بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

(ف1)

سورۂ روم مکّیہ ہے اس میں چھ رکوع ساٹھ آیتیں آٹھ سو انیس کلمے تین ہزارپانچ سو چونیتس حرف ہیں ۔

الٓمّٓۚ(۱)

(ف۲)

(ف2)

شانِ نُزول : فارس اور روم کے درمیان جنگ تھی اورچونکہ اہلِ فارس مجوسی تھے اس لئے مشرکینِ عرب ان کا غلبہ پسند کرتے تھے ، رومی اہلِ کتاب تھے اس لئے مسلمانوں کو ان کا غلبہ اچھا معلوم ہوتا تھا ۔ خسرو پرویز بادشاہِ فارس نے رومیوں پر لشکر بھیجا اور قیصرِ روم نے بھی لشکر بھیجا یہ لشکر سرزمینِ شام کے قریب مقابل ہوئے اہلِ فارس غالب ہوئے ، مسلمانوں کو یہ خبر گراں گزری ، کُفّارِ مکّہ اس سے خوش ہو کر مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہلِ کتاب اور نصارٰی بھی اہلِ کتاب اور ہم بھی اُمّی اور اہلِ فارس بھی اُمّی ہمارے بھائی اہلِ فارس تمہارے بھائیوں رومیوں پر غالب ہوئے ہماری تمہاری جنگ ہوئی تو ہم بھی تم پر غالب ہوں گے ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور ان میں خبر دی گئی کہ چند سال میں پھر رومی اہلِ فارس پر غالب آ جائیں گے ، یہ آیتیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کُفّارِ مکّہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ خدا کی قَسم رومی ضرور اہلِ فارس پر غلبہ پائیں گے اے اہلِ مکّہ تم اس وقت کے نتیجۂ جنگ سے خوش مت ہو ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خبر دی ہے ، اُ بَی بن خلف کافِر آپ کے مقابل کھڑا ہو گیا اور آپ کے اور اس کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط ہو گئی اگر نو سال میں اہلِ فارس غالب آ جائیں تو حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اُ بَی کو سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آ جائیں تو اُ بَی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دے گا ۔ اس وقت تک قمار کی حرمت نازل نہ ہوئی تھی ۔

مسئلہ : اور حضرت اما م ابوحنیفہ و امام محمّد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کے نزدیک حربی کُفّار کے ساتھ عقودِ فاسدہ ربٰوا وغیرہ جائز ہیں اور یہی واقعہ ان کی دلیل ہے ۔ القصّہ سات سال کے بعد اس خبر کا صدق ظاہر ہوا اور جنگِ حُدیبیہ یا بدر کے دن رومی اہلِ فارس پر غالب آئے اور رومیوں نے مدائن میں اپنے گھوڑے باندھے اور عراق میں رومیہ نامی ایک شہر کی بِنا رکھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط کے اونٹ اُ بَیْ کی اولاد سے وصول کر لئے کیونکہ وہ اس درمیان میں مر چکا تھا ، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ شرط کے مال کو صدقہ کر دیں ۔ یہ غیبی خبر حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحتِ نبوّت اور قرآنِ کریم کے کلامِ الٰہی ہونے کی روشن دلیل ہے ۔ (خازن و مدارک)

غُلِبَتِ الرُّوْمُۙ(۲)

رومی مغلوب ہوئے

فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَۙ(۳)

پاس کی زمین میں (ف۳) اور اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے (ف۴)

(ف3)

یعنی شام کی اس سرزمین میں جو فارس سے قریب تر ہے ۔

(ف4)

اہلِ فارس پر ۔

فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۬ؕ-لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُؕ-وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۴)

چند برس میں (ف۵) حکم اللہ ہی کا ہے آگے اور پیچھے (ف۶) اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے

(ف5)

جن کی حد نو برس ہے ۔

(ف6)

