وَاَنَّهٗۤ اَهۡلَكَ عَادَۨا الْاُوْلٰى ۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 50
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاَنَّهٗۤ اَهۡلَكَ عَادَۨا الْاُوْلٰى ۞
ترجمہ:
اور یہ کہ اس نے پہلی (قوم) عاد کو ہلاک کردیا
النجم :50-55 میں فرمایا : اور یہ کہ اسی نے پہلی (قوم) عاد کو ہلاک کردیا۔ اور (قوم) ثمود میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ اور اس سے پہلے قوم نوح (کے کافروں) کو بیشک وہ بہت ظالم اور بہت سرکش تھے۔ اور قوم (لوط) کی پلٹائی ہوئی بستیوں کو اوپر سے نیچے پھینک دیا۔ تو (سنگریزوں کی بارش) نے ان کو ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا۔ پس (اے مخاطب) تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرتا رہے گا۔
سابقہ امتوں میں سے مکذبین پر عذاب نازل فرمانا
قوم عاد کی صفت ذکر فرمائی کہ وہ پہلی عاد ہے، کیونکہ وہ قوم ثمود سے پہلے تھی، ابن زید نے کہا کہ اس کو عاد والی اس لئے فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جس قوم کو سب سے پہلے ہلاک کیا گیا، وہ قوم عاد تھی اور امام ابن اسحاق نے کہا : عاد کی دو قومیں تھیں، پہلی قوم کو آندھی سے ہلاک کیا گیا اور دوسری قوم کو ایک زبردست چیخ کے عذاب سے ہلاک کیا گیا، ایک قول یہ ہے کہ عاد اولی، عاد بن ارم بن عوض بن سام بن نوح ہے، اور عاد ثانیہ عاد کی اولاد سے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عاد ثانیہ وہ زبردست جسیم لوگ تھے جو حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم تھے۔
اور قوم ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم تھے، ان کو ایک زبردست چیخ سے ہلاک کیا گیا، اغلب یہ ہے کہ یہی لوگ عاد ثانیہ تھے۔
اور عاد اور ثمود سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کیا گیا ان کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ بہت ظالم اور بہت سرکش تھے، کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے درمیان بہت طویل عرصہ تک قیام کیا اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص اپنے بیٹے کو حضرت نوح کے پاس لے کرجاتا اور حضرت نوح کی طرف اشارہ کر کے اپنے بیٹے کہتا : ان سے بچ کر رہنا، یہ بہت جھوٹے ہیں، میرا باپ بھی مجھے ان کے پاس لے کر گیا تھا اور اس نے بھی مجھے یہی نصیحت کی تھی، ان آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر کفار مکہ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں تو آپ پریشان نہ ہوں، ہر دور میں نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے۔
اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کو بلندی پر لے جا کر زمین پر الٹ کر پھینک دیا گیا تھا، حضرت جبریل (علیہ السلام) نے ان کو زمین کی بلندی سے پلٹ کر پھینک دیا تھا، پھر اوپر سے ان پر نشان زدہ کنکریاں برسائی گئیں، ان تمام واقعات کو سورة ہود میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
جب قریش مکہ، مکہ سے شام کا سفر کرتے تھے تو ان کو ان سابقہ امتوں پر عذاب کی نشانیاں نظر آتی تھیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” اے وہ شخص جو اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کرتا ہے تو اللہ کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرتا رہے گا، ان نشانیوں کو نعمتوں سے تعبیر فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرنے والی نشانیاں بھی لوگوں کے لئے نعمت ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 50
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]