أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ہم نے نصیحت کے حصول کے لئے قرآن کو آسان کردیا تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا !

قرآن مجید کے آسان ہونے کے محامل

القمر :17 میں فرمایا : اور بیشک ہم نے نصیحت کے حصول کے لئے قرآن کو آسان کردیا ہے تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔

اس کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لئے آسان بنادیا ہے، دنیا کی کسی کتاب کو حفظ کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا قرآن مجید کو حفظ کرنا آسان ہے۔

ایک دفعہ پنڈت رام چند حضرت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے پاس گیا اور کہنے لگا : مجھے تمہارے قرآن مجید “ کے چودہ پارہ حفظ ہیں، تم بتائو تمہیں ہمارا ” وید “ کتنا حفظ ہے ؟ حضرت نے کہا : دوبارہ یہ بات نہ کہنا ورنہ بہت ذلیل ہوگئے، اس نے کہا : تم باتیں نہ بنائو اگر ” وید “ یاد ہے تو سنائو، حضرت نے فرمایا : یہ تو میرے ” قرآن “ کا کمال اور اعجاز ہے کہ دشمن کے سینہ میں بھی چلا گیا اور یہ تمہارے ” وید “ کا نقص ہے کہ تمہیں خود بھی ” وید “ اتنا حفظ نہیں جتنا تمہیں ” قرآن “ حفظ ہے، یہ جواب سن کر پنڈت مبہوت ہو کر چلا گیا۔ اس طرح ” تورات “ زبور “ اور ” انجیل “ آسمانی کتابیں ہیں، لیکن دنیا میں ان میں سے کسی آسمانی کتاب کا کوئی حافظ نہیں ہے اور یہ صرف ” قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اس کے بیشمار حافظ موجود ہیں۔

اس آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید سے حصول نصیحت کو بہت آسان کردیا ہے کیونکہ قرآن مجید میں حکمت اور نصیحت کے بہت نکات ہیں۔

اس آیت کا تیسرا محمل یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو سن کر کانوں کو لذت ہوتی ہے اور اس میں علم آفرین نکات ہیں اور ان آیات کو سن کر خوف آخرت سے دل پگھل جاتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 54 القمر آیت نمبر 17