فِيۡهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِۙ لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنٌّۚ ۞- سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 56
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فِيۡهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِۙ لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنٌّۚ ۞
ترجمہ:
ان جنتوں میں نیچی نظر رکھنے والی بیویاں ہوں گی جن کو ان متقین سے پہلے کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ کسی جن نے
انسان عورتوں کے ساتھ جنات کے جماع کرنے کے جواز میں مذاہب
الرحمن :56-57 میں فرمایا : ان جنتوں میں نیچی نظر رکھنے والی بیویاں ہوں گی جن کو ان متقین سے پہلے کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ کسی جن نے۔۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔
یعنی ان ریشم کے بستروں میں بیویاں ہوں گی، ” قاصرات الطراف “ کا معنی یہ ہے کہ ان بیویوں کی نظریں اپنے شوہروں کے سوا اور کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کے شوہروں سے پہلے ان سے کسی انسان نے جماع کیا ہوگا نہ جن نے۔
علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ جن بھی عورتوں کے ساتھ انسانوں کی طرح جماع کرتا ہے اور جن بھی جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی جنیات بھی ہوں گی ضمرہ نے کہا : مومنین کے لئے ان میں سے بڑی آنکھوں والی حوریں ہوگی، پس انسیات انسانوں کے لئے ہوں گی اور جنیات جنات کے لئے ہوں گی۔
علامہ فشیری شافع نے کہا ہے کہ مومن جنات کی جو حوریں ہوں گی ان کو اس سے پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ اور مومن انسانوں کی جو حوریں ہوں گی ان کو اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا ہوگا کیونکہ دنیا میں بھی جن آدم کی بیٹیوں سے جماع نہیں کرتے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ جائز ہے کہ جنات بنات آدم سے جماع کریں اور مجاہد نے کہا ہے کہ جب کوئی مرد ” بسم اللہ “ پڑھے بغیر جماع کرے تو اس کے آلہ کے ساتھ جن چمٹ جاتا ہے اور وہ بھی انسان کے ساتھ جماع کرتا ہے اور اس کی دلیل یہ آیت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : بڑی آنکھوں والی حور کے ساتھ اس سے پہلے کسی انسان نے جماع کیا ہوگا نہ جن نے، اس سے تمہیں یہ معلوم ہوگا کہ آدم زاد عورتوں کے ساتھ کبھی جن بھی جماع کرتے ہیں اور بڑی آنکھوں والی حوریں اس عیب سے بری ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تنزیہہ کی ہے اور طمث کا معنی جماع کرنا ہے۔
(الجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 164-165، دارالفکر بیروت 1415 ھ)
علامہ عبدالرحمان علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
مقاتل نے کہا : ان کو اس سے پہلے کسی نے نہیں چھوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جنت میں پیدا کیا گیا ہے اور اس بناء پر یہ حور کی صفت ہے اور شعبی نے کہا : متقین کی یہ بیویاں دنیا کی وہ عورتیں ہوں گی جن کے پیدا ہونے کے بعد ان کو کسی انسان نے چھوا نہ کسی جن نے اور اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ جن عورت کے ساتھ انسان کی طرح جماع کرتا ہے :
