اَكُفَّارُكُمۡ خَيۡرٌ مِّنۡ اُولٰٓئِكُمۡ اَمۡ لَكُمۡ بَرَآءَةٌ فِى الزُّبُرِۚ ۞- سورۃ نمبر 54 القمر آیت نمبر 43
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَكُفَّارُكُمۡ خَيۡرٌ مِّنۡ اُولٰٓئِكُمۡ اَمۡ لَكُمۡ بَرَآءَةٌ فِى الزُّبُرِۚ ۞
ترجمہ:
(اے کفار مکہ ! ) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے پاس آسمانی کتاب میں نجات لکھی ہوئی ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے کفار مکہ ! ) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے پاس آسمانی کتاب میں نجات لکھی ہوئی ہی۔ یا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت غالب رہے گی۔ عنقریب ان کی جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ بلکہ ان کی وعید قیامت ہے اور قیامت بڑی مصیبت اور بہت تلخ ہے (القمر :43-46)
جنگ بدر میں کفار کی شکست کی خبر :
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو خطاب فرمایا ہے کہ تمہارے کافر سابقہ امتوں کے کفار سے مال و دولت او جسمانی طاقت میں زیادہ بڑے ہیں یا تم نے سابقہ آسمانی کتابوں میں یا لوح محفوظ میں پڑھ لیا ہے کہ تم کو عذاب نہیں ہوگا، اس لئے تم اپنے کفر پر ڈٹے ہوئے ہو یا تم کو اپنی عددی قوت اور اسلحہ کی زیادتی پر اتنا گھمنڈ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ تم ناقابل تسخیر ہو اور تم کو شکست نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب مکہ شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نہیں جانتا تھا کہ کافروں کی کون سی جماعت شکست کھائے گی، پھر میں نے دیکھا کہ جنگ بدر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زرہ پہنے ہوئے دعا کر رہے تھے :
اے اللہ ! بیشک قریش بڑے فخر اور تکبر کے ساتھ تیرے خلاف اور تیرے رسول کے خلاف جنگ کرنے آئے ہیں، پس تو ان کو ہلاک کردے، پھر یہ آیت نازل ہوئی : (القمر : 45)
(دلائل النبوۃ ج 3 ص 35: مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث 3069، المعجم الاوسط رقم الحدیث 3841 معالم التنزیل ج 4 ص 327)
اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزت میں سے ہے کیونکہ آپ نے غیب کی خبر دی ہے اور اسی طریقہ سے واقع ہوا جس طرح آپ نے خبر دی تھی۔ حضرت عائشہ ام المومنین (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں جس وقت بچی تھی اور کھیلتی تھی اس وقت مکہ میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی !
بلکہ ان کی وعید قیامت ہے اور قیامت بڑی مصیبت اور تلخ ہی۔ (القمر :46)
(صحیح البخاری رقم الحدیث 4876)
جنگ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فتح کی دعا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ کے بدر کے دن اپنے خیمہ میں تھے اور آپ یہ دعا کر رہے تھے : میں تجھے تیرے عہد اور وعدہ کی قسم دیتا ہوں : اے اللہ ! اگر تو چاہے کہ آج کے بعد تیری کبھی عبادت نہ کی جائے (یعنی اگر مسلمانوں کی جماعت شکست کھاجائے) پھر حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا : یا رسول اللہ ! آپ کے لئے اتنی دعا کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت زیادہ دعا کی ہے اس وقت آپ زرہ پہنے ہوئے تھے، پھر آپ یہ آیتیں پڑھتے ہوئے خیمہ سے باہر نکلے : (القمر :45-46)
(صحیح البخاری رقم الحدیث :4877، السنن البکری رقم الحدیث 1493، المعجم الکبیر رقم الحدیث 11976 دلائل النبوۃ ج 3 ص 50، کتاب الاسماء والصفات ص 149 شرح السنتہ رقم الحدیث 3775 مصنف ابن ابی شیبہ ج 14 ص 375 مسند احمد ج 1 ص 329 طبع قدیم ج 5 ص 165 رقم الحدیث 3042 موسستۃ الرسالۃ، بیروت 1420 ھ )
علامہ بدرالدین محمد بن بہادر الزر کشتی متوفی 794 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ابو زید کی روایت میں یہ دعا اس طرح ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے وعدے کے پورا کرنے کا اور تیرے عہد کے ایفاء اور اتمام کا سوال کرتا ہوں اور یہ جو فرمایا ہے کہ اے اللہ۔ اگر تو چاہے کہ تیری عبادت نہ کی جائے۔ اس میں اللہ کے حکم اور اس کے فعل کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ (تنقیح الزر کشتی علی الجامع الصحیح ج 4 ص 110، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1424 ھ)
حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور اپنے اصحاب کی طرف دیکھا تو وہ تین سو انیس تھے، تب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ بلند کر کے یہ دعا کی : اے اللہ : تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا کر، اور تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا وہ عطا فرما : اے اللہ ! اگر تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو روئے زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی، آپ مسلسل یہ دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کی چادر آپ کے کندھے سے گرگئی، تب حضرت ابوبکر نے آپ کی چادر درست کی اور آپ سے لپٹ گئے اور کہا : آپ نے کافی دعا کرلی ہے، اللہ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 1763، مسند احمد ج 1 ص 30)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 54 القمر آیت نمبر 43
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]