کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 21 رکوع 2 سورہ العنکبوت آیت نمبر 52 تا 63
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ شَهِیْدًاۚ-یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوْا بِاللّٰهِۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۵۲)
تم فرماؤ اللہ بس(کافی) ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہ (ف۱۳۰) جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جو باطل پر یقین لائے اور اللہ کے منکر ہوئے وہی گھاٹے میں ہیں
(ف130)
میرے صدقِ رسالت اور تمہاری تکذیب کا معجزات سے میری تائید فرما کر ۔
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِؕ-وَ لَوْ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُؕ-وَ لَیَاْتِیَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۵۳)
اور تم سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں (ف۱۳۱) اور اگر ایک ٹھہرائی مدت نہ ہوتی (ف۱۳۲) تو ضرور ان پر عذاب آجاتا (ف۱۳۳) اور ضرور ان پر اچانک آئے گا جب وہ بے خبر ہوں گے
(ف131)
یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی جس نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا تھا کہ ہمارے اوپر آسمان سے پتّھروں کی بارش کرائیے ۔
(ف132)
جو اللہ تعالٰی نے معیّن کی ہے اور اس مدّت تک عذاب کا مؤخّر فرمانا مقتضائے حکمت ہے ۔
(ف133)
اور تاخیر نہ ہوتی ۔
یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَۙ(۵۴)
تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اور بےشک جہنم گھیرے ہوئے ہے کافروں کو (ف۱۳۴)
(ف134)
اس سے ان میں کا کوئی بھی نہ بچے گا ۔
یَوْمَ یَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَ یَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۵۵)
جس دن اُنہیں ڈھانپے گا عذاب اُن کے اوپر اور اُن کے پاؤں کے نیچے سے اور فرمائے گا چکھو اپنے کیے کا مزہ (ف۱۳۵)
(ف135)
یعنی اپنے اعمال کی جزا ۔
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ(۵۶)
اے میرے بندو جو ایمان لائے بےشک میری زمین وسیع ہے تو میری ہی بندگی کرو (ف۱۳۶)
(ف136)
جس زمین میں بسہولت عبادت کر سکو معنٰی یہ ہیں کہ جب مومن کو کسی سرزمین میں اپنے دین پر قائم رہنا اور عبادت کرنا دشوار ہو تو چاہئے کہ وہ ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرے جہاں آسانی سے عبادت کر سکے اور دین کی پابندی میں دشواریاں درپیش نہ ہوں ۔
شانِ نُزول : یہ آیت ضعفاءِ مسلمینِ مکّہ کے حق میں نازِل ہوئی جنہیں وہاں رہ کر اسلام کے اظہار میں خطرے اور تکلیفیں تھیں اور نہایت ضیق میں تھے انہیں حکم دیا گیا کہ میری بندگی تو ضرور ہے یہاں رہ کر نہ کر سکو تو مدینہ شریف کو ہجرت کر جاؤ وہ وسیع ہے وہاں امن ہے ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ-ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۵۷)
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے (ف۱۳۷) پھر ہماری ہی طرف پھروگے (ف۱۳۸)
(ف137)
اور اس دارِ فانی کو چھوڑنا ہی ہے ۔
(ف138)
ثواب و عذاب اور جزائے اعمال کے لئے تو لازم ہے کہ ہمارے دین پر قائم رہو اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے ہجرت کرو ۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَۗۖ(۵۸)
اور بےشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ضرور ہم انہیں جنت کے بالا خانوں پر جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ہمیشہ ان میں رہیں گے کیا ہی اچھا اجر کام والوں کا (ف۱۳۹)
(ف139)
جو اللہ تعالٰی کی اطاعت بجا لائے ۔
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(۵۹)
وہ جنہوں نے صبر کیا (ف۱۴۰) اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں (ف۱۴۱)
(ف140)
سختیوں پر اور کسی شدّت میں اپنے دین کو نہ چھوڑا ، مشرکین کی ایذا سہی ، ہجرت اختیار کر کے دین کی خاطر وطن کو چھوڑنا گوارا کیا ۔
(ف141)
تمام امور میں ۔
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ﰮ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ ﳲ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۶۰)
اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں کہ اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے (ف۱۴۲) اللہ روزی دیتا ہے اُنہیں اور تمہیں (ف۱۴۳) اور وہی سُنتا جانتا ہے (ف۱۴۴)
(ف142)
شانِ نُزول : مکّۂ مکرّمہ میں مومنین کو مشرکین شب و روز طرح طرح کی ایذائیں دیتے رہتے تھے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے مدینۂ طیّبہ کی طرف ہجرت کرنے کو فرمایا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم مدینہ شریف کو کیسے چلے جائیں نہ وہاں ہمارا گھر ، نہ مال ، کون ہمیں کھلائے گا ، کون پلائے گا ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ بہت سے جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے اس کی انہیں قوّت نہیں اور نہ وہ اگلے دن کے لئے کوئی ذخیرہ جمع کرتے ہیں جیسے کہ بہائم ہیں طیور ہیں ۔
(ف143)
تو جہاں ہو گے وہی روزی دے گا تو یہ کیا پوچھنا کہ ہمیں کون کھلائے گا کون پلائے گا ساری خَلق کا اللہ رزّاق ہے ضعیف اور قوی مقیم اور مسافر سب کو وہی روزی دیتا ہے ۔
(ف144)
تمہارے اقوال اور تمہارے دل کی باتوں کو ۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اگر تم اللہ تعالٰی پر توکُّل کرو جیسا چاہئے تو وہ تمہیں ایسی روزی دے جیسی پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے خالی پیٹ اٹھتے ہیں شام کو سیر واپس ہوتے ہیں ۔ (ترمذی)
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُۚ-فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۶۱)
اور اگر تم اُن سے پوچھو (ف۱۴۵) کس نے بنائے آسمان اور زمین اور کام میں لگائے سورج اور چاند تو ضرور کہیں گے اللہ نے تو کہاں اوندھے جاتے ہیں (ف۱۴۶)
(ف145)
یعنی کُفّارِ مکّہ سے ۔
(ف146)
اور باوجود اس اقرار کے کس طرح اللہ تعالٰی کی توحید سے منحرف ہوتے ہیں ۔
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ لَهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۶۲)
اللہ کشادہ کرتا ہے رزق اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے جس کے لیے چاہے بےشک اللہ سب کچھ جانتا ہے
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُؕ-قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۠(۶۳)
اور جو تم اُن سے پوچھو کس نے اُتارا آسمان سے پانی تو اس کے سبب زمین زندہ کردی مَرے پیچھے ضرور کہیں گے اللہ نے (ف۱۴۷) تم فرماؤ سب خوبیاں اللہ کو بلکہ اُن میں اکثر بے عقل ہیں (ف۱۴۸)
(ف147)
اس کے مقِر ہیں ۔
(ف148)
کہ باوجود اس اقرار کے توحید کے منکِر ہیں ۔