اَلَّذِيۡنَ يَجۡتَنِبُوۡنَ كَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَالۡفوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَةِؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِكُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّةٌ فِىۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡۚ فَلَا تُزَكُّوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 32
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَّذِيۡنَ يَجۡتَنِبُوۡنَ كَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَالۡفوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَةِؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِكُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّةٌ فِىۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡۚ فَلَا تُزَكُّوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۞
ترجمہ:
جو لوگ کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، ماسوا چھوٹے گناہوں کے، بیشک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے، (اور) وہ تمہیں خوب جاننے والا ہے، جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا تھا اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں، پیٹ کے بچے تھے، سو تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ متقین کو خوب جانتا ہے
” اللمم “ کا معنی
النجم : ٣٢ میں فرمایا : جو لوگ کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، ماسوا چھوٹے گناہوں کے، بیشک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے۔ الایۃ۔
اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا : تاکہ اللہ ان لوگوں کو اجر دے جنہوں نے نیک کام کیے، اور اس آیت میں ان نیک کام کرنے والوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔
سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور سب سے بڑی بےحیائی زنا ہے۔ اس کے بعد اس آیت میں ” لمم ‘ کا ذکر ہے، اس سے مراد گناہ صغیرہ ہیں۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
” لمم “ کا معنی ہے : معصیت کے قریب جانا اور اس کو گناہ صغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، ” المام “ کا معنی ہے، کسی چیز کے پاس آنا، اس کے قریب جانا اور کسی چیز کی قلت کو بھی ” المام “ کہتے ہیں۔ ( المفردات ج ٢ ص ٥٨٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
علامہ محمد بن ابی بکررازی حنفی متوفی ٦٦٠ ھ لکھتے ہیں :
” لم اللہ شعثہ “ کا معنی ہے : اللہ نے اس کے منتشر اور پراگندہ امور کی اصلاح کردی اور ان کو مجتمع کردیا۔ سو اس کا معنی جمع کرنا اور اصلاح کرنا ہے۔ ” المام “ کا معنی ہے : کسی کے پاس جانا ” ملتم “ اس لڑکے کو کہتے ہیں جو بلوغت کے قریب ہو، حدیث میں ہے :
” وان مماینبت الربیع یقتل او یلم “ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٦٥) موسم بہار میں ایسی گھاس بھی اگتی ہے جو ہلاک کردیتی ہے یا ہلاکت کے قریب کردیتی ہے۔ اور ’ ’ لمم “ صغیرہ گناہوں کو کہتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ” المام “ کا معنی ہے : معصیت کے قریب جانا اور معصیت کا ارتکاب نہ کرنا۔ اخفش نے کہا : گناہوں کے قرب کو ” لمم “ کہتے ہیں۔ ازہری نے کہا : ” الاللمم “ کا معنی ہے : مگر وہ جو گناہ صغیرہ کے متقارب ہو۔ ( مختار الصحاح ج ٣٥١۔ ٣٥٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
” اللمم “ کے متعلق احادیث
ہم نے جو ” لمم “ کے معنی بیان کیے ہیں، ان کے اعتبار سے ” لمم “ گناہ صغیرہ ہے، نیز اس آیت میں ” الفواحش “ کا لفظ ہے، یہ ” فاحشۃ “ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے : بےحیائی کے کام، اور قرآن مجید میں زنا کو فاحشہ فرمایا ہے :
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃًط وَسَآئَ سَبِیْلاً (بنی اسرائیل : ٣٢)
اور زنا کے قریب نہ جائو، بیشک وہ بےحیائی کا کام اور برا راستہ ہے
لہٰذا زنا کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس سے کم درجہ کے یا اس کے قریب کے کام گناہ صغیرہ ہیں، اور اس کی تائید ان احادیث میں ہے :
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : میں مدینہ کے آخری حصہ میں ایک عورت کے ساتھ بغل گیر ہوا اور میں نے زنا کرنے کے علاوہ اس کے ساتھ باقی سب کچھ کیا اور اب میں یہاں حاضر ہوں، آپ میرے متعلق جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، حضرت عمر نے فرمایا : اللہ سبحانہ ٗ نے تمہارے جرم پر، پردہ رکھا تھا، کاش ! تم بھی اپنے جرم پر پردہ رکھتے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو کوئی جواب نہیں دیا، پس وہ چلا گیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پیچھے گئے اور اس شخص کو بلایا، پھر اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط (ھود : ١١٤)
