میرا آبائی شہر
میرا آبائی شہر
از قلم مفتی علی اصغر (بصورت املا)
5 رجب المرجب 1443
بمطابق 7 فروری 2022
ایک طویل عرصے کے بعد آبائی گاوں جانا ہوا جھڈو اگرچہ کہ سال میں ایک دو دفعہ چکر لگ جاتا ہے والدین کی قبر پر فاتحہ خوانی اصل مقصود ہوتی ہے لیکن گاوں شاید 10 سے 15سالوں بعد جانا ہوا ہے۔ یہاں دو چچا اور دادی مدفون ہیں جبکہ دادا کی قبر روہتک ہریانہ انڈیا میں ہے اور ایک چچا ہجرت کے دوران دنیا سے چلے گئے تھے ان کو کہاں کی خاک میسر ہوئی اس کا کوئی علم نہیں
۔ میری جائے پیدائش تو جھڈو ضلع میرپور خاص شہر کی ہے لیکن والد صاحب اور پورے قبیلے کو تقسیم پاکستان کے وقت جو زمین کلیم میں الاٹ ہوئی تھی وہ جھڈو شہر سے 30 کلو میٹر اندر کنری جھڈو کے درمیان دڑیلو شاخ سے قریب ہے ہمارے گاوں کا نام مہاجر گوٹھ ہے یہ نام سندھ کے قدیم باسیوں نے رکھا ھےجنہوں نے آنے والے مہاجرین کو خوش دلی سے قبول کیا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئیے
کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمانی اتحاد پر عمل پیرا ہوئے اور آج تک انہیں کوئی تکلیف نہیں پنہچائی۔
کلیم ایک بہت بڑی داستان کا نام ہے ھند کے ہریانہ صوبے کی ریاست روہتک میں دادا سے ملنے والی زمین تھیں جو ہجرت کے وقت والد صاحب اور چچا چھوڑ کر آئےتھے
کلیم کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں لاکھ لوگوں کو ڈیل کرنا کتنا مشکل کام ہو گا میں سمجھتا ہوں تاریخ میں شاید ہی اس کی مثال ملے۔
پاکستان میں آکر کون کہاں آباد ہوگا کئی یونیورسٹیاں مل کر بھی شاید آج یہ کام نہ کر سکیں جو اس وقت کے اہل حل و عقد نے انجام دیا ۔
ہریانہ سے آنے والے بیشتر راجپوتوں کو پنجاب میں زمینوں کے کلیم دئیے گئے ایک بڑی تعداد کو سندھ میں آباد کیا گیا ۔فارمولا یہ تھا کہ پاکستان سے جو ھندو نقل مکانی کرتے ہوئے انڈیا گئے ان کو وہ زمینیں دی جائیں گی جو پاکستان جانے والے چھوڑ کر گئے اور پاکستان پہنچنے والوں کو ان لوگوں کی چھوڑی ہوئی زمینیں دی جائیں گی۔
ہریانہ کی انتہائی قیمتی زمینیں چھوڑ کر یہاں صحرائے تھر کے باڈر پر ملنے والی زمینوں میں آکر آباد ہونا اور پھر ایسے گاوں میں جہاں آج بھی سہولت نام کی چیز نہیں آج بھی یہاں پہنچنے کے راستے کچے ہیں جو بارش کے بعد کیچڑ بننے کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں ۔کچھ سالوں سے تو پانی بھی یہاں پر ایک نایاب چیز بن چکا ہے۔رواں بہتی نہری شاخ کا رخ موڑ دیا ہے ۔ ایک ایکڑ زمین کا سالانہ کرایہ صرف 8 سے 10 ہزار روپے ہے۔ جبکہ پنجاب اور سندھ کی پانی کی سہولت والی زمین کا سالانہ کرایہ لاکھوں میں بن جاتا ہے
میں سمجھتا ہوں اتنی تکلیف میں زندگی گزارنے کا یہ عمل صدق و اخلاص پر مشتمل ہو تو اخروی نجات کا ایک بڑا سبب ہے۔
خیر ماضی سے حال کی طرف دوبارہ آتے ہیں
اللہ تعالی ان تکالیف اٹھانے والوں کی مغفرت فرمائے آمین
ایک بڑی تعداد میں گاوں کے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں جس کا سبب بنیادی سہولیات کا نا ہونا ہے صرف 15 یا 16 کےقریب گھر اب اس گاوں میں بچے ہیں میرے والد صاحب نے 1960 سے1965 کے درمیان میں ہی یہ گاوں چھوڑ دیا تھا میرے نانا کا جھڈو میں ایک اچھا کارو بار تھا ان کی خواہش پرمیرے والد محترم جھڈو شفٹ ہو گئےیہی وجہ ہے کہ میرے بھائی اور میری تعلیم ممکن ہو سکی
جھڈو شہر ایشیاء کی دوسری بڑی مرچ منڈی ہے جبکہ کنری ایشاء کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہے دونوں شہر قریب قریب ہیں
مرچ کے بعض بیوپاریوں سے بھی ملاقات ہوئی تصویر میں جو منظر ہے اسے مقامی بولی میں کھوڑا کرنا یعنی ڈھیر کرنا بولتے ہیں
