أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِالنُّذُرِ ۞

ترجمہ:

ثمود نے عذاب سے ڈرانے والے رسولوں کی تکذیب کی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثمود نے عذاب سے ڈرانے والے رسولوں کی تکذیب کی۔ سو انہوں نے کہا : کیا ہم اپنی جنس میں سے ایک بشر کی پیروی کریں ! بیشک پھر تو ہم ضرور گم راہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔ کیا ہم میں سے صرف ان ہی پر وحی نازل کی گئی ہے، بلکہ وہ بہت جھوٹے اور متکبر ہیں۔ عنقریب کل انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون بڑا جھوٹا متکبر ہے۔ (القمر :۔ 23-26

دنیا میں فقر اور تونگری حق اور باطل کا معیار نہیں

ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ہے، انہوں نے اپنے نبی کی تکذیب کی اور ان آیات کی تکذیب کی جن میں اللہ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے اور یہ کہا کہ کیا ہم اپنی ہی جنس میں سے ایک بشر کی پیروی کریں اور اپنی پوری جماعت کے طریقہ کو چھوڑ دیں، پھر تو ہم ضروری گم راہی اور دیوانگی میں ہوں گے، کیونکہ صرف ایک شخص کے طریقہ پیروی کرنا اور کثیر جماعت کے طریقہ کو چھوڑ دینا یہی صحیح اور درست راستہ سے بھکٹنا اور پاگل پن ہے۔

اس آیت میں ” صلال “ کے بعد ” سحر “ کا لفظ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” سحر “ کا معنی جنون ہے، جو اونٹنی پاگل ہو اس کو ” ناقۃ مسعورۃ “ کہتے ہیں : نیز حضرت ابن عباس نے فرمایا :” سعر “ کا معنی عذاب ہے۔

اس کے بعد ثمود نے کہا : کیا ہم میں سے صرف ان ہی پر وحی نازل کی گئی ہے، یعنی آل ثمود میں صرف ان کو رسالت کے ساتھ خاص کرلیا گیا ہے، حالانکہ آل ثمود ( میں حضرت صالح) سے زیادہ خوش حال اور مال دار لوگ ہیں، پھر کہا : بلکہ وہ بہت بڑے جھوٹے اور متکبر ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ اپنے دعویٰ کے مطابق رسول نہیں ہیں بلکہ وہ رسالت کا دعویٰ کر کے ناحق ہم پر اپنی بڑائی جتانا چاہتے ہیں۔ ” اشر “ کا معنی ہے : خوشی سے اترانے والا اور تکبر کرنے والا اور ایک قرأت میں لفظ ” اکثر “ ہے یعنی زیادہ شر والا اور خبیث۔

اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : ” عنقریب کل انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون بڑا جھوٹا متکبر ہے۔ “

کل کے دو محمل ہیں : ایک یہ کہ کل قیامت کے دن جب وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون بڑا جھوٹا متکبر ہے، اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ جب دنیا میں ان کو عذاب دیا جائے گا اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کون بڑا جھوٹا متکبر ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ مکہ کے کافروں نے مسلمانوں پر اپنی برتری جتائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کا بھی اسی طرح رد فرمایا :

اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں : بتائو ہم دو فریقوں میں سے کس کا مرتبہ زیادہ ہے اور کس کی مجلس شاندار ہے۔ (مریم :73)

اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا :

آپ کہیے ! جو گم راہی میں ہوتا ہے اس کو رحمن خوب لمبی مہلت دیتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ ان چیزوں کو دیکھ لیں گے جن کی وعید ان کو سنائی گئی تھی یا عذاب یا قیامت، پس عنقریب (اس وقت) ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کون سا فریق بدترمقام پر ہے اور کون سا فریق کا لشکر زیادہ کم زور ہے۔ (مریم :75)

قرآن کی آیات کے مقابلہ میں کفار مکہ فقرائ، مسلمین کا رؤ ساء مشرکین سے موازنہ کرتے تھے کہ دیکھو : ایک طرف عمار، بلال اور صہیب ہیں اور دوسری طرف نضر بن حارث اور عتبہ اور شیبہ ہیں، بتائو، ان میں کس کا بلند مقام ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا کا مال و دولت قابل فخر چیز نہیں ہے، جب قیامت کے دن تم دوزخ میں ہوگئے اور فقراء مسلمین جنت میں ہوں گے پھر تم کو پتا چلے گا کہ کس کا مقام بہتر ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 54 القمر آیت نمبر 23