دن کی دو طرفوں میں ( فجر اور عصر میں) نماز پڑھئے، اور رات کے قریب ( مغرب اور عشاء میں) بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا : کیا یہ ( صغائر کی نیکیوں سے مغفرت) خاص اس شخص کے واسطے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ! بلکہ تم سب کے واسطے ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٨٧۔ ٥٢٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٦٣، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١١٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث، ٤٤٦٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٩٨، مسند احمد ج ١ ص ٤٤٥ )
حضرت ابن مسعود، حضرت ابو سعید الخدری، حضرت حذیفہ (رض) اور مسروق نے کہا کہ زنا سے کم گناہ مثلاً اجنبی عورت کو بوسہ دینا، چھیڑ چھاڑ کرنا، اس کو دیکھنا اور اس سے بغل گیر ہونا ’ ’ لمم “ اور گناہ صغیرہ ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے زیادہ ” المم “ کے مشابہ اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے زنا کا حصہ اس کے اوپر لکھ دیا ہے، جس کو وہ لا محالہ پائے گا، پس آنکھوں کا زنا اجنبی عورت کو دیکھنا ہے اور زبان کا زنا اس کے متعلق بات کرنا ہے اور نفس ( زنا کی) تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق اور تکذیب کرتی ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦١٢۔ ٦٢٤٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٥٧، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢١٥٢، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٧)
’ ’ صحیح مسلم “ کی روایت میں یہ اضافہ ہے : کانوں کا زنا، زنا کی بات سننا ہے، ہاتھوں کا زنااجنبی عورت کو پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا اس طرف جانا ہے۔ ” صحیح مسلم “ رقم الحدیث : ٢٦٥٧ اور حاکم کی روایت میں یہ اضافہ ہے : ہونٹوں کا زنا اجنبی عورت کو بوسہ دینا اور آنکھوں کا زبان اجنبی عورت کو تلاش کرنا ہے۔ ( المستدرک رقم الحدیث : ٣٧٥١ )
حضرت عثمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بھی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے، پھر اس کا اچھی طرح وضو کرے اور اس نماز کو ظاہر آداب اور خشوع کے ساتھ پڑھے تو وہ نماز اس نماز سے پہلے کیے ہوئے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے جب تک کہ اس نے کبیرہ گناہ نہ کیا ہو اور یہ مغفرت ہر زمانہ میں ہوتی رہے گی۔
( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٦)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کی نماز ان کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہوجاتی ہیں جب تک گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٤٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٤، مسند احمد ج ٢ ص ٤٨٤)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : یہ بتائو ! اگر تم میں سے کسی ایک شخص کا گھر دریا کے پاس ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو تم کیا کہتے ہو کہ اس کے جسم پر کوئی میل رہے گا ؟ مسلمانوں نے کہا : اس کے جسم پر کوئی میل نہیں رہے گا، آپ نے فرمایا : یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے، اللہ سبحانہٗ ان کے سبب سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٦٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٨، سنن نسائی رقم الحدیث : ٤٦١ )
” اللمم “ کی تعریف میں صحابہ اور تاتعین کے اقوال
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” الا اللمم “ کا معنی یہ ہے کہ بندہ کوئی گناہ کے پھر اس کو دوبارہ نہ کرے۔
زہری نے کہا کہ ” لمم “ کا معنی یہ ہے کہ وہ زنا کرے، پھر توبہ کرے پھر دوبارہ نہ کرے یا چوری کرے یا شراب پئے پھر توبہ کرے پھر دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرے اور اس کی تصدیق اس آیت میں ہے :
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللہ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْقف وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہ ُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَاُولٰٓـئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ (آل عمران : ١٣٦۔ ١٣٥)
