روزہ،صحت،شفٹ،ٹپس،مہنگائی مت کرو
*روزہ،صحت،شفٹ،ٹپس،مہنگائی مت کرو……..!!*
نفس پرست نصاری نے اللہ کے حکم کو بدلتے ہوئے روزوں کو موسم بہار میں شفٹ کر دیا تھا..
تفسیر طبری میں ہے کہ:
فاشتد على النصارى صيامُ رمَضان، وجعل يُقَلَّبُ عليهم في الشتاء والصيف. فلما رأوا ذلك اجتمعوا فجعلوا صيامًا في الفصل بين الشتاء والصيف..
ترجمہ:
نصاری(عیسائیوں)پر رمضان کے روزے سخت ہوگئے اور رمضان ان پر کبھی گرمیوں مین آتا تو کبھی سردیوں میں، اس پر مل بیٹھے اور روزوں کو موسم بہار مین شفٹ کر دیا…(تفسیر طبری سورہ بقرہ ایت 183 کی تفسیر)
.
اس میں غامدی جیسوں کا رد ہے کہ جو گرمی امتحان کرکٹ وغیرہ کی وجہ سے روزے شفٹ کا فتوی دیتے ہیں…روزہ وقت ہی پے رکھنا لازم ، ان امور کو شفٹ کرنا لازم الا یہ کہ جو واقعی مریض ہو کہ مر جائے گا یا بھرپور کوشش کے باوجود روزے کی وجہ بہت بڑا نقصان ہوجائے گا تو اس کے لیے انفرادی طور پر فتوی اسلام نے دیا کہ مجبوری سے جلد چھٹکارا پا کر جلد روزے قضاء رکھے
.
القرآن:
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ
تو تم میں سے جو مریض ہو(کہ روزے نہ رکھ سکے یا مریض ہو جانے کا قوی اندیشہ ہو)یا سفر میں ہو تو روزے قضاء کرکے رکھ سکتا ہے
(سورہ بقرہ آیت184)
.
لا يجوز أن يعمل عملا يصل به إلى الضعف فيخبز نصف النهار ويستريح الباقي،ولو ضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة فله أن يفطر، وجب عليه القضاء، وعلى هذا الحصاد إذا لم يقدر عليه مع الصوم ويهلك الزرع بالتأخير لا شك في جواز الفطر والقضاء وكذا الخباز،لكن لو كان آجر نفسه في العمل مدة معلومة فجاء رمضان فالظاهر أن له الفطر وإن كان عنده ما يكفيه إذا لم يرض المستأجر بفسخ الإجارة..العوارض المبيحة لعدم الصوم وقد ذكر المصنف منها خمسة وبقي الإكراه وخوف هلاك أو نقصان عقل ولو بعطش أو جوع شديد أو مريض خاف الزيادة) لمرضه وصحيح خاف المرض،
یعنی:
کسی کےلیے ایسا کام جائز نہیں کہ کام،مشقت،تھکن،بھوک پیاس کی وجہ سے روزہ چھوڑنا یا توڑنا پڑےلیھذا کسان مزدور محنت کش آدھا دن یا مناسب وقت تک کام کریں باقی وقت آرام کریں اور روزہ رکھیں
مگر
اگر ایسا ممکن نہ ہو مثلا آدھا دن فصل کاٹنے کے باوجود یا تاخیر کی وجہ سےفصل بہت نقصان میں جائےگی(اور فصل بچانے کا کوئی اور چارہ نہ ہو)
یا
مالک آدھا دن مزدوری پے نہیں رکھتا پورے دن کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں
یا
آدھا دن کٹائی مزدوری وغیرہ ضروری کام کرنے سے کوئی چارہ نہ ہو اور کام سے مشقت بہت ہوکہ شدید بھوک پیاس گرمی روزہ برداشت نہ ہوگا،بیمار پڑ جائے گا تو ان صورتوں میں انہیں روزہ قضاء کرکے رکھنا جائز ہے..(دیکھیے فتاوی شامی،3/360,362ملقتطا)
.
الحدیث:
صوموا تصحوا…..ترجمہ: روزہ رکھو صحت پاؤ گے
(جامع صغیر حدیث5060)
(الطبراني,الأوسط ,8/174حدیث8312)
(الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني ,1/236)
.