یعنی رومیوں کے غلبہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی ۔ مراد یہ ہے کہ پہلے اہلِ فارس کا غلبہ ہونا اور دوبارہ اہلِ روم کا یہ سب اللہ تعالٰی کے امر و ارادے اور اس کے قضا و قدر سے ہے ۔

بِنَصْرِ اللّٰهِؕ-یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُۙ(۵)

اللہ کی مدد سے (ف۷) مدد کرتا ہے جس کی چاہے اور وہی ہے عزّت والا مہربان

(ف7)

کہ اس نے کتابیوں کو غیرِ کتابیوں پر غلبہ دیا اور اسی روز بدر میں مسلمانون کو مشرکوں پر اور مسلمانوں کا صدق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآنِ کریم کی خبر کی تصدیق ظاہر فرمائی ۔

وَعْدَ اللّٰهِؕ-لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۶)

اللہ کا وعدہ (ف۸) اللہ اپنا وعدہ خلاف نہیں کرتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے (ف۹)

(ف8)

جو اس نے فرمایا تھا کہ رومی چند برس میں پھر غالب ہوں گے ۔

(ف9)

یعنی بے علم ہیں ۔

یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚۖ-وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ(۷)

جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیوی زندگی (ف۱۰) اور وہ آخرت سے پورے بے خبر ہیں

(ف10)

تجارت ، زراعت ، تعمیر ، وغیرہ دنیوی دہندے ۔ اس میں اشارہ ہے کہ دنیا کی بھی حقیقت نہیں جانتے اس کا بھی ظاہر ہی جانتے ہیں ۔

اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ-مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ(۸)

کیا انہوں نے اپنے جی میں نہ سوچا کہ اللہ نے پیدا نہ کیے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر حق (ف۱۱)اور ایک مقرر میعاد سے (ف۱۲) اور بےشک بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کا انکار رکھتے ہیں (ف۱۳)

(ف11)

یعنی آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اللہ تعالٰی نے ان کو عبث اور باطل نہیں بنایا ان کی پیدائش میں بے شمار حکمتیں ہیں ۔

(ف12)

یعنی ہمیشہ کے لئے نہیں بنایا بلکہ ایک مدّت معیّن کر دی ہے جب وہ مدّت پوری ہو جاوے گی تو یہ فنا ہو جائیں گے اور وہ مدّت قیامت قائم ہونے کا وقت ہے ۔

(ف13)

یعنی بَعث بعد الموت پر ایمان نہیں لاتے ۔

اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اَثَارُوا الْاَرْضَ وَ عَمَرُوْهَاۤ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِؕ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَؕ(۹)

اور کیا اُنہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے کہ اُن سے اگلوں کا انجام کیسا ہوا (ف۱۴) وہ ان سے زیادہ زور آور تھے اور زمین جوتی اور آباد کی ان (ف۱۵) کی آبادی سے زیادہ اور ان کے رسول ان کے پاس روشن نشانیاں لائے (ف۱۶) تو اللہ کی شان نہ تھی کہ اُن پر ظلم کرتا (ف۱۷) ہاں وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے (ف۱۸)

(ف14)

کہ رسولوں کی تکذیب کے باعث ہلاک کئے گئے ان کے اجڑے ہوئے دیار اور ان کی بربادی کے آثار دیکھنے والوں کے لئے موجِبِ عبرت ہیں ۔

(ف15)

اہلِ مکّہ ۔

(ف16)

تو وہ ان پر ایمان نہ لائے ، پس اللہ تعالٰی نے انہیں ہلاک کیا ۔

(ف17)

ان کے حقوق کم کر کے اور انہیں بغیر جُرم کے ہلاک کر کے ۔

(ف18)

رسولوں کی تکذیب کر کے اپنے آپ کو مستحقِ عذاب بنا کر ۔

ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓ اٰۤى اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا بِهَا یَسْتَهْزِءُوْنَ۠(۱۰)

پھر جنہوں نے حد بھر کی برائی کی ان کا انجام یہ ہوا کہ اللہ کی آیتیں جھٹلانے لگے اور اُن کے ساتھ تمسخر کرتے