اور جب یہ ( نیکو کار) بےحیائی کا کام کر گزریں، یا کوئی اور گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرلیں، تو وہ فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں پر توبہ کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہ معاف کرسکتا ہے اور جان بوجھ کر دوبارہ اس گناہ کو نہ کریں تو ان کی جزا ان کے رب کی طرف سے معافی ہے، اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور نیک عمل کرنے والوں کا کیا خوب اجر ہے
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے کہا : ” اللمم “ شرک کے ماسوا گناہ ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ ” اللمم “ وہ گنا ہے جس پر دنیا میں حد نہیں ہے اور نہ اس پر آخرت میں عذاب کی وعید ہے، یہ گناہ پانچ نمازوں سے معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ ابن زیاد، عکرمہ، ضحاک اور قتادہ کا قول ہے۔
کلبی نے کہا : ” اللمم “ کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم ہر وہ گناہ ہے جس کی حد کا ذکر نہیں ہے اور نہ اس پر آخرت میں عذاب کا ذکر ہے اور دوسری قسم وہ گناہ کبیرہ ہے جس کا انسان بار بار ارتکاب کرتا ہے اور اس پر توبہ کرتا رہتا ہے۔
لغطویہ نے کہا : ” اللمم “ وہ گنا ہے جس کا ارتکاب کرنا انسان کی عادت نہ ہو۔
عطاء بن ابی رباح نے کہا :” اللمم “ وہ گناہ ہے جس کو انسان وقتاً فوقتاً کرے۔
سعید بن مسیب نے کہا : ” اللمم “ وہ گنا ہے جس کا دل میں خیال آئے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ دل میں آنے والے خیال کا کسی امت سے مواخذہ نہیں ہوا، ہاں ! اگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ” اللمم “ وہ گناہ ہے جس کو انسان کرنا چاہیے لیکن اس کا عزم مصمم نہ کے یا عزم مصمم کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو پھر اس کی توجیہ ہوسکتی ہے۔
( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ١٠٠۔ ٩٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کی تعریفات اور اس سلسلہ میں احادیث
امام فخر الدین محمد بن رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے ” اللمم “ کی تعریف میں حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں :
(١) وہ گناہ جس کو انسان قصداً نہ کرے اور نہ اس کو مؤکدکرے اور نہ اس کا عزم کرے۔
(٢) وہ جس کو کرنے کے بعد انسان فوراً نادم ہو۔
(٣) گناہ صغیرہ، وہ گناہ جو کسی بےحیائی کے کام پر مشتمل نہ ہو۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی نے گناہ کبیرہ کی حسب ذیل تعریفات کی ہیں :
(١) گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے صراحۃً عذاب کی وعید سنائی ہو۔
(٢) کبیرہ وہ گناہ ہے جس کو حلال جان کر کرنا کفر ہے۔
(٣) اصل یہ ہے کہ ہر معصیت کبیرہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بہت ہیں اور منعم کی مخالفت بہت بڑی برائی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خطا اور نسیان کو معاف کردیا ہے کیونکہ وہ ترک تعظیم پر دلالت نہیں کرتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بندوں میں بہت ہوتی ہیں، جیسے ایک آدھ بار جھوٹ بولنا یا ایک دو مرتبہ غنیمت کرنا یا ایک دو بار اجنبی عورت کو دیکھنا، اسی طرح وہ برے کام جن کے برے ہونے میں شبہ ہے اور ہر زمانے میں ان سے اجتناب کرنے والے بہت کم ہیں، اسی وجہ سے ہماری اصحاب نے کہا ہے کہ موسیقی سننا فسق ہے اور اگر شہر والے عادۃً موسیقی نہ سنیں تو یہ فسق نہیں ہے، سو اگر ارباب عقول اس کو ترک تعظیم نہ قرار دیں تو یہ گناہ کبیرہ نہیں ہے، اسی طرح اوقات کے مختلف ہونے سے بھی احکام مختلف ہوجاتے ہیں جیسے نماز کے وقت کھیلنا کبیرہ ہے اور دوسرے وقت کھیلنا کبیرہ نہیں ہے، اسی طرح اشخاص کے مختلف ہونے سے بھی احکام مختلف ہوجاتے ہیں مثلاً متقی عالم جب کسی اجنبی عورت کا پیچھا کرے گا یا بہت زیادہ کھیل میں مشغول ہوگا تو یہ کبیرہ ہے۔ اور جب دلال یا باندیاں فروخت کرنے والا یا فارغ شخص ایسا کرے گا تو وہ کبیرہ نہیں ہے، اس بناء پر ہر گناہ کبیرہ ہے مگر جس گناہ کے متعلق مکلف کو یہ علم یا ظن ہو کہ وہ اللہ کے فضل سے اس گناہ سے نکل جائے گا یا اللہ اس کو معاف فرمادے گا۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٧٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
