نصابی کتابوں میں سرسید احمد خان کو ایک عظیم مصلح کے روپ میں دکھایا جاتا ہے جو کہ مسلمانانِ ہند کو پسماندگی سے نکالنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک فرشتے کے روپ میں سامنے آیا اور علیگڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمان “اعلیٰ تعلیم” حاصل کر کے “کلیدی عہدوں” پر فائز ہو سکیں

جبکہ

حقائق کچھ اور ہیں

آثار سرسید میں مقالات سرسید کے حوالہ سے لکھا ہے کہ سرسید کہتے ہیں :

” ہمارے ملک کو اور ہماری قوم کو اگر در حقیقت ترقی کرنی اور فی الواقعہ ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کا سچا خیرخواہ اور وفادار رعیت بننا ہے تو اس کے لیے بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ علوم مغربی اور زبان مغربی میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرے “

چند چیزیں غور طلب ہیں

ملکہ برطانیہ کو “قیصرہ ہند ” کے لقب سے ملقب کرنا اور مغربی زبان و علوم کے حصول کا مقصد برطانوی راج کا خیرخواہ اور وفادار بننا !

نواب محسن الملک کے مرتب کردہ ایڈریس اور سپیچز کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ :

 

” اصلی مقصد اس کالج کا یہ ہے کہ مسلمانوں میں عموماََ اور بالتخصیص اعلیٰ درجے کے مسلمان خاندانوں میں یورپین سائنسز اور لٹریچر کو رواج دے اور ایک ایسا گروہ پیدا کرے جو ازروئے مذہب مسلمان ، ازروئے خون و رنگ ہندوستانی ہوں مگر باعتبار مذاق اور رائے و فہم کے انگریز ہوں “

مقالات حالی کے حوالے سے سرسید کے سب سے بڑے مداح الطاف حسین حالی کا تبصرہ یوں بیان ہے :

 

“سب سے زیادہ وفاداری اور لائلٹی کی مستحکم بنیاد جو سرسید کی مذہبی تحریروں نے مسلمانوں میں قائم کی ہے وہ انگریزی تعلیم کی مزاحمتوں کو دور کرنا ، ان کو عام طور پر اس کی طرف متوجہ کرنا اور خاص کر ان کی تعلیم کے لیے محمڈن کالج قائم کرنا ہےجس کی رو سے نہایت وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس قدر اعلٰی تعلیم مسلمانوں میں پھیلتی جائے گی اسی قدر وہ تاج برطانیہ کے سب سے زیادہ وفادار اور گورنمنٹ کے زیادہ معتمد علیہ بنتے جائیں گے “

 

آثار سرسید ص 58-60

 

ان اقتباسات کی روشنی میں سرسید کا اصل کردار کھل کر سامنے آ جاتا ہے !!!

 

محمد إسحٰق قریشي ألسلطاني