①وہ.لوگ جو ڈاکٹر و حکیموں کے کہنے پے بھوک پیاس پرہیز برداشت کرتے ہیں انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ حکیموں کے حکیم اللہ عزوجل اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ و السلام کا روزے بھوک پیاس پرہیز صحت کا فرمان ڈاکٹر کی بات سے کہیں بڑھ کر معتمد ہے…. *ایمان مضبوط ہو تو بھوک پیاس سردی گرمی کچھ نہیں……..!!*
.
②روحانی فوائد مثلا احساس ، صبر، قناعت، فیاضی، درد و خوشی ،اطاعت و وفاداری وغیرہ روحانی اخروی فوائد بےشمار ہیں لیکن اس کےساتھ ساتھ طبی فلسفی لحاظ سے بھی روزہ مفید ہے.. اگرچہ بظاہر بھوک پیاس گرمی سے تکلیف اور کمزوری محسوس ہوتی ہے مگر اس کے ظاہری طبی فوائد اور صحت مجموعی طور پر ضرور ہیں..
.
③ ہر موسم میں رمضان المبارک گھومتا ہوا آتا ہے..اس طرح پچاس ساٹھ سالہ عام زندگی میں ہر شخص ہر موسم میں روزے رکھتا ہوا آتا ہے.. ایسی خوبصورت پرہیز علاج کسی اور چیز میں نہیں.. ہر موسم میں پرہیز بھوک پیاس کے اپنے ہی فوائد ہیں..
.
④روزوےرکھنےسےجسم کا نظامِ انہضام ٹھیک ہوتا ہے… صبر اور برداشت سے انسان کی قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے اور ذہنی امراض میں افاقہ ہوتا ہے…. سحری اور افطاری کی وجہ سے کھانے پینے سونے کا ٹائم بدل جاتا ہے جس سے جسم کے ہر نظام کو بدلنا پرتا ہے.. اس طرح ہر نظام اور کافی معاملات میں تبدیلی آتی ہے.. ہر نظام کے بدلاؤ سے ہر نظام سرگرمی و طاقت پاتا ہے..
.
⑤ایک طرف انرجی پروٹینز اور مفید بیکٹیریا بڑھتے ہیں تو دوسرے طرف بھوک پیاس کی وجہ سےپروٹینز چربی میں ضائع نہیں ہوتے بلکہ الٹا چربی کچھ پگلتی ہے اور اس طرح طاقت انرجی مزید بڑھتے ہیں اور ضائع نہیں ہوتے بلکہ اعضاء کو طاقت دیتے ہیں… ان میں جذب ہوتے ہیں.. بطور خوراک محفوظ ہوتے ہیں.. اس طرح جسم کے تمام اعضاء مضبوط ہوتے ہیں اگرچہ ہمیں بظاہر سستی محسوس ہوتی ہے،خواہشات میں کمی ہوتی ہے مگر اندر ہی اندر طاقت ملتی رہتی ہے.. اس طرح معدہ گردے دل دماغ تمام اعضاء مضبوط ہوتے ہیں،بہتر ہوتے ہیں
.
⑥اور بھی بہت بہت فوائد و صحت کے نکات ہیں مگر یاد رہے کہ ان تمام اندرونی پوشیدہ فوائد کا اثر فوری ظاہر ہونا ضروری نہیں مگر فوائد ضرور ہیں.. اور پھر یہ فوائد یہ پرہیز ہر موسم میں ہوتی ہے.. اس طرح پوری زندگی میں جسم روزے کی وجہ سے فوائد پاتا ہے..
.
ان تمام فوائد کو علامہ عبدالرؤف نے حرالی کے حوالے سے مذکورہ.حدیث کی شرح میں دو لائنوں میں یوں بیان فرما دیا:
فيه إشعار بأن الصائم يناله من الخير في جسمه وصحته ورزقه حظ وافر مع عظم الأجر في الآخرة ففيه صحة للبدن والعقل
ترجمہ:
اس حدیث پاک مین یہ شعور دیا گیا ہے کہ روزہ دار کو جسم میں صحت میں رزق میں خیر کا بہت وافر حصہ ملتا ہے اور اخرت میں.اجر اسکے علاوہ ہے، روزے میں جسم کی.صحتمندی ہے،عقل کی صحتمندی ہے..
(فیض القدیر شرح حدیث5060)
.
