أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ ۞

ترجمہ:

اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی سوکھی مٹی سے بنایا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی سوکھی مٹی سے بنایا۔ اور جن کو خاصل آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ وہیں دونوں مشرقوں اور مغربوں کا رب ہے۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ اس نے کھاری اور شیریں دو سمندر جاری کئے جو (ایک دوسرے سے) مل جاتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرے۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ ان سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ اور سمندر میں پہاڑوں کی مانند اونچی چلنے والی کشتیاں اسی کی ملکیت ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ (الرحمن 14-25)

انسانوں اور جنات کی تخلیق کے اعتبار سے ان پر نعمت

الرحمن :14-16 میں فرمایا : اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی سوکھی مٹی سے بنایا۔ اور جن کو خالص آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔

اس سے پہلے اللہ سبحانہ نے عالم کبیر کی تخلیق کا ذکر فرمایا تھا جیسے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں، جن میں اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور اس کی قدرت پر دلائل ہیں پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عالم صغیر کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور وہ حضرت انسان ہے اور تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد حضرت سیدنا آدم (علیہ السلام) ہیں۔

امام ابو الحسن مقاتل بن سلیمان البلخی المتوفی 150 ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں ” الانسان “ سے مراد حضرت آدم ہیں ’ صلصال “ کا معنی ہے، وہ ریت جس کے ساتھ مٹی ملی ہوئی ہو،

حضرت ابن عباس نے فرمایا : ” صلصال “ کا معنی ہے : عمدہ قسم کی گیلی مٹی جب اس کا پانی سوکھ جائے اور وہ پھٹنے لگے اور جب اس کو ہلایا جائے تو وہ بجنے لگے ” الفخار “ کا معنی ہے : ٹھیکرا پکائے جانے سے پہلے، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت آدم روح پھونکے جانے سے پہلے کھوکھلے ٹھیکرے کی طرح تھے۔

اس کے بعد ” السجان “ کی تخلیق کا ذکر فرمایا :” الجسان “ سے مراد ابلیس ہے اور وہ جنات کا باپ ہے جیسے آدم انسانوں کے باپ ہیں ایک قول یہ ہے کہ ” السجان “” جن “ کا واحد ہے اور ” مارج “ کا معنی ہے : شعلہ، یعنی بالکل صاف آگ جس میں دھویں کی آمیزش نہ ہو اور اس کا نام ” جان ‘ اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کے اس قبیلہ سے ہے جن کو ” جن “ کہا جاتا ہے، پس ” جن ‘ جمع ہے اور ” جان ‘ واحد ہے “ اور اس کا پیدا کرنا بھی نعمتوں میں سے ہے۔

(تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 304، دارالکتب العلمیہ بیروت 1424 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 14