احکام شرعیہ لاتے، مشرکوں کے نفسوں پر ان احکام کا بجا لانا مشکل اور دشوار تھا اور جن برے کاموں مثلاً زنا، چوری، قتل اور خیانت وغیرہ سے رسول منع کرتے تھے ان سے رکنا بھی ان پر دشوار تھا، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کسی ایسی چیز کو اپنا خدا اور معبود قرار دے لیں جو انہیں کسی چیز کا حکم دے سکتے اور نہ کسی برے کام سے منع کرسکے، پھر انہوں نے اپنی طرف سے اس کی عبادت کے طریقے فرض کرلیے کہ اس کے آگے سر جھکائیں، چڑھاوے چڑھائیں، جانوروں کی بھینٹ دیں اور مصائب میں اس کو پکاریں اور اپنی طرف سے عقیدہ گھڑ لیا کہ اگر بالفرض آخرت میں ان کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور عذاب پر پیش کیا گیا تو ان کے یہ باطل معبود ان کو اللہ کے پاس سفارش کر کے ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب ان کی نفسانی خواہشیں ہیں اور من گھڑت باتیں ہیں، ان کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 23