اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد اور بھارتی حکومت

 

١٥/ مارچ ٢٠١٩ء کو نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں ہوے دہشت گردانہ حملے میں ٥١/ مسلمانوں کی شہادت ہوئی تھی جب کہ ٤٠/ لوگ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ ایک عیسائی نے اسلام دشمنی اور مسلم نفرت سے مغلوب ہو کر اس سانحے کو انجام دیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم‌ جسیندا ارڈرن نے اس وقت جس طرح کے رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا، وہ آج کے اسلاموفوبیا زدہ ماحول میں مثالی ہے۔‌

 

گزشتہ دنوں پاکستان کی قیادت میں ٥٧/ مسلم ممالک پر مشتمل او آئی سی (OIC) یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس نے اقوام متحدہ (یو این) میں اسلاموفوبیا کے خلاف لڑنے کے لیے ١٥/مارچ کو مختص کرنے کی ایک قرار داد پیش کی۔ او آئی سی کے ممبر ممالک کے علاوہ چین اور روس سمیت ٨/ ممالک کی رضامندی سے یہ قرار داد یو این میں منظور ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اب ہر سال ١٥/مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن منایا جاے گا۔ اس موقعے پر مختلف پروگرامز منعقد کر اس نفرت اور حقارت کو دنیا کے سامنے لایا جائے گا دنیا بھر کے مسلمان آے دن جس کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ اور کوشش کی جائے گی کہ اس طرح کے واقعات کم سے کم رونما ہوں۔

 

یہ تو وقت ہی بتاے گا کہ اس عالمی دن کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ تاہم دنیا میں بڑھتے اسلاموفوبیا کے پیش نظر اس قرار داد کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ کچھ ہو یا نہیں، کم سے کم اتنا فائدہ تو یقینی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم سے اسلاموفوبیا کا وجود تسلیم کر لیا گیا۔ اور یاد رہے کہ سزا دینا/دلانا تبھی ممکن ہوتا ہے جب پہلے یہ مان لیا جاے کہ جرم سرزد ہوا ہے۔ اس لیے پوری امت مسلمہ کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان مبارک باد کے مستحق ہیں۔

 

اس قرار داد کے حوالے سے بھارتی حکومت کا رویہ امید کے عین مطابق رہا۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندہ ٹی ایس ترو مورتی نے اس کے خلاف بولتے ہوے کہا کہ اقوام متحدہ کو اس طرح کے مذہبی معاملات سے اوپر رہنا‌ ضروری ہے جو دنیا کو ایک خاندان کی طرح دیکھنے اور امن و یک جہتی کے ساتھ رہنے کے بجاے ہمیں تقسیم کر سکتے ہیں۔ مزید کہا کہ یہ قرار داد دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر ہو رہے ظلم و ستم کو دبا سکتی ہے۔ ترو مورتی کے مطابق، صرف مسلمان اور دیگر آسمانی مذاہب کے متبعین کے خلاف ہی نفرت نہیں پائی جاتی؛ بلکہ ہندو، سکھ اور بدھ دھرموں کے ماننے والے بھی مذہبی تشدد کے شکار ہوتے ہیں۔

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج مسلمان ہر جگہ ظلم کی چکیوں میں پس رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ بھارتی نمائندے کو یہ گوارہ نہیں کہ ہم‌ پر ہو رہے ستم کے خلاف سال میں ایک دن بات بھی کی جاے۔ اور یہ بڑی بے تکی بات کہی کہ اقوام متحدہ کو ایسے معاملات سے اوپر رہنا‌ چاہیے۔ کیا ترو مورتی کو نہیں پتا کہ جب گھر کے کسی مخصوص فرد کو دبایا جا رہا ہو تو اس کے حق میں بولنا، خاندان کو تقسیم کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ بلکہ گھر کو جوڑے رکھنے کی سعی کے ‌طور پر اس عمل کی ستائش ہوتی ہے۔

 

ہم نہیں کہتے کہ ہندوؤں کو مذہبی بنیاد پر نہیں ستایا جاتا۔ لیکن یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جس ظلم و ستم کا مسلمان سامنا کر رہے ہیں۔‌ سچ تو یہ ہے کہ آج ہندوؤں پر خود ہندو اتنا ستم ڈھا رہے جتنا شاید کسی دوسرے مذہب کے پیروکار بھی نہیں۔ ‘اونچی ذات’ کے ہندوؤں کی طرف سے مذہب کے نام پر اپنے ہی ہم مذہب دلتوں پر ہونے والا ظلم کسی بھی دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے کم نہیں۔‌ ایسے میں ہندوفوبیا کی بات سمجھ سے پرے ہے۔

 

سوال یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کے خلاف اس قرار داد سے بھارتی حکومت اتنا تلملا کیوں اٹھی؟ شاید اس لیے کہ اس وقت پوری دنیا میں اسلاموفوبیا کی سب سے خطرناک لہر کہیں اور نہیں، بلکہ خود بھارت میں چل رہی ہے (جیسا کہ معروف امریکی ماہر لسانیات نوآم چومسکی نے بھی گزشتہ دنوں اس کا اعتراف کیا) ۔ اور ظاہر ہے چور کب چاہے گا کہ چوری کا چرچا ہو۔

 

✍️ #محمدحیدررضا