ایک تعریف یہ ہے کہ فرض ترک اور حرام کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے اور واجب کا ترک اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ صغیرہ ہے۔ گناہ کبیرہ کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت مغیرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ چیزیں حرام کردی ہیں (١) مائوں کی نافرمانی کرنا (٢) حق چیز سے منع کرنا اور ناحق چیز کو طلب کرنا (٣) بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور یہ چیزیں مکروہ قرار دی ہیں : فضول بحث کرنا، بہ کثرت سوال کرنا اور مال ضائع کرنا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٥، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٥٠٥، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٤١ )
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبائر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : (١) اللہ کے ساتھ شریک کرنا (٢) کسی کو ناحق قتل کرنا (٣) ماں باپ کی نافرمانی کرنا، پھر فرمایا : کیا میں تم کو سب سے بڑا کبیرہ نہ بتائوں ؟ آپ نے فرمایا : جھوٹ بولنا یا جھوٹی گواہی دینا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٠٧)
الکہف : ٤٩، ” تبیان القرآن “ ج ٧ ص ١٢٥۔ ١٢١ میں ہم نے گناہ صغیرہ اور کبیرہ کی زیادہ تحقیق کی ہے۔
اس کے بعد فرمایا : بیشک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے۔
یعنی جو اپنے گناہوں پر توبہ اور استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ وسیع مغفرت والا ہے اور بعض اوقات وہ اپنے فضل محض سے بغیر توبہ کے بھی گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے بھی گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔
نیز فرمایا : اور وہ تمہیں خوب جاننے والا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ الایۃ
انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی توجیہ
امام ابو عبد اللہ ترمذی نے کہا : جب زمین سے مٹی نکالی گئی تو ہم سب کو اس مٹی سے پیدا کیا گیا، پھر اس مٹی کو ہمارے آباء کی پشتوں میں رکھ دیا گیا، بعض مٹی سفید اور روشن تھی اور بعض کوئلہ کی طرح سیاہ تھی سو ہم کو ان ہی رنگوں پر پیدا کیا گیا۔
امام اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس رات تمام اولین اور آخرین میرے حجرے کے سامنے پیش کیے گئے، کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! گزری ہوئی مخلوق بھی ! ، فرمایا : ہاں مجھ پر حضرت آدم اور انکے ماسوا سب پیش کیے گئے، مسلمانوں نے پوچھا : اور وہ بھی جو اپنے آباء کی پشتوں میں اور اپنی مائوں کے ارحام میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! وہ مٹی میں متمثل کر کے پیش کیے گئے اور میں نے ان سب کو اس طرح پہچان لیا جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) نے تمام اسماء کو پہچان لیا تھا۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ١٠١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اس کے بعد فرمایا : اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں پیٹ کے بچے تھے۔ الایۃ
انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے متعلق احادیث
اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ تم کو بلا واسطہ مٹی سے پیدا کیا ہے، اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے :
حافظ ابو نعیم نے اپنی کتاب میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ جو فرشتہ رحم پر مقرر کیا گیا ہے، وہ نطفہ کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر یہ کہتا ہے : اے رب ! اس کی تخلیق کی جائے گی یا نہیں کی جائے گی ؟ اگر اللہ فرمائے کہ اس کی تخلیق کی جائے گی تو پھر کہتا ہے : اے رب ! اس کا رزق کتنا ہے ؟ اس کا نشان کیسا ہے ؟ اور اس کی موت کب ہوگی ؟ اللہ فرماتا ہے : تم لوح محفوظ میں دیکھو۔ وہ لوح محفوظ میں دیکھتا ہے تو اس میں اس کا رزق، اس کا نشان، اس کی موت اور اس کا عمل لکھا ہوا ہوتا ہے۔ جس جگہ اس کو دفن کیا جائے گا، وہ وہاں سے مٹی لیتا ہے اور اس کو اس کے نطفہ میں ملا کر گوندھتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مصداق ہے :
مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ( طہٰ : ٥٥ )
ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹا دیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے
(الجامع الاحکام القرآن جز ٦ ص ٣٠٠، مطبوعہ، بیروت)
امام عبد بن حمید اور امام ابن المنذر نے عطاء خراسانی سے روایت کیا ہے کہ جس جگہ انسان کو دفن کیا جائے گا، وہاں کی مٹی کو فرشتہ نطفہ پر چھڑکتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مصداق ہے : ” منھا خلقنا کم “۔ ( الدر المنثور ج ٤ ص ٣٠٢، مطبوعہ ایران)