نوٹ:
یہ فوائد عام طور پر ہر ایک روزہ دار کو ملتے ہیں.. چھوٹے چھوٹے امراض و تکالیف والے صبر و ہمت اور مضبوط ایمان کے ساتھ روزہ رکھیں انھیں بھی فوائد ملتے ہیں بلکہ انہیں تو زیادہ اجر ملتا ہے..البتہ جو واقعی مجبور ہو یا شدید بیمار ہو..یا جس کے لیے واقعی تجربے کے تحت ناقابل برداشت ہو کہ شدید بیمار ہوجائے گا تو ایسے لوگوں کو اسلام بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ قضاء کرکے روزہ رکھیں… اور بوڑھے یا دائمی مریض جو کسی بھی طرح روزے نہیں رکھ سکتے اور کسی بھی طرح کسی بھی موسم میں قضاء بھی نہیں رکھ سکتے تو ایسے لوگوں مجبوروں کو اسلام نے فدیہ ادا کرنے کی سھولت دی ہے..
.
اللہ کی قسم اسلام جیسا پیارا فطری آسان اور فائدہ مند حسین مذہب کوئی نہیں…..اسلام زندہ آباد
.
مختصرا حدیث اور اسکی شرح سے جسمانی روحانی فوائد پڑھنے کے بعد اب لیجیے ایک سائنسی رپورٹ پڑھیے جس میں روزے کے جمسانی فوائد کا ذکر دنیا کی معتبرترین سمجھی جانے والی ویب سائٹ بی بی اردو کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے
.
رمضان 2019: روزے کا انسانی جسم پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ایمن خواجہ
بی بی سی ورلڈ سروس
7 مئ 2019
تکنیکی طور پر آپ کا جسم روزہ شروع کرنے کے آٹھ گھنٹے تک معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے
.
ہر سال کروڑوں مسلمان سحری سے لے کر سورج ڈھلنے تک روزہ رکھتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں دنیا کے کرۂ نصف شمالی میں رمضان گرمیوں کے موسم میں آتا ہے، جب دنیا کے کئی علاقوں میں گرمی پڑتی ہے اور دن لمبے ہوتے ہیں۔
ناروے جیسے شمالی ملکوں میں تو روزہ 20 گھنٹے سے زیادہ لمبا ہو سکتا ہے۔
.
کیا یہ صحت کے لیے مفید ہے اور اگر آپ لگا تار 30 دنوں تک ایسا کرتے رہیں تو آپ کے جسم پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں….؟؟
.
سب سے مشکل وقت: پہلے دو دن
تکنیکی طور پر آپ کا جسم روزہ شروع کرنے کے آٹھ گھنٹے تک معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہو جائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔
پہلے چند دن مشکل ترین ہوتے ہیں
جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کے بطور خوراک استعمال سے وزن گھٹنا شروع ہو جاتا ہے، کولیسٹرول کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جسم میں شوگر کم ہونے سے کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سردرد، سر چکرانا، متلی اور سانس سے بدبو جیسی شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب شدید بھوک لگنا شروع ہو جاتی ہے۔
.
.
تیسرا تا ساتواں دن: پانی کی کمی
جب جسم روزے کا عادی ہو جاتا ہے تو چربی کو پگھلا کر اس سے گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے اس لیے افطار کے بعد پانی زیادہ مقدار میں پینا چاہیے کیوں کہ روزے کی حالت میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن واقع ہو سکتی ہے۔
افطار کے بعد پانی زیادہ مقدار میں پینا چاہیے کیوں کہ روزے کی حالت میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن واقع ہو سکتی ہے
اس دوران آپ کے کھانوں میں ’توانائی والی خوراک‘ شامل ہونا چاہیے، جیسے نشاستہ دار غذائیں اور چربی۔
یہ ضروری ہے کہ خوراک متوازن رہے اور اس میں لحمیات، نمک اور پانی شامل رہیں۔
.
.
آٹھ تا 15 دن: عادت بن جاتی ہے
تیسرے مرحلے میں جسم کے روزے کے عادی ہو جانے سے موڈ بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر رزین معروف کیمبرج میں اینیستھیزیا اور انٹینسیو کیئر میڈیسن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ مزید فائدے بھی ہیں۔
آپ کے کھانوں میں ‘توانائی والی خوراک’ شامل ہونا چاہیے، جیسے نشاستہ دار غذائیں اور چربی
’عام زندگی میں ہم روزانہ ضرورت سے زیادہ کیلوریز استعمال کرتے ہیں، جس سے جسم کو دوسرے ضروری کام، مثلاً اپنی مرمت کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا۔
’روزے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور جسم اپنی توجہ دوسرے افعال کی طرف مرکوز کر دیتا ہے۔ اس لیے روزہ جسم کو مندمل ہونے اور جراثیم کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘
.
