ام المومنیں سیدہ خدیجة الکبری رضی اللہ عنھا
عاجزانہ گذارش: حصول برکت کے لئے اس آرٹیکل کو پڑھ کر احقر کے حق میں بھی دعا کیجئے۔
*محمد سجاد رضوی*
#ام المومنیں’ سیدہ خدیجة الکبری رضی اللہ عنھا#
سیرت نبوی کا مطالعہ کرنے والا’ اس منظر کو فراموش کیسے کر سکتا ھے جب غارِ حرا کی بلندیوں سے صاحب نبوت و رسالت ﷺ گھر تشریف لائے تو جلالت وحی کے آثار چہرۂ انور سے نمایاں تھے ‘مزمل و مدثر کے خطابات قرانی سے نوازے جانے والے محبوبِ یکتا نے اپنے احوال ‘ اپنی رفیقۂ حیات سے بیان فرمائے اور خدشے کا اظہار فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ھے۔۔۔۔ جس طاہرہ و صدیقہ زوجہ نے پیغمبرِ آخرﷺ کے شب و روز ملاحظہ کر رکھے تھے’ اس نے چند تاریخی کلمات بطور تسلی کہے جسے امام بخاری نے اپنی روایت میں درج کیا۔۔۔۔۔ آپ بھی ترجمہ ملاحظہ کیجئے کہ اس عفیفہ عورت نے اپنے شوہر’ امام الانبیاء و الرسل ﷺ کے بارے میں کیا کہا۔۔۔۔۔۔
“ہر گز نہیں ۔۔۔ الله کی قسم ! رب تعالیٰ آپ کو کبھی شرمندہ نہ کرے گا’ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں’ محتاجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ‘ فقیروں کو عطا کرتے ھیں’ مہمان کی عزت کرتے ہیں اور مصائب و آلام میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔”
جی ہاں۔۔۔ یہ تاریخی کلمات اس وقت ملک عرب کی سب سے امیر عورت جس کے کردار کی گواہی اپنے اور بیگانے سبھی دیتے تھے’ کی زبان سے نکلے جو خدیجة الکبریٰ کے نام سے معروف ہونے ساتھ ساتھ’ سرزمینِ عرب پہ صادق و امین کا لقب پانے والے قرشی جوان’ محمد رسول اللہ ﷺ کی شریک حیات ہونے کا بے مثال شرف لئے ہوئے ھیں۔۔۔
آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک 25 سال اور سیدہ خدیجہ ؓ تقریباً 40 سال کی تھیں جب خود حضرتِ خدیجہ ؓ نے پیغام نکاح نبیِ محترم کی طرف بھیجا جسے آپ نے اپنے چچا جنابِ ابوطالب کے مشورے سے قبول فرمایا۔۔۔ نکاح کے موقع پہ جناب ابوطالب نے جو خطبہ دیا وہ بھی تاریخی اھمیت کا حامل ھے۔۔۔۔
” تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ھیں جس نے ھمیں اولاد ابراھیم و اسماعیل (علیھما السلام) سے پیدا کیا اور معد و مضر (سرکارﷺ کے نسب شریف سے دو بزرگوں کے نام) کی نسل میں رکھا۔۔۔۔ھمیں اپنے گھر کی مجاورت دی’ اپنے حرم کی شوکت عطا کی اور اس کی رکھوالی کا فریضہ بخشا’ اس گھر کو ھمارے لئے امن والا بنایا اور ہمیں لوگوں کے اندر فیصلہ کرنے والا بنا کر ھمیں تکریم دی۔ اس حمد کے بعد’ بے شک میرے بھائی کا یہ بیٹا۔۔۔ محمد بن عبداللہ (ﷺ) ۔۔۔ کسی بھی آدمی کے ساتھ ان کا (شرف و کمال اور عزت و عظمت کے لحاظ سے) وزن کیا جائے تو ان (محمد بن عبداللہ ﷺ) کا پلہ بھاری رھے گا۔ اگر چہ دنیاوی مال ان کے پاس تھوڑا ھے مگر مال تو ختم ہو جانے والا ھے۔۔۔۔۔”
پہلی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ’ شہزادے ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ ‘ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد کی والدہ ہیں۔۔ ابن ھشام کے بقول۔۔۔ ” آپ ﷺ کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ قاسم’ پھر شہزداہ طیب اور ان کے بعد شہزادے طاہر (سلام الله علیھم ابدا) ہیں جبکہ بیٹیوں میں سیدہ رقیہ’ سیدہ زینب ‘ سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ (سلام الله علیھن ابدا) شامل ہیں۔۔۔ تینوں شہزادے عالم طفولیت میں ہی اپنے معبود حقیقی کے حضور حاضر ھو گئے جبکہ چاروں بیٹیوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ھجرت مدینہ کا بھی شرف پایا۔۔۔۔