جب کوئی بیوپاری بڑی لاٹ خریدتا ہے تو تمام بوریاں خالی کروا کر مرچ کی کوالٹی چیک کرتا ہے کہ جو مال بولا تھا وہی ہے یا نہیں
اس تصویر میں نظر آنے والی مرچ لونگی یا سندھی مرچ کہلاتی ہے جو سب سے عمدہ اور مہنگی مرچ ہے پچھلے سال 30 ہزار روپے من تک ریٹ چلا گیا تھا لیکن اب نئی فصل میں بہت کم ہے بلکہ فصل تقریبا کلوز ہو چکی ہے جو مرچ عام طور پر پسائی مین استعمال ہوتی ہےوہ لمبی والی لال مرچ ہوتی ہےاسے ہائبرٹ مرچ کہتے ہیں اور اس کی اور بھی کئی قسمین اور نام ہیں پنجاب کے بعض علاقوں میں ہائبرٹ مرچ کی کاشت شروع ہو چکی ہے لیکن لونگی مرچ صرف جھڈو اور کنری کی زمینوں میں ہی ہوتی ہے
جھڈو اور اطراف کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں گندم کی فصل سب سے پہلے تیار ہوتی ہے پوسٹ کے ساتھ منسلک تصویر ہماری آبائی زمین کی ہے جو کل یعنی6 فروری 2022 بروز اتوار کو بنائی گئی تھی اس میں دیکھا جاسکتا ھے
گندم کی فصل میں سنہری بالیاں آ چکی ہیں مارچ سے پہلے کٹائی شروع ہو جائے گی
جھڈو اور اطراف کے مشاہیر کی اگر بات کریں تو جھڈو شہر میں سخی سرور اور جھڈو سے 12 سے 15 کلو میٹر دور حضرت سمن سرکار کا مزار مرجع خلائق ہے اگر دنیاوی شخصیات کی بات کریں تو میر فتح جو کہ جھڈو کے سب سے پہلے چیئر مین تھے ، ان کے بڑے بیٹے میر اللہ بچایو خان ٹالپور نے تقریبا ً سو سال پہلے امریکہ کی ٹیکسس(texas) یونیورسٹی سے ایگریکلچر میں ایم ایس سی کی تھی ۔ میر فتح کا ایک بیٹا میر لقمان خان ایرو نائیک انجینئر تھا ۔
جھڈو سے 15 کلو میٹر دوری پر واقع ٹنڈو جان محمد شہر واقع ہےسابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف (2001 سے 2004) جنرل یوسف کا تعلق اسی شہر سے تھا آپ قائم خانی برادری سے تعلق رکھتے ہیں
جھڈو شہر میں پاکستان کے قیام سے پہلے جو قومیں آباد تھیں ان میں سر فہرست میر، تالپور اور ہندو بنئے ہیں جب نہری نظام بنا 1930 سے پہلےانگریز نے پنجاب سے آرائیں اور جٹ برادری کو اس پوری پٹی میں مختلف جگہوں پر لا کر آباد کیا اور زمینیں الاٹ کی کیونکہ یہ لوگ زمینوں کو اچھی طرح کاشت کرنا جانتے ہیں
قیام پاکستان کے وقت یعنی 1947 میں کچھ ہندو بنئیے جلے گئے لیکن کچھ یہیں آباد رہے
ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو بڑی تعداد میں یہاں آباد کیا گیا اور وہ گھر دئیے گئے جوانڈیا جانے والے چھوڑ کر گئے تھے ۔راجپوت، قائم خانی اور ناگوری دیگر قبائل کے ساتھ بڑی قومیں تھیں جن کو جھڈو میں لا کر آباد کیا گیا ناگوری قوم راجھستان کی رہنے والی تھی اور انت
کی مادری زبان بھی راجھستانی ہے قائم خانی قوم راجھستان او ہریانہ میں اباد تھی جبکہ راجپوت تقریبا ہریانہ سے تعلق رکھتے تھےاور روہتک حصار اور کرنال تین وہ بڑے ضلعے تھےجو مسلمان راجپوتوں کا گڑھ تھے
بہت سارے لوگ یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ آپ کا آبائی تعلق کہاں سے ہے ؟ یا وہ نئی نسل جو تقسیم ہندوستان سے پیدا ہونے والے مسائل سے یکسر نا واقف ہیں یا پھر وہ لوگ جو پاکستان کے اس دور دراز خطے کی حالیہ تاریخ اور پس منظز سے نا واقف ہے ان تینوں قسم کے احباب کے لئیے حیدرآباد سے کراچی واپسی کے سفر میں گاڑی چلاتے ہوئے میں یہ تحریر اپنی اہلیہ کو املا کروائی ہے
اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص اورعمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور قیام پاکستان کے وقت ہمارے اکابرین نے جو قربانیاں دیں ان کو قبال فرمائے
اور ان کی مغفرت فرمائے آمین