(زادالمسیرج 8 ص 134، مکتب اسلامی بیروت 1407 ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس آیت میں جن کے ذکر کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جن تو جماع نہیں کرتے ؟ ہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جن جماع کرتے ہیں، اسی وجہ سے ان کی اولاد اور ذریات ہیں بلکہ اختلاف اس میں ہے کہ وہ انسان عورتوں سے جماع کرتے ہیں یا نہیں اور مشہور یہ ہے کہ وہ انسان عورتوں سے جماع کرتے ہیں ورنہ جنات میں حسب اور نسب نہ ہوتا۔ اور اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ (تفسیر کبیرج 10 ص 376، داراحیاء التراث العربی بیروت 1415 ھ )
جنات کے جنت میں داخل ہونے کے متعلق مذاہب فقہا
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں :
انسان عورتوں کو اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا اور مونث جن کو اس سے پہلے کسی مذکر جن نہیں نے چھوا اور اس میں یہ دلیل ہے کہ جن بھی جنت میں جماع کریں گے۔
اس عبارت کی شرح میں علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی حنفی متوفی 1069 ھ لکھتے ہیں :
” طمث “ کا معنی جماع کرنا ہے اور مس کرنے سے بھی یہی مراد ہے اور اصل میں ” طمٹ “ خون نکلنے کو کہتے ہیں، اسی وجہ سے حیض کو بھی ” طمٹ “ کہا جاتا ہے او کنواری عورتوں کے ساتھ جماع کرنے کو بھی ” طمٹ “ کہتے ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ جماع کرنے سے بھی خون نکلتا ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جنت کی حوروں کے ساتھ جب بھی جماع کیا جائے گا وہ کنواری ہوں گی اور اس آیت میں یہ دلیل بھی ہے کہ جنات بھی جنت میں داخل ہوں گے اور وہ جماع بھی کریں گے کیونکہ وہ جنت میں نعمتوں کے ساتھ باقی رہیں گے جیسا کہ کافر جن دوزخ میں عذاب کے ساتھ باقی رہیں گے اور یہی صحیح قول ہے اور اس میں اس قول کا رد ہے کہ مومنین جنات کو ثواب نہیں ملے گا، ان کی جزا صرف یہ ہے کہ ان کو عذاب نہ دیا جائے اور ان کو حساب کے بعد مٹی بنادیا جائے جیسا کہ حیوانات کو مٹی بنادیا جائے گا۔ (عنایۃ القاضی ج 9 ص 59، دارالکتب العلمیہ بیروت 1417 ھ)
علامہ مصلح الدین مصطفیٰ بن ابراہیم رومی حنفی متوفی 880 ھ ” بیضاوی “ کی شرح میں لکھتے ہیں۔
قاضی بیضاوی نے جو یہ کہا ہے کہ جن بھی جنت میں جماع کریں گے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر جن جنت میں جماع نہ کریں تو پھر جنات پر کوئی احسان نہیں ہوگا حالانکہ اس آیت کے بعد فرمایا ہے : (الرحمن 57) کہ انسانوں اور جنات دونوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں ایسی حوریں عطا فرمائے گا جو صرف اپنے شوہر کو دیکھنے والی ہوں گی ان کو (الرحمن 56) اور (الرحمن 72) سے تعبیر فرمایا ہے۔ (حاثیۃ ابن التمجید علی البیضاوی ج 18 ص 378، دارالکتب العلمیہ بیروت 1422 ھ)
علامہ عصام الدین اسماعیل بن محمد الحنفی القونوی متوفی 1195 ھ لکھتے ہیں :
ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مذہب یہ ہے کہ مومنین جن کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ان کی جزاء صرف یہ ہے کہ ان کو عذاب نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے اپنی قوم سے کہا :
اے ہماری قوم اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لائو تو اللہ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ میں رکھے گا۔ (الاحقاف :31)
اور جنات کے متعلق اس آیت میں یہ نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دائمی اجر وثواب دے گا، اس لئے ہمارے امام نے جنات کے جنت میں داخل ہونے ہونے کے قول کو اختیار نہیں فرمایا :
(حاشیۃ القونوی علی البیضاوی ج 18 ص 378، دارالکتب العلمیہ بیروت 1422 ھ )