.
16 تا 30 دن: زہر رفع
رمضان کے آخری دنوں میں جسم فاقہ کشی کے عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
بڑی آنت، جگر، گردے اور جلد اس دوران زہر رفع کرنے کے عمل (detoxification) سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر معروف کہتے ہیں: ’اس دوران اعضا کا فعل بھرپور قوت سے چلنے لگتا ہے اور آپ کی یادداشت اور ارتکاز کی قوت بہتر ہو جاتی ہے اور آپ کے اندر زیادہ توانائی آ جاتی ہے۔‘
اگر فاقہ کشی کئی دن تک مسلسل جاری رہے تو جسم پٹھوں کو پگھلانا شروع کر دیتا ہے، لیکن رمضان میں ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ روزہ ایک دن میں ختم ہو جاتا ہے۔
.
.
تو کیا روزہ صحت کے لیے مفید ہے؟
ڈاکٹر معروف کہتے ہیں، جی ہاں، مگر ایک شرط کے ساتھ۔
یہ ضروری ہے کہ خوراک متوازن اور اس میں لحمیات، نمک اور پانی شامل رہے
’روزہ صحت کے لیے اچھا ہے کیوں کہ اس سے ہمیں اس بات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا کھانا اور کب کھانا ہے۔ البتہ میں اس کا مشورہ نہیں دے سکتا کہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک روزے جاری رکھے جائیں۔
وہ کہتے ہیں: ’مسلسل روزہ وزن کم کرنے کے لیے اچھی چیز نہیں ہے کیوں کہ بالآخر آپ کا جسم چربی کو توانائی میں ڈھالنے کی بجائے پٹھوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اچھی بات نہیں اور اس کا مطلب ہے کہ آپ کا جسم فاقہ کشی کی حالت میں چلا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے: ’رمضان کے روزے اگر صحیح طریقے سے رکھے جائیں تو ہر روز جسم کی توانائی بحال ہوتی ہے جس سے آپ کارآمد پٹھے گھلائے بغیر وزن بھی کم کر سکتے ہیں۔..(بی بی سی اردو سے کاپی پیسٹ)
.
*ٹپس…………!!*
الحدیث،ترجمہ:
سحری کےذریعےروزےپےمدد حاصل کرو
(ابن ماجہ حدیث1693)
مناسب سحری کرنا….سحری میں موسم کے مناسبت سے ٹھنڈی یا گرم یا طاقت والی خوراک کھانا جائز و ثواب ہے اسی طرح کوشش کرنی چاہیے کہ تھوڑی بہت بھوک پیاس گرمی برداشت کرنی چاہیے مگر ٹپس مثلا اے سی میں سوئے رہنا، سحری میں ملٹی وٹامن گولیاں ، آرام کی گولیاں کھانا، عبادت ذکر کم مگر کھیل تفریح زیادہ اپنانا کہ ٹائم پاس ہو ہرگز نہیں کرنا چاہیے
البتہ
بہت تکلیف آ رہی ہو تو ذکر و اذکار کے ساتھ ساتھ مذکورہ ٹپس کم سے کم اختیار کرنا بھی جائز ہے
.
روزے کی حالت میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے نہانا یا پانی سر یا جسم پر ڈالنا یا پانی سے تر کردہ کپڑا لپیٹنا مفتی بہ قول کے مطابق جائز ہے بلکہ سنت سے ثابت ہے
.
ایک صحابی فرماتے ہیں کہ:
لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعرج يصب على رأسه الماء، وهو صائم منا لعطش، أو من الحر
ترجمہ:
بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرج نامی مقام پر دیکھا کہ آپ علیہ السلام پیاس کی وجہ سے یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر مبارک پر پانی ڈال رہے تھے اور آپ علیہ السلام روزے سے تھے..(ابو داود روایت نمبر2365)
.
