يَسۡئَـلُهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِىۡ شَاۡنٍۚ۞- سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 29
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَسۡئَـلُهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِىۡ شَاۡنٍۚ۞
ترجمہ:
اسی سے سوال کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں، وہ ہر آن نئی شان میں ہے
ہر روز نئی شان میں ہونے کے ضمن میں اللہ کی نعمتیں
الرحمن :29-30 میں فرمایا : اسی سے سوال کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔ الایۃ
آسمان والے اللہ سے رحمت کا سوال کرتے ہیں اور زمین والے اللہ سے رزق کا سوال کرتے ہیں، حضرت ابن عباس نے فرمایا : آسمان والے اللہ سے مغفرت کا سوال کرتے ہیں اور زمین والے اللہ سے مغفرت اور رزق کا سوال کرتے ہیں : ابن جریج نے کہا : فرشتے زمین والوں کے لئے رزق کا سوال کرتے ہیں۔
وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے، اس کی تفسیر میں یہ حدیث ہے : حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی شان سے یہ ہے کہ وہ گناہ معاف کرتا ہے اور غم کو دور کرتا ہے، ایک قوم کو سر بلند کرتا ہے اور دوسری قوم کو سرنگوں کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 202، السنۃ لابن ابی عاصم رقم الحدیث :301، البزار رقم الحدیث 2268)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اللہ گناہ معاف کرتا ہے اور غم کو دور کرتا ہے اور دعائوں کو قبول کرتا ہے۔ (مسند البزار (کشف الاستار) رقم الحدیث 2268)
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی شان سے دنیا اور آخرت دو دن ہیں، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حکم دے کر اور کسی کام سے منع کر کے آزماتا ہے اور زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور عطاء کرتا ہے اور روک لیتا ہے اور قیامت کے دن اس کی شان جزا دینا ہے اور حساب لینا ہے اور ثواب اور عتاب دینا ہے اور لغت میں شان کا معنی عظیم کام ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ کی شان یہ ہے کہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، اور بیمار کو تندرست کرتا ہے اور تندرست کو بیمار کردیتا ہے، خوش حالی کو تنگ دست کردیتا ہے اور تنگ دست کو خوش حال کردیتا ہے ذلیل کو عزت دار کردیتا ہے اور عزت دار کو ذلیل کردیتا ہے فقیر کو غنی کرتا ہے اور غنی کو فقیر کردیتا ہے۔
” کل یوم ھو فی شان “ کے مسئلہ تقدیر سے تعارض کا جواب
عبداللہ بن طاہر نے الحسین بن المفصل کو بلا کر کہا : مجھے قرآن مجید کی تین آیتوں میں اشکال ہے، میں نے آپ کو ان کے حل کے لئے بلایا ہے، پہلی آیت یہ ہے کہ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کر کے اس کی لاش کو دفن کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا :
پھر وہ ندامت کرنے والوں میں سے ہوگیا۔ (المائدۃ :31)
صحیح حدیث میں ہے کہ ندامت توبہ ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ندامت توبہ ہے۔
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4252، مسند حمیدی رقم الحدیث 105، مسند احمد ج 1 ص 376، مسند ابو یعلی رقم الحدیث 4969، المستدرک ج 4 ص 243 حلیۃ الاولیاء ج 8 ص 412، سنن بیہقی ج 10 ص 154 شعب الایمان رقم الحدیث 7029)
اور جب قابیل ھابیل کو قتل کر کے نادم ہوگیا تو اس نے توبہ کرلی پھر اس کو عذب کیوں ہوگا ؟
الحسین بن المفصل نے جواب دیا کہ قابیل ھابیل کو قتل کرنے پر نادم نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کی لاش کو اٹھائے اٹھائے پھرنے پر نادم ہوا تھا، وہ ہابیل کی لاش اٹھائے اٹھائے پھر رہا تھا کہ اس لاش کو کیسے چھپائے، پھر جب اس نے ایک کوے کو زمین کھودتے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا :
اس نے کہا : ہائے افسوس ! کیا میں اس کوے کی طرح بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، پھر وہ ندامت کرنے والوں میں سے ہوگیا۔ (المائدۃ 31)
عبداللہ بن طاہر نے کہا : میرا دوسرا اشکال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے۔ (الرحمن 29)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر روز ایک نیاکام کرتا ہے، حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے یہ صحیح حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
قلم تقدیر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق لکھ کر خشک ہوچکا ہے۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث 2140، مسند احمد ج 3 ص 112)
پھر جب سب کچھ لکھا جا چکا ہے تو پھر ہر روز ایک نیا کام کرنے کا کیا مطلب ہے ؟
الحسین بن المفصل نے جواب دیا کہ اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ ہر روز ایک نیا کام کرتا ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہر روز ایک نئے کام کو ظاہر فرماتا ہے، لہذا اس آیت میں اور مسئلہ تقدیر میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
عبداللہ بن طاہر نے کہا : میرا تیسرا اشکال یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے :
انسان کے لئے اسی عمل کا اجر ہے جو اس نے کیا ہے۔ (النجم :39)
حالانکہ قرآن مجید کی آیات میں یہ صراحت ہے کہ ایک عمل کا دس گنا اجر ملتا ہے اور سات سو گنا اجر ملتا ہے اور اللہ جس کے لئے چاہے اس اجر کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر دیتا ہے۔
الحسین بن المفصل نے کہا : انسان کے عمل کا اتنا ہی اجر دینا اللہ تعالیٰ کا عدل ہے اور اس کا دگنا چوگنا اور بےحساب اجر دینا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
تب عبداللہ بن طاہر نے الحسین بن المفصل کے سر پر بوسہ دیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔
(الجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 153، موضحا و مفصلاً و مخرجاً ، دارالفکر بیروت 1415 ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 29