میں کہتا ہوں کہ ائمہ ثلاثہ جو جنات کے جنت میں دخول کے قائل ہیں ان کا استدلال الرحمن 56 اور الرحمن 72 کی صریح آیات سے ہے اور اس آیت میں اس کا ذکر نہ ہونے سے ان کے جنت میں دخول کی نفی نہیں ہوتی جبکہ الرحمن 52 ۔ 57 میں ان کے جنت میں داخل ہونے کا ثبوت ہے نیز عقل سلیم بھی اس کی موید ہے کیونکہ جنات کو احکام کا مکلف کیا گیا ہے اور جب ان کو ان کے برے کاموں پر سزا ملے گی تو ان کو ان کے نیک کاموں پر جزاء بھی ملنی چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
علامہ ابو سعود محمد بن محمد حنفی متوفی 982 ھ لکھتے ہیں۔
جنت میں جو انسان عورتیں ہیں ان کو ان کے شوہروں سے پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا اور جنت میں جو جنیات ہیں ان کو اس سے پہلے کسی جن نے نہیں چھوا۔ (تفسیر ابی سعود ج 6 ص 181، دارالکتب العلیمیہ بیروت 1419 ھ)
مجھ کو جو ظن غالب ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں کو انسان بیویاں ملیں گی اور حوریں بھی ملیں گی اور جنات کو جنیات بیویاں ملیں گی اور حوریں بھی ملیں گی اور کسی انسان کو جنیہ نہیں ملے گی نہ کسی جن کو انسیہ ملے گی اور مومن خواہ انسان ہو خواہ جن ہو اس کو وہی حور ملے گی جو اس کی نوع کے لائق ہو اور اس کا نفس اس کی خواہش کرے اور اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جن اپنی نوع کی مونث جنیہ سے جماع کرتے ہیں جیسا کہک انسان اپنی نوع کی مونث انسان کے ساتھ جماع کرتے ہیں اور وہ جنت میں اپنی نعمتوں کے ساتھ اسی طرح باقی رہیں گے جس طرح کافر جن دوزخ میں اپنے عذاب کے ساتھ باقی رہیں گے۔
امام ابو یوسف، امام محمد ابن ابی لیلیٰ ، اوزاعی اور اکثر ائمہ اور فقہا کا یہی مذہب ہے جیسا کہ علامہ عینی نے ” شرح بخاری “ میں ذکر کیا ہے کہ جنات کو ان کی اطاعت پر ثواب دیا جائے گا اور ان کی معصیت پر سزا دی جائے گی اور ان میں سے مومنین انسانوں کی طرح قیامت کے دن جنت میں داخل ہوں گے اور امام ابوحنیفہ سے اس مسئلہ میں تین روایات ہیں :
1 ان کو دوزخ سے نجات کے سوا او کوئی ثواب نہیں ملے گا پھر ان سے کہا جائے گا : مٹی بن جائو، جیسے باقی حیوانات سے کہا جائے گا۔
2 وہ جنت میں داخل ہوں گے لیکن جنت میں ان کو کوئی نعمت نہیں ملے گی۔
3 جنات کی جزاء کے معاملہ میں توقف کرنا چاہیے۔ کردری نے کہا : اکثر روایات میں اسی طرح ہے اور ابو اسحاق بن الصفار کے ” فتاوی “ میں لکھا ہے کہ جنات نہ جنت میں ہوں گے نہ دوزخ میں، ان کی جزا کا صرف اللہ تعالیٰ کو علم ہے۔
امام مالک اور ایک جماعت سے منقول ہے کہ جنات جنت کے وسط میں ہوں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ اصحاب الاعراف ہیں۔ ضحاک نے کہا : ان کو تسبیح اور ذکر کا الہام کیا جائے گا اور ان کو اس میں ایسی ہی لذت آئے گی جیسے ابن آدم کو جنت کی نعمتوں میں آتی ہے۔ الحارث المحاسبی نے کہا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے ہم ان کو دیکھ سکیں گے اور وہ ہم کو نہیں دیکھ سکیں گے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھیں گے، اسی طرح فرشتے بھی اللہ عزوجل کو نہیں دیکھیں گے، ما سوائے حضرت جبریل (علیہ السلام) کے کیونکہ وہ ایک بار اللہ عزوجل کو دیکھیں گے۔
اور زیادہ صحیح اکثر آئمہ او علماء کا مذہب ہے کہ اللہ عزوجل کو دیکھنے میں انسانوں اور جنات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(روح المعانی جز 27 ص 183، دارالفکر بیروت 1417 ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 56