حافظ ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مولود کے اوپر اس کی قبر کی مٹی چھڑ کی جاتی ہے۔
( حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٢٨٠، مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)
علامہ علی متقی برہان پوری متوفی ٩٧٥ ھ خطیب کے حوالے سے لکھتے ہیں : حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مولود کی ناف میں وہ مٹی ہوتی ہے جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے۔ جب وہ ارذل عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو اس مٹی کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا تھا اور میں اور ابوبکر اور عمر ایک مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی مٹی میں دفن کیے جائیں گے۔ (کنز العمال رقم الحدیث : ٣٢٦٧٣)
ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ ہر انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ احادیث کے علاوہ اس مؤقف پر عقل سے بھی استدلال کیا گیا ہے، کیونکہ انسان کو منی اور حیض کے خون سے پیدا کیا گیا ہے اور یہ دونوں چیزیں خون سے بنتی ہیں اور خون غذا سے بنتا ہے اور غذا گوشت اور زمینی پیداوار ( سبزیوں اور پھلوں) پر مشتمل ہوتی ہے اور حیوان کا گوشت بھی زمینی پیداوار سے بنتا ہے تو مآل زمینی پیداوار مٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ سو خلاصہ یہ ہے کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، پھر اس طریقہ سے مٹی سے نطفہ بنتا ہے اور نطفہ سے متعدداعضاء بنتے ہیں جو رنگ روپ اور صورت شکل میں مختلف ہوتے ہیں، مثلاً قلب، دماغ، پھیپھڑے، جگر اور دیگر بڑی بڑی ہڈیاں، باریک شریانیں اور پٹھے وغیرہ اور ایک مادہ یعنی مٹی سے مختلف صورت و شکل اور مختلف طبائع اور حقائق کے اعضاء پیدا کرنا اور ایک مٹی سے دنیا کے متعدد اور مختلف رنگ و نسل کے انسان پیدا کرنا، صرف اسی کی تخلیق سے عمل میں آسکتا ہے جو حکیم اور مدبر اور قادر اور قیوم ہو۔ پھر ان مختلف انسانوں کی پیدائش ہزار ہا سال سے ایک ہی نظم اور ایک ہی طرز پر ہو رہی ہے اور انسان کی تخلیق کے اس سلسلہ کا نظام واحد ہونا پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا ناظم بھی واحد ہے اور وہ اللہ الواحد القہار ہے۔
خودستائی کی ممانعت
اس کے بعد فرمایا : سو تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ متقین کو خوب جانتا ہے۔ ( النجم : ٣٢)
یعنی تم اپنی تعریف اور توصیف اور حمد وثناء نہ کرو کیونکہ ایسا کرنا ریا کاری سے دور ہے اور تواضع اور خضوع اور خشوع کے قریب ہے، اللہ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ کون زیادہ اخلاص سے عمل کرتا ہے اور کون اللہ کے عذاب سے زیادہ ڈرتا ہے۔
حسن بصری نے کہا : اللہ سبحانہٗ ہر نفس کو جانتا ہے کہ وہ اب کیا عمل کر رہا ہے اور آئندہ کیا عمل کرے گا۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : میں اس امت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کسی کی حمد وثناء نہیں کرتا۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ١٠٢)
اس آیت میں مؤمنین کے لیے یہ رہ نمائی ہے کہ اے مؤمنو ! اللہ تمہارے احوال کو بہت زیادہ جاننے والا ہے، وہ تمہاری پیدائش سے لے کر تمہاری موت تک کے تمام احوال سے واقف ہے سو تم ریا اور فخر سے یہ نہ کہو کہ میں فلاں سے بہتر ہوں اور میں فلاں سے زیادہ مختلف اور متقی ہوں کیونکہ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف مفوض ہیں اور اس کا یہ معنی بھی ہے کہ تم حتمی اور قطعی طور پر یہ نہ کہو کہ میں نجات یافتہ ہوں کیونکہ تمہارے انجام کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
خود ستائی عیب ہے اے خود ستا
زید بن اسلم نے کہا : اس کا معنی ہے : اپنے آپ کو خامیوں اور عیوب سے بری نہ کرو۔
مجاہد نے کہا : اس کا معنی ہے : تم گناہ نہ کرو اور تم کہتے ہو کہ ہم اطاعت کرتے ہیں۔ ( الدرالمنثور ج ٧ ص ٥٨٠)
حضرت زینب بنت ابی سلمہ نے کہا : میرا نام برہ ( نیکی کرنے والی) رکھا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
فَـلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْط ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم : ٣٢)
سو تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے کہ تم میں سے کون نیکی کرنے والا ہے
تم اس کا نام زینب رکھو۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٤٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٩٥٣ )
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 32