مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

اپنے باطن کو سجائیں۔ اپنی آخرت کو سنواریں۔

 

حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام دین خداوندی کی تعلیم کے واسطے دنیا میں مبعوث فرمائے گئے۔دین خداوندی کا ایک حصہ حقوق اللہ سے متعلق ہے اور ایک حصہ حقوق العباد سے متعلق ہے۔حقوق العباد کا ایک اہم باب حسن اخلاق ہے۔

 

سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد فطری طور پر مسلمانوں میں مختلف قسم کے باطنی امراض جنم لئے۔ان میں فکری انحطاط اور ضعف عمل حد درجہ قابل اصلاح ہیں۔

 

شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے اسی کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا۔

 

پہلے قوت فکر وعمل فنا ہوتی ہے

 

پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

 

فکر وعمل کی کمزوری کے سبب سلطنت عثمانیہ تباہی کا شکار ہوئی اور پھر جہاں بھر کے مسلمانوں کے اعتقادیات,عملیات اور اخلاقیات تینوں شعبہ میں کمزوری داخل ہو گئی۔

 

(1)سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے ضعف وناتوانی کے عہد میں وہابیت نے جنم لیا,پھر وہابیت کے بطن سے متعدد باطل فرقے وجود میں آئے۔

 

(2)ضعف عمل کا حال یہ ہے کہ جمعہ,عیدین اور ماہ رمضان المبارک میں مساجد بھری رہتی ہیں۔دیگر ایام میں نمازیوں کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہو جاتی ہے۔

 

(3)اخلاقی حالت کی ابتری کسی سے پوشیدہ نہیں۔بعض اصحاب علم وفضل بھی اس مرض باطن میں مبتلا ہیں۔خاص کر غیبت وچغل خوری اور کذب وافترا پردازی وبائی مرض کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

 

عدم تحمل زوروں پر ہے۔لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے تیار نہیں۔کسی کی ترقی دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔

 

اخلاقی عیوب میں جوان وبزرگ دونوں طبقہ کے لوگ مبتلا ہیں۔کسی مقام پر اکا دکا لوگ ایسے ہوتے ہیں,پھر دوسرے لوگ ان متعدی امراض سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

 

ہر شخص کو اپنےایمان وعمل کا حساب دینا ہے,لہذا خود کو ہر قسم کے غلط امور سے محفوظ رکھیں۔بد اعتقادی,بدعملی وبد اخلاقی عہد حاضر کے مشہور اور متعدی امراض ہیں۔ہر عاقل بالغ مسلمان کو خود احتسابی کرنی چاہئے اور اپنے باطن کو حسن اعتقاد,حسن عمل اور حسن اخلاق سے مزین کر کے اپنی آخرت کو روشن وتابناک کرنا چاہئے۔

 

طارق انور مصباحی

 

جاری کردہ:09:اپریل 2022