آج اگر کوئی اپنے نبی ﷺ سے مدد مانگتا ہے تو
محدث و فقیہ محمد بن موسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مجھے ایک نیک شخص نے بتایا کہ:
میں کافروں کے شہروں میں گرفتار تھا ، ( اللہ انھیں ذلیل کرے ) میں جس شہر میں تھا وہاں کے بادشاہ یا اس کے بھائی کا ایک بحری جہاز آیا تو انھوں نے تمام قیدیوں کو اکٹھا کیا ، ( کہ جہاز کو پانی سے نکال کر کنارے تک لے آئیں ) ان قیدیوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ تھی ، لیکن جہازا تنابڑا تھا کہ سارے مل کر بھی اسے سمندر سے نہ کھینچ سکے ۔
آخر ایک شخص بادشاہ کے پاس آیا اور کہنےلگا:
اس جہاز کو صرف مسلمان نکال سکتے ہیں ، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ( جہاز نکالتے وقت ) جو بھی کہیں انھیں روکا نہ جائے ۔
انھوں نے ہمیں جمع کیا اور کہا جو چاہے کہو ( لیکن ہمارا بحری جہاز کنارے لگادو ) ۔
ہم ساڑھے چار سو لوگ تھے ، ہم نے مل کر ” یا رسول اللہ ! ” کہا اور ایک ہی ہلے میں جہاز کو کھینچ کر خشکی پر لے آئے ، ببرکۃ استغاثنا باالنبی ﷺ یہ ساری برکت سرکار ﷺ سے مدد مانگنے کی تھی ۔
( مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام علیہ الصلاۃ والسلام فی الیقظۃ والمنام ، ص114 ، 115 ، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
آج بھی اگر کوئی اپنے نبی ﷺ سے مدد مانگتا ہے تو وہ اللہ کی عطا سے اس کی مدد فرماتے ہیں ۔
آپ کے مدد فرمانے کے بےشمار واقعات ہیں جو صحابہ ، تابعین اور ائمہ دین کے علاوہ ہم جیسے گناہ گار آج بھی ملاحظہ کرتے رہتے ہیں ؎
فریاد اُمَّتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خیرِ بشَر کو خبر نہ ہو 😢
✍️لقمان شاہد
24-3-2022 ء