نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اتنا قیام فرماتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا ، عرض کیا جاتا تو فرماتے :

کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

 

صحیح بخاری رقم الحدیث 1130

 

آج نمازِ تراویح میں کچھ لوگوں کو دیکھا جب امام قرات

کے بعد رکوع کرتے ، وہ ان کے ساتھ مِل جاتے ایسے ہی

لوگوں کو” نفاقِ عملی” سے تعبیر کیا گیا ۔۔۔

 

اے بھائی ! سال میں ایک ہی بار یہ ماہِ مبارک آتا ہے،

آپ کو امام کے ساتھ کھڑے ہوکر قرآن سننے میں کیا

شئ مانع ہے؟

 

کیا آپ تھک جاتے ہیں؟ اچھا !!!

مگر ۔۔۔

جب یہی قدم ، پاسپورٹ آفس، شناختی کارڈ کے دفاتر،

سینما ہال کی لائنز، سپر اسٹورز میں شاپنگ کے دوران،

اپنے محبوب سیاسی قائدین کے استقبال میں، فلمی ایکٹر

کی ایک جھلک دیکھنے کے واسطے ان کے انتظار میں کیوں

نہیں تھکتے؟

دوستوں کے کھڑے کھڑے گپ لگانے، یا کھیلنے کے دوران

ہمیں تھکن کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟

 

بار بار برابر والے سے پوچھتے ہیں تراویح کی تعداد کتنی ہوگئیں؟ اتنی بیزاری؟

 

بارگاہ رب ذوالجلال میں کیوں تھک جاتے ہیں؟ سستی کیوں

غالب آجاتی ہے؟

 

کاش یہ سوچ بن جاوے کہ ہوسکتا ہے یہ میرا آخری رمضان

ہو۔۔ یا آخری تراویح ہو ۔۔ جو قبروں میں جا پہنچے وہ بھی

تو یہی سوچتے تھے کہ زندگی بہت طویل ہے ، در اصل

یہی شیطان و ابلیس کا زبردست وار ہے،

 

زرا سوچیں ! کتنے ہی جاننے والے موت کی وادی میں جا پہنچے جو گذشتہ سال آپ کے ساتھ تراویح میں تھے،۔۔۔

ہوسکتا ہے آنے والے سال ان صفوں میں ہم بھی نہ ہوں۔۔۔

 

عبادات کو خوش دلی سے ادا کریں، روزہ، تراویح، تھجد

نوافل، تلاوتِ قرآن کو معاذ اللہ بوجھ سمجھ کر ہر گز

ادا نہ کریں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے

ہمیں مزید مہلت دی ہے کہ ہم نیک بن جائیں۔۔۔ہم سدھر

جائیں۔۔!!!!

 

یقین جانیں وہ نہیں چاہتا کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بھی امتی بھی دوزخ میں جائے۔۔۔۔وہ ہمیں

اپنی رحمت سے جنت میں بھیجنا چاہتا ہے۔۔۔

 

ہائے!

وہ تو مائل بہ کرم ہے کوئی سائل ہی نہیں~

 

توجہ: آنے والے جمعہ ، خطباء، واعظین، اس موضوع پر

اگر خصوصی توجہ دلائیں تو کیا بات ہے!!!

 

ابنِ حجر

4/4/2022 ء