ذرا نسب پہ نظر ڈالئے تو آپؓ بھی قرشی ھیں۔ جناب قصی پہ جا کر آپ کا سلسلہ نسب آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ھے۔ آپ صاحب مال و شرف تاجر خاتون تھیں اور مکہ شریف میں آپ کی شرافت و کرامت کا شہرہ تھا’ اھل مکہ میں سے لوگوں کو اپنا مال دے کر تجارت کی غرض سے دوسرے علاقوں میں بھیجا کرتی تھیں۔ نبی کریم ﷺ کی صداقت و امانت کے ڈنکے بجے تو کردار کی خوشبو اس عفیفہ خاتون تک بھی پہنچی ‘ آپؓ نے بہترین مال کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو ملک شام کی طرف روانہ کیا اور ساتھ ہی خدمت کے غلام میسرہ بھی دیا۔۔۔ واپسی ہوئی تو دوگنا نفع اور میسرہ کی زبان سے سرور دو عالم ﷺ کی عزت و تکریم کی باتیں ۔۔۔ ملک شام کے راھب کا آنحضرت ﷺ کے بارے میں نبوت کی پیشین گوئی کا تذکرہ۔۔۔ اور آپ ﷺ پہ آسمان سے بادلوں کا سایہ۔۔۔۔ نیز معاملات میں صداقت و امانت کی خوشبو۔۔۔۔ یہ سب کچھ دیکھ کر جناب خدیجہ ؓ نے نکاح کی پیشکش کی ‘ جس کا تذکرہ پہلے ھوچکا۔۔۔۔۔
رب ذوالجلال نے اس پاکدامن خاتون کو اپنے دین کی خدمت کے لئے قبول فرما لیا اور اپنے محبوب ﷺ کے حرم میں داخل کردیا۔۔۔۔ آپؓ کی اولاد کرام میں سے سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنھا کو تاریخی’ دینی اور معاشرتی عزت و عظمت حاصل ہوئی ۔۔۔۔۔۔ آپؓ “بضعہ رسول کریمﷺ” یعنی سرکار مدینہ ﷺ کے جسم کا ٹکڑا’ ھونے کا شرف۔۔۔ شیر خدا حیدر کرارؓ کی زوجیت اور حسنین کریمین ؓ کی والدہ۔۔۔۔ خاتون جنت۔۔۔ عفت و عزت و عظمت کی پیکر۔۔۔۔ زھد و تقوی اور عبادت گذاری کا مجسمہ ۔۔ الغرض آپؓ کے فضائل و کمالات شمار سے باہر ہیں۔۔
جب بھی اسلام کی رگوں میں دوڑنے والے مقدس خون اور شفاف جذبوں کا ذکر چھڑے گا’ سیدہ خدیجہ الکبریٰ ؓ کا نام سرفہرست رھے گا۔ خواتین میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ساری زندگی اور دولت صاحب رسالت و نبوت ﷺ کے لیے وقف کردی۔ جب آپ کا اور جناب ابوطالب کا انتقال ھوا تو آنحضرت ﷺ کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ھے کہ آپ ﷺ نے اس سال کو “عام الحزن” یعنی غم کا سال قرار دیا۔ جب تک آپ زندہ رہیں ‘ نبی کریم ﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔۔ آپ کے وصال اور جناب ابوطالب کے بچھڑنے سے قریش سر عام اذیتیں دینے لگے اور دشمنی میں بے خوف ھوگئے۔۔۔۔ ان دو شخصیتوں کی وفات کے بعد ‘ اھل مکہ کی جانب سے ایسے ایسے وار اسلام اور صاحب اسلام پہ ھوئے جنہیں بیان کرتے ہوئے’ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر قربان جائیے استقامت کے کوہ گراں’ رحمة للعالمین ﷺ پہ کہ پائے ثبات میں ذرا بھر لرزش نہیں آئی بلکہ کلمۂ حق بلند سے بلند تر ھوتا چلا گیا۔۔ یہانتک کہ ھجرت مدینہ کا حکم نازل ھوا۔۔۔
اختتام مضمون پہ چند فضائل جو معتبر احادیث میں وارد ہوئے۔۔۔ صحیح بخاری کی روایت میں ھے کہ حضرت ابوھریرہؓ فرماتے ہیں جبریلِ امین نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ھوئے اور کہا’ یارسول الله ﷺ ! خدیجہ آپ کی پاس ایک برتن لے کر آرہی ھیں جس میں کھانے پینے کا سامان ھے’ جب آپ کے پاس آ جائیں تو انھیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام دیجیئے ۔۔۔ اور انھیں بشارت دیجئے کہ ان کے لئیے جنت میں موتیوں کا بنا گھر ھے جس میں نہ شور ھے’ مشقت ۔۔۔۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے ایسی غیرت (جو عورتوں کی طبیعت میں دوسری عورت کے لئیے ھوتی ہے) کسی پہ نہیں محسوس نہیں کی جتنی حضرت خدیجہ کےلئے ‘ حالانکہ میں نے انھیں دیکھا بھی نہیں ۔۔۔ (کیونکہ ) نبی کریم ﷺ ان کا ذکر کثرت سے فرماتے’ جب کبھی کوئی جانور ذبح فرماتے اور گوشت کے حصے کرتے تو سب سے پہلے سیدہ خدیجہؓ کی سہیلیوں کے گھر بھجواتے۔۔۔۔ کبھی کبھی میں پکار اٹھتی۔۔۔۔ “گویا کہ خدیجہ کے علاوہ دنیا میں کوئی اور عورت ھے ہی نہیں ۔۔!!” تو حضور ﷺ جواباً سیدہ خدیجہ ؓ کی شفقتوں اور احسانات کا ذکر شروع کردیتے اور فرماتے اس سے میری اولاد ھوئی ھے۔۔۔۔
حضرت سیدہ خدیجه ؓ کی قبر شریف مکہ المکرمہ میں جنت المعلی کے اندر ھے۔ ناچیز کی حاضری ھوئی تو تاریخ نبوی کے سارے حسین رنگ تصورات کی صورت آ جمع ھوئے اور زبان ہچکیوں اور آنکھیں آنسووں میں مصروف ھو گئیں۔۔۔ رب ذوالجلال ان ہستیوں کے صدقہ سے امت کا بوجھ ہلکا فرمائے۔