{ایک مقام سے دوسرے مقام پر مسجد اور اس کے سامان کی منتقلی }

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مقام پر مسجد ہوتی ہے لیکن اس کے گردو پیش جو مسلم آبادی تھی،کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجاتی ہے۔ہندوپاک کی تقسیم کے موقع پر مختلف علاقوں اور خصوصاً مشرقی پنجاب میں بہت سی مساجد اسی طرح ویران ہوگئیں اور نماز کی ادائیگی تو الگ رہی،مسجدوں کے احترام کا تحفظ بھی دشوار ہوگیا۔

اس سلسلے میں یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ جس زمین پر ایک دفعہ مسجد بنادی گئی ،وہ زمین اور عمارت ہمیشہ کیلئے مسجد بن گئی،اور عام حالات میں یہ بات درست نہیں کہ اس کو منہدم اور شہید کیا جائے۔البتہ ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ احترامِ مسجد کا باقی رکھنا (دشوار) ہوجائے تو جائز ہوگا کہ ایک مسجد کو شہید کرکے اس کے سامان اور اینٹ وغیرہ سے دوسری مسجد تعمیر کرلی جائے یا دوسری مسجد میں استعمال کرلیا جائے اور سعی کی جائے کہ ممکنہ حد تک اس زمین کا جو اب بھی ازروئے شرع مسجد ہے ،احترام باقی رکھا جائے۔

شمس الائمہ حلوانی سے ’’ذخیرہ‘‘ میں منقول ہے کہ ان سے ویران مسجد اور حوض کی بابت پوچھا گیا۔جس کی لوگوں کے منتشر ہوجانے کے باعث ضرورت باقی نہ رہی ہو کہ کیا قاضی اس کی وقف شدہ اشیاء و سامان کسی اور مسجد یا حوض میں صرف کرسکتا ہے ؟انہوں نے جواب دیا ہاں! بالخصوص ہمارے زمانے میں ،اس لیئے کہ مسجد اور اس کے علاوہ مسافر خانہ و حوض کے سامان اگر منتقل نہ کئے جائیں تو چور اور ڈاکو اٹھالے جائیں۔جیسا کہ مشاہد ہ ہے۔(رد المختار :ج۳،ص۳۷۲)