أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ ۞

ترجمہ:

اور انصاف کے ساتھ صحیح وزن کرو اور تول میں کمی نہ کرو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور انصاف کے ساتھ صحیح وزن کرو اور تول میں کمی نہ کرو۔ اور اس نے لوگوں کے لئے زمین کو نیچے بنایا۔ اس میں پھل ہیں اور (قدرتی) غلاف والی کھجوریں ہیں۔ اور بھوسے والا غلّہ ہے اور خوشبودار پھول ہیں۔ پس اے جن و انس۔ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ (الرحمن :9-13)

وزن صحیح کرنے کے حکم کی تکرار کی توجیہ

الرحمن :9 میں بھی انصاف کے ساتھ وزن کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔

حضرت ابو الدرداء (رض) نے کہا : ترازو کی ڈنڈی کو درستی کے ساتھ پکر کر رکھو اور انصاف سے وزن کرو۔

ابو عیینہ نے کہا : وزن درست کرنے کا تعلق ہاتھ کے ساتھ ہے اور انصاف کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔

مجاہد نے کہا : ” القسط “ کا معنی رومی زبان میں عدل ہے اور، ایک قول یہ ہے کہ وزن قائم کرنے کا معنی اس طرح ہے جیسے کسی شخص نے کہاں ” فلاں شخص نے نماز قائم کی، یعنی نماز کو اس کے وقت میں پڑھ لیا، یا جیسے کسی نے کہا : لوگوں نے بازار کو قائم کیا، یعنی وہ وقت پر بازار میں گئے، سو ان کا معنی ہے : عدل کے ساتھ وزن کرنے کے معاملہ کو ترک نہ کرو۔

اور فرمایا ہے : اور تول میں کمی نہ کرو یعنی ناپ اور تول میں کمی نہ کرو، جیسے اس آیت میں فرمایا ہے :

اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود، 84)

اس آیت کی تفسیر میں قتادہ نے کہا : اے ابن آدم ! جس طرح تو یہ چاہتا ہے کہ تیرے ساتھ عدل کیا جائے، سو تو بھی لوگوں کے ساتھ عدل کرو اور جس طرح تو چاہتا ہے کہ تیرے ساتھ وفا کی جائے تو بھی لوگوں کے ساتھ وفا کر، کیونکہ عدل میں لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے۔

ایک قول یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم قیامت کے دن اپنی نیکیوں میں کمی نہ کرو اور انجام کار یہ چیز قیامت کے دن تمہارے لئے باعث حسرت اور وزن میں کمی نہ کرنے کو دو بار ذکر کیا ہے کیونکہ پہلی بار کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ وزن پورا کرو اور دوسری بار ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ عدل کرو نیز دو بار ذکر کرنے سے یہ آیات ایک وزن پر ہوگئیں۔

اعمال اور ان کی کیفیات کے وزن پر ایک اشکال کا جواب

قیامت کے دن جو میزان میں نیکیوں کا وزن کیا جائے گا اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ انسان کے نیک اعمال ٹھوس چیز تو ہیں نہیں اور نہ برے اعمال ٹھوس چیز ہیں کہ ایک پلڑے میں نیک اعمال رکھ دیئے جائیں اور دوسرے پلڑے میں برے اعمال رکھ دیئے جائیں پھر ان کا وزن کر کے یہ معلوم کیا جائے کہ اس انسان کی نیکیاں زیادہ ہیں یا گناہ زیادہ ہیں نیز بعض نیک اعمال اخلاص سے کئے جاتے ہیں اور بعض نیک اعمال ریا کاری اور دکھاوے سے کئے جاتے ہیں اور اخلاص اور ریا کیفیات ہیں، ان کا وزن کیسے ممکن ہوگا ؟ وزن تو اس چیز کا کیا جاتا ہے جو کوئی مقدار والی چیز ہو اور کیفیات مقدار والی چیز نہیں ہیں، قدیم علماء نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ بندوں کے اعمال نامے ایک قسم کے رجسٹر ہیں اور ان میں ان سب چیزوں کا ان کی پوری کیفیات سے اندراج ہوگا اور دراصل وزن ان رجسٹروں کا کیا جائے گا اور وہ رجسٹر رقدار والی ٹھوس چیزیں ہیں۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نیک اعمال کے مقابلہ میں حسین صورتے والے اجسام بنا دیئے جائیں گے اور برے اعمال کے مقابلہ میں بدصورت اجسام بنا دیئے جائیں گے اور جیسے جیسے نیکی اور بدی میں اضافہ ہوگا، اسی طرح ان کی خوبصورتی اور بدصورتی میں بھی اضافہ ہوگا۔

اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ سائنس کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے اب ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں کہ جن چیزوں کے وزن اور ان کی پیمائش کا پہلے کوئی تصور نہیں تھا اب ان کی پیمائش کا معلوم ہونا روزمرہ ہوگیا ہے، مثلاً کمرے میں کتنے درجہ مثبت یا منفی درجہ حرارت ہے، اب یہ آلات کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے، ہوا کا وزن جاننے کا پہلے کوئی ذریعہ نہ تھا، اب ہوا کا دبائو بیرو میٹر کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے آواز کی پیمائش کے بارے میں پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اب سونو میٹر کے ذریعہ آواز کی پیمائش ہوجاتی ہے اسی طرح جسم میں کتنا درجہ حرارت ہے پہلے اس کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن اب تھرما میٹر کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے انسان کے خود کے ایک قطرے میں کتنے ملی گرام گلوکوز ہے، کتنا کو لیسٹرول ہے یہ گلوکو میٹر کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے، اسی طرح لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انسان کے خون میں کتنا یورک ایسڈ ہے، کتنا یوریا ہے، کتنا کیلشیم ہے، کتنا ہومیوگلوبین ہے اس کے خون میں سرخ ذرات کتنے ہیں، سفید ذرات کتنے ہیں، اس کے خون میں کیا کیا بیماریاں ہیں، اس کو ایڈز ہے یا نہیں ؟ ہیپا ٹائٹس، اے بی، سی، یا اور کوئی مہلک بیماری ہے یا نہیں ؟ ملیریا، ٹائی فائیڈ، ایسی تمام بیماریاں خون میں ہوتی ہیں اور اب سے سو سال پہلے ان کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن اب میڈیکل سائنس کی روز افزوں ترقی کے باعث یہ چیزیں لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوجاتی ہیں سو جس طرح اب خون کے ٹیسٹ کے ذریعے انسان کی صحت اور بیماری کا علم ہوجاتا ہے، اسی طرح کوئی تعجب اور حیرت کی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میزان میں ایسی صفت پیدا کردی ہو جس سے معلوم ہوجائے کہ انسان کے اعمال میں نیکیوں کی کتنی مقدار ہے اور برائیوں کی کتنی مقدار ہے اور نیک اعمال میں اخلاف کی کتنی مقدار ہے اور ریا کاری کی کتنی مقدار ہے انسان نے جس عقل اور برائیوں کی کتنی مقدار ہے اور نیک اعمال میں اخلاص کی کتنی مقدار ہے اور ریا کاری کی کتنی مقدار ہے، انسان نے جس عقل اور سائنس سے وزن اور پیمائش کے یہ آلات ایجاد کئے ہیں وہ عقل اور سائنس اللہ ہی کی دی ہوئی ہے، جب وزن اور پیمائش میں مخلوق کی تجزیہ کاری کا یہ عالم ہے تو خالق کی تجزیہ کاری کا کیا عالم ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 9