أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَكَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَقَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّازۡدُجِرَ ۞

ترجمہ:

اس سے پہلے نوح کی قوم نے تکذیب کی سو انہوں نے ہمارے بندے (نوح) کی تکذیب کی اور کہا : یہ دیوانہ ہے اور ان کو جھڑکا گیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس سے پہلے نوح کی قوم نے تکذیب کی، سو انہوں نے ہمارے بند (نوح) کی تکذیب کی اور کہا : یہ دیوانہ ہے اور ان کو جھڑکا گیا۔ سو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے۔ سو ہم نے موسلادھار بارش سے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے۔ اور ہم نے زمین سے چشمے جاری کردیئے سو دونوں پانی اس چیز کے لئے جمع ہوگئے جو ان (کے عذاب) کے لئے مقدر کی گئی تھی۔ اور ہم نے نوح کو تختوں اور میخوں والی کشتی پر سوار کردیا۔ جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی ان کی سزا کے لئے جنہوں نے کفر کیا تھا۔ اور بیشک ہم نے اس کو نشانی بنا کر چھوڑا تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔ تو کیسا تھا میرا عذاب اور کیسا تھا میرا ڈرانا۔ اور بیشک ہم نے نصیحت کے حصول کے لئے قرآن کو آسان کردیا ہے تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔ (القمر :9-17)

حضرت نوح کو ہمارا بندہ کہنے اور تکذیب کا ذکر مکرر کرنے کی وجہ

القمر :9 میں فرمایا : اس سے پہلے نوح کی قوم نے تکذیب کی، پس انہوں نے ہمارے بندے کی تکذیب کی۔

اس آیت میں یہ سوال ہے کہ اس آیت میں تکذیب کرنے کا مکرر ذکر فرمایا ہے اس کی کیا توجیہ ہے ؟ اس کے جواب میں امام رازی نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اہل مکہ نے چاند کے شق ہونے کے معجزہ اور توحید و رسالت کی دلیل ہونے کا انکار کیا اور اس سے پہلے نوح کی قوم نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا، پس انہوں نے ہمارے بندہ کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور ان کو جھڑکا گا، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی ہے : نوح کی قوم نے رسولوں کی تکذیب کی اور کہا : اللہ نے کوئی رسول نہیں بھیجا اور ان کے پیغام توحید کو جھٹلایا پس انہوں نے ہمارے بندے (نوح) کی تکذیب کی اور کہا : اللہ نے کوئی رسول نہیں بھیجا اور ان کے پیغام توحید کو جھٹلایا پس انہوں نے ہمارے بندے (نوح) کی تکذیب کی جیسے ان کے غیر کی تکذیب کی، کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی اور جو بتوں کی عبادت کرتا ہے وہ رسول اور رسالت کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ اس جہان کی پیدائش اور تربیت ستاروں کا کام ہے۔ یہ اللہ کا کام نہیں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے علی العموم رسولوں کی تکذیب کی اور بالخصوص حضرت نوح کی تکذیب کی، اس لئے دو مرتبہ ان کی تکذیب کا ذکر فرمایا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہمارا بندہ فرمایا، اسی طرح دیگر عبادصالحین کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف فرماتا ہے جیسے حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (ص 17) ہمارے بندہ (دائود) کا ذکر کریں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (یوسف 24) بیشک وہ ہمارے بندوں میں سے ہیں، حالانکہ سارے انسان اللہ ہی کے بندے ہیں۔ خصوصاً ان بندوں کو ہمارا بندہ کہنے کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان کی عزت افزائی اور تشریف کے لئے ہے جیسے کہا جاتا ہے، بیت اللہ اور ناقۃ اللہ۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 54 القمر آیت نمبر 9