امام بخاری کے استاد روایت کرتے ہیں کہ
عبد الله بن أبي عثمان، قال: رأيت ابن عمر، وهو صائم يبل الثوب ثم يلقيه عليه
ترجمہ:
عبداللہ بن ابی عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے صحابی حضرت ابن عمر کو دیکھا کہ وہ روزے کی حالت میں کپڑا تر کرتے اور اپنے جسم پر لپیٹ لیتے
(مصنف ابن ابی شیبہ روایت نمبر9212)
.
فقہاء کرام نے مذکورہ دونوں روایتوں کو اپنی کتب میں بطور دلیل پیش کیا اور فتوی دیا کہ:
” لا “الاغتسال و” لا “التلفف بثوب مبتل” قصد ذلك “للتبرد” ودفع الحر “على المفتى به”
ترجمہ:
مفتی بہ قول کے مطابق نہانا اور تر کپڑا لپیٹنا مکروہ نہیں ہے، اس کام سے اسکا قصد ٹھنڈک حاصل کرنا ہو یا گرمی ختم کرنا.. (مراقی الفلاح شرح نورالایضاح1/257 نحوہ فی در و رد و بدائع و بحر و طحطاوی و غیرھا من المتون والشروح)
.
علامی شامی اس کی عقلی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ:
ولأن هذه الأشياء فيها عون على العبادة ودفع الضجر الطبيعي، کرھھا ابو حنیفۃ لما فیھا من اظہار الضجر فی العبادۃ
ترجمہ:
یہ چیزیں مکروہ نہیں ہیں کہ یہ سب عبادت پر معاونت فراہم کرتی ہیں اور طبعی طور پر ہونے والی تکلیف و بے قراری کو ختم کرنے کے لیے ہیں
اور امام ابو حنیفہ نے جو ان سب کو مکروہ قرار دیا ہے تو اس وجہ سے کہ عبادت میں تنگ دلی بے قراری کا اظہار ہے
(ردالمحتار جلد3 ص459)
.
خلیفہ اعلی حضرت نے اختلاف ابی حنیفہ و ابی یوسف کو تطبیق دیتے ہوئے لکھا کہ:
وضو و غسل کے علاوہ ٹھنڈ پہنچانے کی غرض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈ کے لیے نہانا بلکہ بدن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ نہیں۔ ہاں اگر پریشانی ظاہر کرنے کے لیے بھیگا کپڑا لپیٹا تو مکروہ ہے کہ عبادت میں دل تنگ ہونا اچھی بات نہیں۔(بہارِ شریعت جلد1 حصہ5 ص64)
.
چونکہ عام طور پر لوگ عبادت میں تنگ دلی کے اظہار کے لیے ایسا نہیں کرتے اس لیے جو ایسا کام کرے اسے عبادت میں بزدلی کرنے والا نہیں کہہ سکتے، ہرگز نہیں…!!
علامہ ابن نجیم نقل فرماتے ہیں:
فیہ اظھار ضعف بنيته وعجز بشريته فإن الإنسان خلق ضعيفا لا إظهار الضجر
ترجمہ:
یہ سب مکروہ نہیں کیونکہ ان کاموں میں انسان کی کمزوری اور عاجز بشریت کا تو اظہار ہے کیونکہ(قرآن مجید میں ہے کہ) انسان کمزور تخلیق کیا گیا ہے، مگر عبادت میں تنگ دلی کا اظہار مقصد نہیں..(البحر الرائق 2/490)
.
*رمضان شریف میں سخاوت کیجیے،اشیاء سستی کیجیے*
نبی پاکﷺسب سےزیادہ سخی تھےرمضان میں بہت سخاوت کرتے(بخاری حدیث1902)
اس میں واضح اشارہ ہے کہ رمضان المبارک میں زیادہ سخاوت کرنی چاہیے صدقہ و خیرات کرنا چاہئے ، سحر و افطار میں مناسب خوراک کا انتظام کرنا چاہیے… تاجروں دکانداروں حاکموں کو چاہیے کہ وہ رمضان شریف میں سخاوت کا مظاہرہ کریں ، کم نفع کمائیں، چیزیں سستی کریں
.
الحدیث:
وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ
ترجمہ
جس نےکسی پے(جان بوجھ کر)مشقت(تنگی،مہنگائ)کی اللہ اس پر تنگی فرمائےگا
(سنن الترمذي ت شاكر ,4/332 حدیث1940)
بلاعذر مہنگائی کرنے والو اللہ کی پکڑ سے ڈرو، ناحق مہنگائی سے کافی پیسہ کما تو لو گے مگر برکت سکون عزت نہ پاؤ گے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574